معذوروں پر سندھ اسمبلی کے باہر تشدد
معذور افراد کی جانب سےسرکاری ملازمتوں میں کوٹا نہ ملنے پر مظاہرہ کرنے کی کوشش پر پولیس نے لاٹھی چارج کردیا۔
پیر کو شہر قائد میں عجیب اور افسوس ناک صورتحال نظر آئی ، ایک طرف معذور افراد کی جانب سے سرکاری ملازمتوں میں کوٹا نہ ملنے اور مطالبات منظور نہ کیے جانے پر سندھ اسمبلی کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کرنے کی کوشش پر پولیس نے لاٹھی چارج کردیا جس کے باعث حاملہ خاتون سمیت کئی معذور زخمی ہوگئے جب کہ پولیس نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ احتجاج کرنے والے کئی معذوروں کو گرفتار بھی کرلیا جنھیں بعد میں صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر شاہ کی مداخلت کے بعد رہا کردیا گیا ، زخمی خاتون کو اسپتال منتقل کردیا گیا ۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ملازمتیں نہ ملنے پر احتجاج جمہوری حق نہیں، اور وہ بھی جب دو فیصد کوٹہ پر ملازمتیں نہ دیے جانے پر معذور افراد لب کشائی کریں، ان میں کوئی مسلح نہیں تھا،وہ پر امن طورپر سندھ اسمبلی کے سامنے آئے تھے،ان سے ان کی فریاد سننے کا انسانی وسیلہ وہ نمایندے تھے جو اسمبلی کے اندر دھمال ڈالے ہوئے تھے۔ سندھ کے عوام یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اسمبلی کے اراکین ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کریں ایک دوسرے کو دھکے دیں، زبردست نعرے بازی کریں وہ سب جائز ہے مگر معذور لوگ اپنی فریاد لے کر آئیں تو ان پر ڈنڈے برسائے جائیں۔ یہ جمہوری طرز عمل یا انسان دوستی نہیں ہے۔
اپوزیشن لیڈر اظہار الحسن نے کہا کہ سندھ حکومت بات نہیں سننا چاہتی ۔ ضرورت اس امر کی ہے تشدد کی ہر شکل کو مسترد کرنا ضروری ہے، اور پولیس کی بھاری نفری کو معذوروں پر لاٹھی چارج کرنے سے ہر ممکن گریزکرنا چاہیے تھا ، ان سے حکومت کا کوئی بھی نمایندہ دوران احتجاج رابطہ کرکے اور ان کی یادداشت وغیرہ لے کر انھیں مطمئن کرسکتا تھا، نمایندوں میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے تھی کہ وہ معذوروں پر ڈنڈے بازی نہ ہونے دیتے۔کیونکہ وہ معاشرے کا ایک ستم رسیدہ طبقہ ہے جس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
ان مظلوموں پر جو ملازمتیں نہ ملنے پر فریاد کناں تھے ان پر مزید ظلم کرکے سندھ حکومت نے انسان دوستی کا پیغام نہیں دیا۔ اس بہیمانہ سلوک کے ذمے دار پولیس اہلکاروں کو سزا ملنی چاہیے۔ حکام کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ معذوروں کے لیے آئین کے تحت معذروں کے لیے دو فیصد کوٹا مختص کیا گیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ جن ذمے داروں کی وجہ سے سندھ اسمبلی کے سامنے اور اس دوران اسمبلی کی جانب جانے والی سڑک میدان جنگ بنی رہی اور جنھوں نے معذروں پر تشدد کیا وہ احتساب نہ بچ پائیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ملازمتیں نہ ملنے پر احتجاج جمہوری حق نہیں، اور وہ بھی جب دو فیصد کوٹہ پر ملازمتیں نہ دیے جانے پر معذور افراد لب کشائی کریں، ان میں کوئی مسلح نہیں تھا،وہ پر امن طورپر سندھ اسمبلی کے سامنے آئے تھے،ان سے ان کی فریاد سننے کا انسانی وسیلہ وہ نمایندے تھے جو اسمبلی کے اندر دھمال ڈالے ہوئے تھے۔ سندھ کے عوام یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اسمبلی کے اراکین ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کریں ایک دوسرے کو دھکے دیں، زبردست نعرے بازی کریں وہ سب جائز ہے مگر معذور لوگ اپنی فریاد لے کر آئیں تو ان پر ڈنڈے برسائے جائیں۔ یہ جمہوری طرز عمل یا انسان دوستی نہیں ہے۔
اپوزیشن لیڈر اظہار الحسن نے کہا کہ سندھ حکومت بات نہیں سننا چاہتی ۔ ضرورت اس امر کی ہے تشدد کی ہر شکل کو مسترد کرنا ضروری ہے، اور پولیس کی بھاری نفری کو معذوروں پر لاٹھی چارج کرنے سے ہر ممکن گریزکرنا چاہیے تھا ، ان سے حکومت کا کوئی بھی نمایندہ دوران احتجاج رابطہ کرکے اور ان کی یادداشت وغیرہ لے کر انھیں مطمئن کرسکتا تھا، نمایندوں میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے تھی کہ وہ معذوروں پر ڈنڈے بازی نہ ہونے دیتے۔کیونکہ وہ معاشرے کا ایک ستم رسیدہ طبقہ ہے جس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
ان مظلوموں پر جو ملازمتیں نہ ملنے پر فریاد کناں تھے ان پر مزید ظلم کرکے سندھ حکومت نے انسان دوستی کا پیغام نہیں دیا۔ اس بہیمانہ سلوک کے ذمے دار پولیس اہلکاروں کو سزا ملنی چاہیے۔ حکام کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ معذوروں کے لیے آئین کے تحت معذروں کے لیے دو فیصد کوٹا مختص کیا گیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ جن ذمے داروں کی وجہ سے سندھ اسمبلی کے سامنے اور اس دوران اسمبلی کی جانب جانے والی سڑک میدان جنگ بنی رہی اور جنھوں نے معذروں پر تشدد کیا وہ احتساب نہ بچ پائیں۔