بگٹیوں اور مریوں کے درمیان
بلوچستان کے دو بڑے اور بااثر قبیلوں یعنی مری اور بگٹی میں سے بگٹی زیادہ تعلیم یافتہ اور باروزگار ہیں
سنگین جرائم کے مرتکب مجرموں کو جسمانی سزا دینے کے میں خلاف نہیں اس سے دوسروں کو عبرت ہوتی ہے مگر جنرل ضیاء کے دور میں سیاسی ورکروں اور صحافیوں کو کوڑے مارنا انتہائی بیہمانہ اور قابلِ مذّمت فعل تھا۔
سبی میں ہماری jurisdiction شہر کی میونسپل حدود تک محدود تھی۔ اس سے آگے بی ایریا شروع ہوجاتا تھا جہاں امن وامان کی ذمے داری پولیس کے بجائے لیویز (جسے فورس کہنا کسی بھی فورس کی توہین ہے) کی تھی اور اب بھی ہے۔ انگریز کا بنایا ہوا یہ سسٹم عوامی مفاد میں نہ ہونے کے باوجود سرداروں اور افسر شاہی نے اپنے مفاد کے لیے قائم رکھا ہوا ہے۔
1985میں سبی ڈویژن کے ضلع نصیرآباد میں ایک قابل اور نیک نام پی ایس پی افسر پرویز رحیم راجپوت ایس پی تھے۔ ویسے بھی وہاں بی ایریا والاڈرامہ نہیں تھا، پورے ضلع میں ایک قانون اور ایک نظام تھا۔ میری درخواست پر ڈی آئی جی صاحب نے مجھے ایک ماہ کے لیے وہاں بھیج دیا۔
ضلعی ہیڈکواٹرکا نام جھٹ پٹ تھا جہا ں میرے گورنمنٹ کالج لاھورکے کلاس فیلوبابر یعقوب (جو بعد میں بلوچستان کے چیف سیکریٹری بنے) اسسٹنٹ کمشنر تھے، انھیں پتہ چلا تو انھوں نے فون کیا " میں ایک مہینے کے لیے کورس پر جارہاہوں سرکاری گھر خالی ہے یہیں آکر رہو" لہٰذا میں ایک مہینہ انھی کے گھر پر رہا، مٹی کی چَوڑی دیواروں والا گھر تھا،میں رات کو چھت پر سوتاتھا جہاں مدھ بھری ٹھنڈی ہوا فوراً اپنی آغوش میں لے لیتی۔
جھٹ پٹ میں میرے قیام کے دوران وزیرآبادسے کسی دوست نے مجھ سے بات کرنے کے لیے ایکسچینج کے ذریعے کال بک کرائی (اُسوقت نہ موبائل فون کی عیاشی تھی اور نہ ہی اُس دور افتادہ قصبے کو ڈائریکٹ فون کی سہولت حاصل تھی) آپریٹر نے پوچھا آپ نے کہاں بات کرنی ہے۔ دوست نے کہا "جھٹ پٹ بات کرنی ہے"۔۔۔ آپریٹر بار بار کہتا رہا فکر نہ کریں جھٹ پٹ (یعنی جلدی)ہی ملادونگا مگر جگہ بھی تو بتائیں کس جگہ فون ملانا ہے؟ آپریٹر اور میرے دوست کے مذاکرات کافی دیر تک جاری رہے۔
نصیرآباد میںکئی بار ڈاکوؤں کے خلاف ریڈکے لیے جانے کا موقع ملا،بارہا مجرموں سے مڈھ بھِیڑ ہوئی جس میںکئی بار خطرناک مجرم مارے گئے اور کئی دفعہ پولیس ملازم بھی شہید یا زخمی ہوئے۔
عملی پولیسنگ سیکھنے کا بڑااچھا موقع ملا۔میں نے ٹریننگ میں ڈوب کر دلچسپی لی، اس دوران دو عیدیں آئیں ایک پر چھٹی کی مگردوسری عیدپر وہیں رہا۔قبائلی بلوچستان اور بلوچوں کا مشاہدہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو مجھے ضلع کے تمام تھانوں کی انسپکشن کے لیے بھیج دیاگیا۔کئی تھانے ضلعی ہیڈ کواٹرز سے بیس سے چوبیس گھنٹے کی مسافت پر تھے۔
ڈرائیور اور ایک گن مین لے کر میں سبی سے نکل کھڑا ہوا۔ سندھ اور پنجاب کی حدود سے گزر کر کشمور کے راستے شام کو سوئی پہنچا(جسکی وجہ سے قدرتی گیس سوئی گیس کہلاتی ہے)۔ رات کو گیس کمپنی کے خوبصورت ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا صبح تھانے کے معائنے کے لیے گیا تو معلوم ہواکہ سال بھر میںمعمولی نوعیت کے کل پانچ مقدمات درج ہوئے ہیں۔
مجھے بتایا گیاکہ لوگ مقدّمہ یادرخواست لے کر میں تھانے نہیں نواب صاحب کے پاس جاتے ہیں۔ سال میں ایک یا دو باربڑے نواب بگٹی صاحب یا ان کا بیٹا سلیم بگٹی آتے ہیں اور ریسٹ ہاؤس کے لان میں عدالت لگ جاتی ہے اورو ہیں کیسوں کے فیصلے ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ روزسوئی سے ہم کچّے راستے سے (اب پختہ سڑک بن چکی ہے) ڈیرہ بگٹی کے لیے روانہ ہوئے۔
اسی ایریا میں گیس کی وہ پائپ لائنیں ہیں جنھیں اکثرشرَپسند باغی نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایک گھنٹے کی ڈرائیوکے بعد دور سے ایک خوبصورت عمارت نظر آئی، ڈرائیور نے بتایا ڈیرہ بگٹی آگیا ہے اور یہ ڈگری کالج کی نئی عمارت ہے۔ میرے کہنے پرڈرائیور نے گاڑی کالج کی طرف موڑ دی۔
چوکیدار گیٹ کے قریب بکریاں چراتا ہوا مِل گیا میں نے کہا پرنسپل صاحب سے ملنا ہے۔ کہنے لگا وہ تو کوئٹہ میں رہتے ہیں ۔'کوئی اور ٹیچر تو ہوگا؟'۔۔۔کہنے لگا" سب اپنے گھروں میں رہتے ہیں"۔ میں نے کہا" میں طلباء سے ملنا چاہونگا" اس نے کہاکہ "یہاں کوئی طالب علم نہیں ہے "۔" تو یہاں کیا ہے؟" کہنے لگا" اس عمارت کے کلاس روموں میں نواب صاحب کا غلّہ ذخیرہ ہوتا ہے اور ٹیچروں کو ان کے گھروں پر تنخواہیں پہنچ جاتی ہیں"۔
شہر پہنچ کر میں نے ڈرائیور سے کہا سب سے پہلے ڈیرہ بگٹی کا پورا چکر لگاؤ۔ شہر کیا تھا سرکاری دفتروں کے علاوہ نواب اکبر بگٹی صاحب کی وسیع و عریض حویلی تھی جسکے اندر سیکڑوں کی تعداد میں ان کے ذاتی ملازموں اور محافظوں کے کواٹر تھے۔ شام کو کھانے پر اے سی کیپٹن جمیل نے علاقے کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں۔
ڈیرہ بگٹی میں ہی کسی نے بتایاکہ ایک بار نواب بگٹی کے والدصاحب نئی رائفل چیک کرنے کے لیے حویلی کی چھت پر بیٹھے تھے تو انھوں نے اس کام کے لیے سب سے پہلے نظر آنے والے راہگیر کو منتخب فرمایا اور اس کے سر کو ٹارگٹ بننے کا اعزاز بخشا۔ مقتول کے ورثاء خاموش رہنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکے۔ صبح ریسٹ ہاؤس کے ملازموں سے میں پوچھتا رہا کہ "آپ اپنے بچوں کو پڑھائیں گے یا نواب صاحب کا غلام ہی بنا ئیں گے"؟ بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے دونوں ملازموں نے کہا کہ" ہم بچوں کو تعلیم دلائیں گے اور چاہیں گے کہ انھیں اچھی ملازمت مل جائے"۔
بلوچستان کے دو بڑے اور بااثر قبیلوں یعنی مری اور بگٹی میں سے بگٹی زیادہ تعلیم یافتہ اور باروزگار ہیں۔ مری سرداروں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ان کے علاقے میں تعلیم اور سڑک نہ پہنچ سکے، قبیلے کے نوجوانوں کو ان کے نوابوں اور سرداروں نے تعلیم سے دور رکھا ہے تاکہ وہ ان کے غلام رہیں اور ان کی بندوقوں کا بارود بنتے رہیں۔ آج کے دور میں سرداری نظام انسانوں کے استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین شکل ہے۔
بھٹو صاحب نے ایک بار سرداری سسٹم کے خاتمے کا اعلان کیاتھا لیکن وہ بھی مصلحتوں کا شکار ہوگئے اور اس پر عملدرآمد نہ کراسکے۔ ہمارے ڈونرز کو اس استحصالی نظام سے کوئی گلہ نہیں لہٰذا ان کے مال پر پلنے والی این جی اوز نے اس ظالمانہ نظام کے خلاف کبھی آواز نہیں اُٹھائی۔
ڈیرہ بگٹی کے پولیس اسٹیشن میں مقدمات کی تعداد کُل چار تھی اور وہ بھی ٹریفک حادثات سے متعلق تھے۔ عام بگٹیوں کے نزدیک تھانہ، عدالت، قانون سب کچھ نواب صاحب ہی تھے۔
ڈیرہ بگٹی کے بعد میری اگلی منزل تھی۔ سب سے جنگجویعنی مری قبیلے کے سردار نواب خیر بخش مری (جو بُھٹّو دور کے ملڑی آپریشن کے دوران افغانستان چلے گئے تھے) کا آبائی گاؤں ...کاہان ! ڈیرہ بگٹی سے قریباً پچھتّر کلومیٹر کا کچا راستہ تھا جو تماتر مری قبیلے کی بستیوں سے گزرتا تھا۔ میرے ساتھ صرف ایک گن مین تھا۔ خیر اﷲ کا نام لے کر ہم چل پڑے۔ تھانے کے معائنے اور پولیس ملازمین سے ملاقات کے علاوہ کاہان جانے کا مقصدنواب خیر بخش مری کے بھائی نواب قیصر خان سے ملاقات بھی تھا،وہ اس لیے کہ چند ہفتے پہلے قیصر خان مری کے بیٹے نے بھرے بازار میں ایک شخص کو قتل کردیا تھا۔
وجہء قتل یہ تھی کہ نواب کا بیٹا کسی لڑکے کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔ اب اسی لڑکے پر کسی اور کی بھی نظر تھی۔۔۔ رقیبِ روسیاہ کو اس 'بری حرکت' سے منع کیا گیا مگر عشق پر کس کا زور ہے رقیب نے نظریں نہ اٹھائیں تو طاقتور عاشق نے اسے دنیا سے اٹھا دیا۔ اب قاتل خود پیش ہونے سے تو رہا اورپولیس کی اتنی جرأت نہیں تھی کہ خیربخش مری کے بھتیجے کو جاکرگرفتار کرے جب کہ علاقے میں ہر طرف مسّلح مری پھر رہے ہوتے تھے۔
لہٰذا اعلٰی سطح کی میٹنگ میںیہ فیصلہ ہوا کہ قاتل کے والدنواب قیصر خان (جو حکومت سے الاؤنس اور وظیفہ بھی لے رہا تھا) کو قائل کیا جائے کہ وہ لڑکے کو قانون کے حوالے کردے۔ قیصر خان کو قائل کرنے کا فریضہ مجھے سونپا گیا۔ کاہان کے ایس ایچ او نے بتا دیا تھا کہ نواب تھانے آنے پر تیار نہیں ہے۔۔ میں نے کہا کہ ان کے گھر جاکر ملنا میں کسی طور مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔ لہٰذا طے ہوا کہ ملاقات کسی اور جگہ پر ہوگی۔
کاہان پہنچ کر مجھے بتایا گیا کہ پولیس کے لیے باہر گشت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے پولیس پر حملے کا خطرہ ہے اس لیے پولیس صرف تھانے کی سیکیورٹی پر ہی مامور ہے۔ قیصر خان مری سے بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک چھوٹے سے ریسٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ اصلی بلوچ ہونے کے ناتے قیصر خان صاف گو آدمی تھا۔ ملٹری آپریشن کی بات چھڑی تو کہنے لگا "اس آپریشن سے ہماری کمر ٹوٹ گئی تھی اگر بھٹو یہ آپریشن تھوڑی دیر اور جاری رکھتا تو ہم سرنڈر کر جاتے۔۔ آپریشن معطل ہوا تو ہماری جان بچ گئی"۔ پھر میں نے اصل اشو پر بات کرتے ہوئے کہا "نواب صاحب آپ کے حکومت کے ساتھ اچھے مراسم ہیں حکومت بھی آپکے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرتی ہے۔
آپ تعاون کے اسی جذبے کے تحت اپنے بیٹے کو پیش کرادیں" نواب کہنے لگا 'یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے' میں نے کہا وہ کیوں؟ کہنے لگا "اگر میں ایک بیٹے کو گرفتار کراؤنگا تو دوسرے بیٹے مجھے قنل کردیں گے"۔ گرفتاری کے معاملے پر تو مذاکرات کامیاب نہ ہوئے مگر مختلف موضوعات پر خوشگوار ماحول میں کھُل کربات چیت ہوتی رہی۔ میں نے کہا " آج کے جدید دور میں سرداری سسٹم کب تک چلے گا"؟ کہنے لگا " یہ اس لیے چلے گا کہ یہ اپنے لوگوں کو تخفظ اور فوری انصاف دیتا ہے ۔
آپ کے عدالتی سسٹم میں لوگ تھانے اور کچہریوں کے باہر کئی کئی سال تک ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں مگر فیصلے نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں چند گھنٹوں یا چند دنوں میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔Exceptions آپ کے سسٹم میں بھی ہیں اور ہمارے ہاں بھی ہیں مگر مجموعی طور پر انصاف کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے اور لوگ مطمئن ہیں"۔اُسوقت تو میں نے اتفاق نہ کیا مگر آج سوچتاہوں کہ ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں اتنی کمزوریاں اور قباحتیں ہیں کہ یہ عوام کو انصاف مہّیا کرنے میں ناکام ہوگیاہے ۔جو سسٹم ڈیلور نہیں کررہا وہ قبائلی باشندوں کے لیے کیسے پرکشش ہوگا؟۔
چند سال قبل ہم بلوچستان گئے تو میں نے چیف سیکریٹری سے پوچھا کہ ـ" کہا جاتا ہے کہ فنڈز کا زیادہ حصّہ سردار، ممبرانِ اسمبلی اور افسر شاہی ملکرکھا جاتے ہیں مگر ترقیاتی فنڈز کا پچیس فیصد تو گراؤنڈ پر خرچ ہوتا ہوگا؟" دیانتدار چیف سیکریٹری نے افسوسناک لہجے میں جواب دیا"دس فیصد سے زیادہ نہیں لگتا رہا۔ اگر بیس فیصد بھی لگ جاتا تو آج بلوچستان کا انفرااسٹرکچر بہت بہتر ہوتا"۔