بس گھر اور اس دہلیز کی تلاش
ایک جگہ اتنا بڑا انصاف پڑا ہوا تھا اور اتنا زیادہ تھا کہ بار دانے سے نکل نکل کر گلی میں بکھرا ہوا تھا
جو خبر اس وقت ہمارے سامنے ہے، اس قسم کی خبروں کو شاخ دار یا ٹو ان ون، یا بائی ون گٹ ون فری کہا جاتا ہے یا ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ایک ہی خبر میں اور بھی کئی خبریں اسی قیمت میں مل جاتی ہیں۔
اس بریکنگ نیوز میں ویسے تو اصل خبر اس مشہور و معروف ''دہلیز'' کے بارے میں ہے جو سیاست میں ہمیشہ سے ''مرجع خلائق'' رہی ہے یعنی ایک وزیر جو باتدبیر بھی ہے نے کہا ہے کہ ''نئے بلدیاتی نظام سے عوام کے مسائل گھر کی دہلیز پر حل ہوں گے'' لیکن اصل مسئلہ اس دہلیز کا ہے یا گھر کی دہلیز کہیے، کہ یہ کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے، یہ بات تو صاف ہے کہ ہمیشہ کی طرح ''بلدیاتی نظام'' بھی گھر کی دہلیز تک سب کچھ پہنچائے گا اور اتنے بڑے تحفے کے بعد عوام کو اور کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی، گویا
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
اب سوال یہ ہے کہ اس نئے تحفے ''بلدیاتی نظام'' کو ہم کیا نام دیں، عام طور پر امرت دھارا نامی دوا تقریباً ہر مرض کا علاج ہوتی ہے اور یہ دوا پہلے ہی سے ہمارے پاس سرکاری محکموں وزیروں اور منتخب نمایندوں کی صورت میں موجود ہے کیونکہ امرت دھارا بھی تین دواؤں کی اتحاد ثلاثہ یا سہ فریقی اتحاد ہوتا ہے، ست اجوائن، ست پودینہ اور کافور جو خشک کرسٹل کی شکل میں ہوتے ہیں باہم ملائے جائیں تو امرت دھارا نام کا لیکوئیڈ بن جاتا ہے۔
اسی طرح سرکاری محکموں کا ست، وزیروں کا کافور اور منتخب نمایندوں کا ست پودینہ ملا کر بنائے جانے والے امرت دھارے کو حکومت کہا جاتا ہے جو ہر مرض کا علاج کرتی ہے، وہ بھی صرف بیانات کے ذریعے ۔ گویا ''علاج بالبیانات'' کہیے، اب سوال یہ ہے کہ جب پہلے ہی سے ہمارے پاس تین شفا بخش اجزا محکمے، وزیر اور منتخب نمایندوں پر مشتمل امرت دھارا موجود ہے تو اس نئی دوا بلدیاتی نظام کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے جب کہ حکومت پہلے ہی سب کچھ ''گھر کی دہلیز'' پر پہنچا کر ڈھیر کر چکی ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے مختلف ''طب'' اسٹڈی کیے تو آئیورویدک طریقہ علاج میں ایک دوا پائی جس کا نام ''آروگی وردھنی وٹی'' ہے اور یہ امرت دھارا سے زیادہ اہم اس لیے ہے کہ ''امرت دھارا'' تو امراض کے لاحق ہونے پر کام کرتا ہے جب کہ آروگی وردھنی وٹی جسے صرف ''وٹی'' بھی کہا جاتا ہے۔
مرض سے پہلے استعمال کی جائے تو کوئی مرض لاحق ہی نہیں ہوتا، اس طرح ہم امرت دھارا کو ''لاحق'' اور وٹی کو لاحق سے سابق بیماریوں کا علاج کہا جا سکتا ہے، گویا اب تک تین اجزا سرکاری محکموں، وزیروں اور منتخب نمایندوں پر مشتمل حکومت نامی امرت دھارا ہمارے پاس تھی اور اب بلدیاتی نظام کی صورت میں ''وٹی'' بھی آگئی ہے۔ مبارک ہو ۔ چپڑیاں اور وہ بھی دو دو ، یعنی
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ
مطلب یہ کہ علاج تو کافی و شافی ہے، اب صرف اس مرض کو تلاش کرنا ہے جس کا نام ''گھر کی دہلیز'' ہے اور یہ نہایت جاں جوکھم کا کام ہے اس لیے کہ پہلے ہمیں اس گھر کا پتہ لگانا پڑے گا جس کی یہ دہلیز ہے یا اس دہلیز کو کھوجنا ہو گا جو اس گھر کی ہے۔
پہلے ہمیں شبہ ہوا تھا کہ شاید یہ عوام کے گھر یا دہلیز کا سلسلہ ہے لیکن جب نکلے گڈی لے کر ۔۔۔ تو رستے میں سڑک پہ ایک موڑ آیا اور میں وہیں جوتے چھوڑ آیا، کیونکہ ہر دہلیز پر یا تو دہلیز والا بیٹھا ہوا تھا یا اس سے ذرا ہٹ کر اس کے وہ ہم نشین جو رات رات بھر چوکیداری کرنے کے بعد اب سوئے پڑے تھے اور آپ تو جانتے ہیں کہ یہ چار ٹانگوں والے چوکیدار پورے کے پورے رقیب ہوتے ہیں، گویا ہمیں
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تیری رہگذر کو میں
خیر گھر سے نکلے تھے حوصلہ کر کے ۔۔۔ لوٹ آئے خدا خدا کر کے ۔۔۔ تو ایک مرتبہ پھر اخبارات اٹھائے تاکہ اس گھر اور اس دہلیز کا کوئی سراغ مل سکے، غور سے مطالعہ کرنے کے بعد اس دہلیز کی کچھ نشانیاں نوٹ کیں ہاں اگر نشانیاں نہ ہو تو تلاش کیسے کریں گے جسے ایک محترمہ نے اپنے پردیسی کی نشانیاں یوں بتائی تھیں،
میرے پردیسی کی یہی ہے نشانی
اکھیاں بلور کی شیشے کی جوانی
اسی طرح اس مطلوبہ دہلیز کی سب سے بڑی نشانی یہ پائی کہ وہاں پر ایک ہجوم ہو گا ،کسی کے ہاتھ میں انصاف کی گٹھڑی ہو گی جو اس کی دہلیز پر رکھ رہا ہو گا کسی کے پاس تعلیم کا بقچہ ہو گا اور کسی کے پاس صحت کا ڈاکٹری بکس ۔۔۔ اور سب قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں گے کہ پہلا ہٹے تو وہ بھی اپنا مال و متاع اس دہلیز پر ڈھیر کر دے۔
سو ہم ایک مرتبہ پھر نکل پڑے کہ وہ گھر اور وہ دہلیز تلاش کریں تاکہ اسے مژدہ سنا کر کچھ مٹھائی وغیرہ حاصل کریں کہ انصاف، تعلیم، صحت، روزگار اور نہ جانے کیا کیا کے بعد ''نیا بلدیاتی نظام'' بھی تمہاری دہلیز پر پہنچا ہی چاہتا ہے، ایسے مواقع پر ایک گانا ہمیں یاد ہے، وہ بھی ازبر کرا دیں گے کہ جب بلدیاتی نظام کی سواری باد بہاری دکھائی دے تو یہ گانا شروع کر دے۔
گلونہ راوڑہ د گلزارہ
زما اشنا راحئی د خاپیرو د باغ ملیارہ
جارو کومہ ورتہ لارہ
زما اشنا رازی د خاپیرو د باغ ملیارہ
یعنی اے پریوں کے باغ کے مالی ،جلدی سے پھول لا ،کیونکہ میرا محبوب آرہا ہے، میں راستے میں جھاڑو دے رہی ہوں اور تم پھول برساؤ، یعنی ستاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے، آخر کار یہاں وہاں سے پوچھ تاچھ کر ایک ہلکا سا سراغ اس دہلیز کا مل ہی گیا اور ہم اس کی طرف چل پڑے واقعی ایک اژدہام تھا، اس گلی میں جہاں وہ ''دہلیز'' بلکہ اب اگر دہلیز شریف کہا جائے تو اور اچھا رہے گا، کچھ سن گن لی تو بہت سارے الگ الگ اسٹال تھے جہاں پر محکمہ اور ہر امیدوار اپنا مال سجائے بیٹھا تھا۔
ایک جگہ اتنا بڑا انصاف پڑا ہوا تھا اور اتنا زیادہ تھا کہ بار دانے سے نکل نکل کر گلی میں بکھرا ہوا تھا اور محلے کے بچے جھولیاں بھر بھر کر لے جارہے ہیں، اس سے آگے صحت، تعلیم، روزگار، امن و امان اور نہ جانے کتنے چھوٹے بڑے دکاندار اپنا مال لیے کھڑے تھے، ایک جگہ ایک نئی دکان جو سب سے بڑی تھی لیکن خالی تھی پوچھا ۔۔۔ تو پتہ چلا کہ نئے بلدیاتی نظام والے ہیں دکان ٹھیک ٹھاک ہو چکی ہے اور مال بس پہنچنے ہی والا ہے۔
مطلب یہ کہ سب کچھ تھا لیکن جس چیز کی ہمیں تلاش تھی وہ دکھائی نہیں دے رہی تھی، وہ گھر وہ دہلیز وہ عروس ہزار داماد اور زوجہ صد شوہراں کہاں ہے، سامنے ایک کھنڈر سا دکھائی دیا جو گھر تو نہیں لگتا تھا لیکن گھر کی تہمت اس پر لگائی جا سکتی تھی، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جس گھر اور جس دہلیز کے چرچے ہیں وہ یہی ہے لیکن دہلیز اس لیے نہیں کہ رات کو اسے کسی نے چرا لیا تھا اور گھر والا جب رپٹ لکھوانے گیا تو اسے اپنے ہی کی اپنی دہلیز چرانے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا، اب اس کے لواحقین کسی بدمعاش کو ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ اس کی ضمانت اور سفارش پر اسے چھڑایا جا سکے۔