12 اگست سانحہ بابڑہ
خدائی خدمت گار تحریک مقامی طور پر چلائی جانے والی نہایت اثر انگیز تحریک تھی, بینرجی مکولیکا
WASHINGTON:
کبھی کبھار تاریخ میں ایسے واقعات رقم ہو جاتے ہیں جن کی تکلیف صدیوں تک یاد رہتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان دو قومی نظریے کے تحت وجود میں آیا اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلم اور غیر مسلم قوم کے نام پر برصغیر کی تقسیم ہوئی۔ انگریزوں کے نمایاں دشمن مسلمان تھے کیونکہ انگریزوں نے برصغیر پر مسلمانوں کو شکست دے کر حکومت قائم کی تھی۔
جنگ آزادی کی تاریخ میں کئی کردار تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن یہ تاریخ کی بدقسمتی ہے کہ نوجوان نسل اپنی تاریخ سے صرف اس وجہ سے بے خبر رہے کیونکہ اس کے سامنے اصل تاریخ مسخ کر دی جاتی ہو۔ ایک ایسا ہی کردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اور ان کی تحریک خدائی خدمت گار تھی۔ خدائی خدمت گار تحریک عدم تشدد کی انفرادیت کی وجہ سے جنگ آزادی میں اہم مقام رکھتی ہے۔
باچا خان بابا کی سربراہی میں اس تحریک نے عدم تشدد کے فلسفے پر گامزن رہتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سماجی خرابیوں کے خلاف اور پختون حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ اس تحریک نے کارکنان نے کئی مواقع پر ہندوؤں، سکھوں اور برطانوی تشدد کا سامناکیا۔
آگے بڑھنے سے پہلے تاریخ کی اس غلط فہمی کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ خدائی خدمت گار تحریک پاکستان کے خلاف تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ستمبر 1947ء میں 'سرور یاب' کے مقام پر خدائی خدمت گار تحریک کے مرکزی قائدین نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پاکستان کو تسلیم کر لیا گیا تھا، مزید یہ کہ اس سے پہلے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر کے صوبہ خیبر پختونخوا کی پاکستان میں شمولیت کے ساتھ ہی پاکستان کی وفاداری کا عہد کیا گیا تھا۔
خدائی خدمت گار تحریک کے سربراہ باچا خان نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور پاکستان کو ہی اپنا وطن قرار دیا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنان نے انگریزوں سے آزادی کے لیے قربانیاں دی تھیں، وہ نہیں چاہتے تھے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد کالے انگریز ان پر حکومت کریں۔
بینرجی مکولیکا جو کہ ''غیر مسلح پٹھان'' کے مصنف ہیں، ان کے مطابق ''خدائی خدمت گار تحریک مقامی طور پر چلائی جانے والی نہایت اثر انگیز تحریک تھی اس تحریک کے دو بنیادی اجزا تھے، اسلام اور پشتون ولی۔ عدم تشدد کا فلسفہ دراصل اسلام اور پشتون ولی کی اصل روح سے ملاپ کھاتا تھا اور یہی اس تحریک کی برطانوی راج کے دوران کامیابی کی ضمانت بھی بن گیا''۔ کہا جاتا ہے کہ خدائی خدمت گار تحریک اپنے جوبن میں ایک لاکھ سے زائد غیر مسلح سرخ پوشوں کی حمایت کے ساتھ برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
خدائی خدمت گاروں کے جلوسوں پر گاڑیاں اور گھوڑوں کے ذریعے چڑھائی کی جاتی تھی، 1930ء میں ایک موقع پر گھروال رائفل کے سپاہیوں نے غیر مسلح خدائی خدمت گار وں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ 1931ء میں 5000 خدائی خدمت گاروں کو گرفتار کیا گیا۔ 1932ء میں خواتین کو مرکزی کردار دیا گیا، خواتین رضاکاروں پر تشدد کیا جاتا رہا۔ برطانوی افواج نے1932ء میں باجوڑ کے گاؤں پر بمباری کر کے باچا خان بابا کو 4000 خدائی خدمت گاروں کے ہمراہ گرفتار کر لیا۔
باجوڑ پر یہ بمباری1936ء تک جاری رہی۔ برطانوی افواج کے اس ظالمانہ اقدام کو ایک برطانوی افسر نے 1933ء کی تجزیاتی رپورٹ میں تحریر کیا کہ ''ہندوستان مشقوں کے لیے بہترین جگہ ہے، برطانوی سلطنت میں شاید ایسا کوئی مقام نہ ہو گا جہاں افواج برطانیہ کو اپنی صلاحیتوں کو ہر طرح سے آزمانے کا موقع نہ ملتا ہو، حالیہ بمباری اس کی بہترین مثال ہے۔'' خدائی خدمت گاروں اور عام پختونوں کے درمیان غلط فہمیاں اور نا اتفاقی پیدا کرنے کی برطانوی سازشیں اب راز نہیں رہی ہیں، تاریخ ان کا پردہ چاک کر چکی ہے۔ گورنر جارج کنگھم نے اپنے تجزیاتی پرچے میں حکومت برطانیہ کو مراسلہ 1943ء ستمبر میں ارسال کیا جس میں لکھا تھا کہ ''حکومت برطانیہ کی یہ حکمت اب تک نہایت کامیاب ثابت ہو رہی ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ دراصل اسلام کے گرد گھومتی ہے۔''
خدائی خدمت گاروں کی اس تحریک اور مسلم لیگ کی مقامی قیادت کے درمیان کچھ عناصر نے ایسی غلط فہمیاں پیدا کیں جیسے آج تک تسلیم کرنے سے تامل برتا جاتا ہے۔ چونکہ خدائی خدمت گار تحریک تقسیم ہندوستان کی مخالف اس لیے تھی کیونکہ وہ اسے مسلمانوں کے درمیان تقسیم گرادنتے تھے اور مسلم اقلیت ہونے کے سبب مشکلات کا شکار ہو جائے گی اس نظریئے کو اپنایا تھا، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح دو قومی نظریئے کے تحت ایک ایسی ریاست کا حصول چاہتے تھے جس میں مسلمانوں کو تحفظ حاصل ہو اور انھیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔
درست کہا جاتا ہے کہ تاریخ ماضی کے ہر فیصلے کو میزان میں رکھ کر پیش کرتی ہے۔ آج کل بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسند حکومت جس طرح پابندیاں اور مسلمانوں کو تیسرے درجے کا شہری بنا رہی اس نے قائد اعظم کے پاکستان کے حصول کو درست ثابت کر دیا۔ تاہم خدائی خدمت گار تحریک نے برصغیر کی آزادی کے لیے برطانوی سامراج کے تمام ظلم و ستم برداشت کیے۔ خدائی خدمت گار تحریک کو کچلنے کے لیے برطانوی حکومت نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور قصہ خوانی بازار پشاور میں خدائی خدمت گار تحریک کے سرخپوش سیکڑوں غیر مسلح کارکنان پر برطانوی فوجیوں نے کھلے عام گولیاں چلائیں۔
جس میں ناقابل تلافی جانی نقصان ہوا۔ بد قسمتی سے 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد خدائی خدمت گار تحریک باقاعدہ خاتمے کا نشان بن گئی، گو کہ خیبر پختونخوا میں خدائی خدمت گار تحریک کی کانگریسی حمایت یافتہ حکومت قائم تھی لیکن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر گورنر خیبر پختونخوا نے اس حکومت کو برطرف کر دیا۔ ڈاکٹر خانصاحب کی جگہ عبدالقیوم خان نے وزارت اعلی کا منصب سنبھال لیا۔ تلخ حقیقت ہے کہ عبدالقیوم خان پہلے خود بھی کانگریس میں شامل تھے اور بعد میں مسلم لیگ کا حصہ بنے۔
عبد القیوم خان نے خان عبدالغفار خان باچا خان بابا کے درمیان روابط کو ایک سازش کے تحت منسوخ کرا دیا، کاش ایسا نہ ہوتا۔ باچا خان بابا کی گرفتاری کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک نے رہائی کے لیے پر امن احتجاج کیا جس کو کچلنے کے لیے 12 اگست1948ء کو پشاور میں بابڑہ کے مقام پر قتل عام کا سانحہ رونما ہوا جیسے پختونوں کا کربلا قرار دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ کی مقامی قیادت نے مرکزی قیادت کو اندھیرے میں رکھا۔ بابڑہ کے اس سانحے میں 600 سے زائد شہید اور1000 سے زائد غیر مسلح خدائی خدمت گار زخمی ہوئے۔ خواتین نے قرآن پاک سروں پر رکھ کر فائرنگ رکوانے کی کوشش کی لیکن بابڑہ کے اس سانحے میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔
بابڑہ کا سانحہ انگریز دور کے قصہ خوانی بازار سے بھی زیادہ خونی و ہولناک تھا لیکن ان دونوں واقعات میں ایک نمایاں فرق تھا کہ قصہ خوانی بازار میں جب خدائی خدمت گار شہید و زخمی ہو رہے تھے تو انگریزوں ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے ببانگ دہل لگائے جاتے تھے لیکن جب بابڑہ کا سانحہ ہوا تو اس میں پاکستان سے علیحدگی کے نعرے یا کوئی تحریک شروع نہیں ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستانی پختونوں نے تمام تر مصائب اور ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو ترجیح دی اور کبھی پاکستان سے علیحدگی کی مسلح یا غیر مسلح تحریک نہیں چلائی۔
سیاسی طور پر ہر حکمران نے باچا خان بابا کو پابند سلاسل رکھا لیکن باچا خان بابا نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ پاکستان کے قیام کے بعد ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان کو اپنا وطن قبول کر لیا اور ان کی جدوجہد شمالی مغربی سرحدی صوبے کے نام کی اصولی تبدیلی اور صوبائی خود مختاری کے حصول تک محدود ہو گئی۔ ون یونٹ کے خلاف اصولی سیاست کی تو سقوط پاکستان کے سانحے کو بچانے کے لیے ایک پاکستانی کا کردار ادا کیا۔
پاکستان سے محبت اور سچے پاکستانی کے تصور کو خیبر پختونخوا کی عوام سے بہتر کون جانتا ہے، لیکن جب تاریخ کو مسخ کر کے کسی کی شخصیت کو بد نام کرنا ہو تو تاریخ میں ردو بدل کر دی جاتی ہے خدائی خدمت گار تحریک پر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ انھوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے کبھی بھی تشدد کا سہارا لیا ہو اور گولیوں کا جواب گولیوں سے دیا ہو۔ قیا م پاکستان کے بعد سانحہ بابڑہ کا رونما ہونا پختون قوم کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل فراموش ہے۔
12 اگست1948ء کا دن پختونوں کے لیے یوم کربلا سمجھا جاتا ہے لیکن پختون کل بھی پاکستان سے وفادار تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ سانحہ بابڑہ ناقابل فراموش حقیقت ہے ایسے ہم فراموش نہیں کر سکتے کیونکہ یہ پر امن اور حقوق کے لیے غیر مسلح جدوجہد تھی جیسے طاقت سے روندا گیا۔