پارٹی کا رکنوں کا احترام

تحریک انصاف کو ملک کی دوسری یا تیسری بڑی سیاسی پارٹی کا درجہ دلانے والوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا

mnoorani08@gmail.com

عمران خان جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے تو اُن سے یہ بات بڑی منسوب سمجھی جاتی تھی کہ ٹیم کے سارے کھلاڑیوں پر اُن کی گرفت بہت مضبوط ہے اور کوئی کھلاڑی اُن کے فیصلوں کے خلاف صدائے احتجاج نہیں بلند کر سکتا۔ کوئی اُن کے آگے چوں چرا تو کیا معمولی سا بھی اختلاف نہیں کر سکتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہر کھلاڑی ٹیم کے اندر اپنی انٹری قائم رکھنے کے لیے خان صاحب کی تابعداری جی حضوری میں لگا ہوا ہوتا تھا۔

جس نے بھی جرأت رندانہ دکھانے کی کوشش کی وہ ٹیم سے باہر ہو گیا۔ خانصاحب کی یہی خصوصیت اور صلاحیت بظاہر اُن کی اُس وقت کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ وہ جیسا کہتے ہر کھلاڑی ویسا ہی کر گزرتا۔ ڈریسنگ روم کے اندر بھی اُن کا طریقہ کار اور طرز عمل یہی ہوا کرتا تھا۔ ٹیم کی تنظیمی ڈھانچے اور ایڈمنسٹریشن میں اُن کا یہ رویہ حسنِ اتفاق سے بہت کامیاب ثابت ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ سلیکشن بورڈ بھی ٹیم سلیکٹ کرتے ہوئے خانصاحب کی مرضی و منشاء کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا تھا۔

شومئی قسمت سے اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک مہربانی یہ بھی کر دی کہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کا سہرا بھی اُن کے سر باندھ دیا۔ اب خان صاحب خود کو پاکستان ہی کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا بہترین کپتان سمجھنے لگے۔ حالانکہ اُس ورلڈ کپ سے قبل کئی اور ملکوں نے بھی ورلڈ کپ جیتے تھے لیکن کسی اور ملک کے کپتان نے خود کو ساری کامیابی کا اصل موجب نہیں سمجھا۔ ہم نے آج تک ورلڈ کپ جیتنے جانے والے کسی اور کپتان کو ملک کا وزیرِ اعظم بن جانے کا دعویدار نہیں دیکھا۔ یہ ہمارا ہی ایک ملک ہے جہاں جس کا جی چاہے خود کو مستقبل کا وزیرِ اعظم تصور کر بیٹھے اور فرمانِ امروز جاری کرتا پھرے۔

خان صاحب کو سیاست میں قدم رنجہ فرمائے ہوئے تقریباً اٹھارہ برس ہو چکے ہیں۔ جس میں سے پندرہ برس ناکامیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ تو داد دی جائے اُن کو جن کی کرشمہ سازی کی بدولت وہ 2011ء میں اچانک سیاست کے افق پر جگمگانے لگے ورنہ اُس سے پہلے تو وہ قومی اسمبلی کی ایک دو سیٹوں سے زائد کے اہل بھی گردانے نہیں جاتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کو ملک کی دوسری یا تیسری بڑی سیاسی پارٹی کا درجہ دلانے والوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور بہت سے سیاستدانوں کو اچانک اپنی پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے کو کہا۔


اِس غیر متوقع مل جانے والی کامیابی نے اب خان صاحب کا رنگ و روپ ہی بدل ڈالا۔ شائستگی کی جگہ غرور، تکبر اور رعونت نے لے لی۔ انداز بیان تحکمانہ اور انکسار ی اور وضع داری سے یکسر خالی ہو گیا۔ اپنے مخالف سیاستدانوں کو خوب تضحیک و تحقیر کا نشانہ بنایا۔ نفرت اور اشتعال کی سیاست کو فروغ دیا۔ مخالفانہ اظہارِ رائے کو دشمنی پر محمول جانا۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ باعزت سیاستدانوں کو مختلف القابوں سے نوازا گیا۔

اپنے ہر دعوے میں مسلسل ناکامی کے باوجود اصلاح کا کوئی راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر اظہارِ ندامت کی بجائے اُس کی نشاندہی کرنے والے کمیشن پر ہی غصہ اُتارا گیا۔ جسٹس وجہیہ الدین جیسے جہاندیدہ اور مخلص انسان کو بیکِ جنبشِ قلم پارٹی کی بنیادی رکنیت سے معطل کر دیا گیا۔ زیرک، دانا، دور اندیش اور بصیرت افروز اشخاص سرکش اور باغی قرار پائے۔ خان صاحب زعم اور تکبر میں اپنی پارٹی کو جس ڈگر پر لے جا رہے ہیں وہاں گہری کھائیوں کے سوا کچھ نہیں۔ قدرت نے اُنھیں ایک موقعہ غنیمت فراہم کیا تھا کہ اپنی صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اِس ملک و قوم کی کوئی خدمت سرانجام دے سکیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سنہری موقعہ اُنھوں نے عدم برداشت کی بدولت بہت جلد گنوا دیا۔ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست اور کرکٹ میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔

سیاسی پارٹی چلانا اور کسی کرکٹ ٹیم کے قیادت کرنا بہت مختلف دو کام ہیں۔ وہاں دس گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں لیکن سیاسی جماعت میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہ اپنی رائے کے استعمال میں مکمل آزاد اور خود مختار ہوا کرتے ہیں۔ تحریکِ انصاف جن نظریات پر بنائی گئی تھی آج وہ اُن نظریات سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مخلص، دیانتدار اور بے لوث ورکرز پارٹی کی سیاست سے بددل اور مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں سے اگر اُس کا موازنہ کیا جائے تو کوئی فرق اُس میں اور اُن میں دکھائی نہیں دے گا۔ پارٹی کے اندر زیادہ سے زیادہ فنڈز مہیا کرنے والا ہی آج پارٹی کاسب سے بڑا معتبر اور محترم ممبر مانا جا رہا ہے۔ خان صاحب کو آج وہی لوگ عزیز اور محبوب ہیں جو دھرنے کے سارے مالی اخراجات اُٹھا رہے تھے۔

وہی لوگ آج پارٹی کے اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ خان صاحب اُنھیں فارغ کرنے پر قطعاً رضامند نہیں ہیں بلکہ اُنھیں مکمل تحفظ فراہم کرنے پر مصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی عوام میں مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ خان صاحب نے اگر اپنا رویہ اور طرز عمل نہیں بدلہ تو بہت جلد تحریک ِ انصاف اپنی پرانی پوزیشن پر پہنچ جائے گی اور اِس ملک کا وزیرِ اعظم بن جانے کا خواب شاید تشنہ تعبیر ہی رہے گا۔

اب بھی وقت ہے خان صاحب اپنی آمرانہ سوچ کو خیر باد کہتے ہوئے مخلص اور بے لوث کارکنوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ اگر پارٹی کو چلانے میں کوئی مالی مشکلات درپیش ہیں تو اِن باتوں کو سب کی سامنے رکھ کر اپنی مجبوری کا اعتراف کریں اور دھرنے جیسی سیاسی عیاشیوں سے اجتناب کرتے ہوئے آیندہ کی مثبت اور تعمیری سیاست کا آغاز کریں۔ مالی اعانت کرنے والوں کو پارٹی کے فیصلوں پر حاوی ہو جانے کا اختیار ہرگز نہ دیں۔ جسٹس وجیہہ الدین جیسے لوگوں کی قابلیت، ذہانت ،متانت اور بصیرت افروزی کی قدر کرتے ہوئے اُنھیں اپنے سے دور نہ کریں۔ بصورتِ دیگر خان صاحب اپنے فیصلوں میں کلی طور پر آزاد اور خود مختار ہیں۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
Load Next Story