سائنس تماشا
ارسطو ذاتی مشاہدے اور تجربات سے اِس نتیجے پر پہنچا تھا کہ جاندار جیسے حشرات الارض وغیرہ گوبر سے پیدا ہوتے ہیں
جب ہم نویں جماعت کے طالب علم تھے، تو بیالوجی میں ہمیں ''پاسچرائزیشن'' بھی پڑھائی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ لوئی پاسچر (27 دسمبر1822ء تا28 ستمبر1895ء)کے دور سے قبل تک سائنس کی دنیا میں یہ مانا جاتا تھا کہ حیات بے جان عناصر سے بھی ظہور میں آ سکتی ہے۔ یقیناً آج یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے لیکن کیا کیجیے کہ ہزاروں برس تک یہ ایک جانا مانا سائنسی نظریہ رہا ہے۔ بڑے بڑے نامور سائنس دان اور دانش ور اِسی طرح دیکھتے، سوچتے اور بولتے تھے۔
یہ ہی اُس زمانے کا تعقل غالب تھا، جس کے علاوہ ہر بات جہالت تھی۔ یہ تو بعد کو لوئی پاسچر نے ثابت کیا کہ اِس سے قبل غلطی پر مداومت تھی۔ اِس غلط نظریے کو عام کرنے والے کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ارسطو، انیگژی مینڈر، ہیپولائٹس، اناغورس وغیرہ یہ اور ایسے ہی بہت سے عقلا تھے کہ جِن کی اثابتِ فکر کا آج بھی ایک جہاں قائل ہے۔
ارسطو ذاتی مشاہدے اور تجربات سے اِس نتیجے پر پہنچا تھا کہ جاندار جیسے حشرات الارض وغیرہ گوبر سے پیدا ہوتے ہیں۔ مینڈک کیچڑ میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اور اِسی قسم کی بیشمار چیزیں ارسطو کے برس ہا برس بعد بھی سائنس کہلاتی رہیں۔ جان بپٹسٹاوان ہیلمونٹ (12جنوری 1580ء تا 30 دسمبر1644ء) نے توچوہوں کی پیدائش کے حوالے سے 21 روزہ تجربہ بھی کیا اور سائنسی طور پر ثابت کیا کہ حیات، غیر حیات سے نمو پذیر ہو سکتی ہے۔
1668ء کے آس پاس فرانسسکو ریڈی (18فروری1626ء تا یکم مارچ 1697ء)نے چند اہم تجربات کیے۔ اُس نے دکھایا کہ اگر مکھیوں کو گوشت کے پارچوں سے دور رکھا جائے تو اُن میں لاروے اور کیڑے پیدا نہیں ہوتے۔ ازاں بعد ایسے ہی تجارب لوئی پاسچر نے بھی کیے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایسے ثابت شدہ مشاہدات کے باوجود بھی وہ لا حیاتی تولید کا قائل تھا۔ غیر جان دار سے حیات کی نمو لوگوں کے دل و دماغ میں اتنی رچ بَس گئی تھی کہ وہ سامنے کے تجربات اور مشاہدات سے بھی درست نتائج تک نہیں پہنچ پاتے تھے اور یہ معاشرے کے عام افراد نہیں فہمیدہ عناصر تھے۔
وقت کے سائنس دان تھے۔ یہی موصوف ریڈی صاحب، طبیب حاذق، فطرت پسند، حیاتیات داںاورشاعر بھی تھے۔ انھیںتجرباتی حیاتیات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بابائے ''پیرا سائٹالوجی'' بھی کہلاتے ہیں۔ اتنے قابل اور لائق فائق فرد کا حال یہ تھا کہ خود کردہ تجارب کے باوجود انھوں نے ساری زندگی اِسی خیال میں گزار دی کہ لاحیاتی تناسُل دیگر انواع و ماحول میں ممکن ہے۔
اِس تمام عرصے میں مذہبی عناصر بھی نہ صرف یہ کہ لا حیاتی تولید کے قائل تھے بلکہ وہ مذہب سے اِس کی دلیل بھی دیتے تھے۔ مثلاًعیسائیوں کا خیال تھا کہ بائبل میں بھی خداوند نے ایسا ہی فرمایا ہے''اور خدا نے کہا: پانی جانداروں کی کثرت سے بھر جائے اور پرندے زمین کے اوپر آسمان کی فضا میں پرواز کریں'' (پیدائش 1:20)۔
یہ سب کچھ یوں ہی چلتا رہا، یہاں تک کہ لوئی پاسچر نے (1861ء میں) یہ ثابت کیا کہ جاندار اپنی ہی نوع کے جاندار سے وجود میں آتے ہیں۔ لوئی پاسچر نے تجرباتی طور پر یہ دکھایا کہ کیڑے گوشت کے پارچے میں از خود پیدا نہیں ہوتے۔ اُس نے گوشت کے پارچے کو صاف ہوا بند ڈبے میں رکھا۔ دوسرا پارچہ کھلی ہوا میں رکھا گیا۔ ہوا بند گوشت کے پارچے میں کسی قسم کی افزائش نہ ہوئی۔ اِس طرح یہ ثابت کیا گیا کہ جاندار صرف جاندار ہی سے وجود پزیر ہوتے ہیں۔
پھر لوئی پاسچر نے ''پاسچرائزیشن'' کے ذریعے دودھ وغیرہ کو بیکٹریا سے پاک کرنے کا طریقہ عام کیا۔ وہ ایک نابغہ تھا، انسانیت پر اُس کے بڑے احسانات ہیں جس کی تفصیل کا نہ یہ موقع ہے نہ مقام۔ یہاں تو صرف یہ سوال اُٹھانا مقصود ہے کہ تجربات و مشاہدات کے بعد قائم کیے گئے سائنسی نظریات بھی ضروری نہیں کہ درست ہوں۔ اُنھیں حق اور سچ ماننا اور اُن پر آفاقی یا سماجی اصولوں کی بنیاد رکھناکِس طرح درست رویہ قرار پا سکتا ہے؟
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بحث یہیں تمام نہیں ہو جاتی۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اب سائنس دان اِس امر پر متفق ہو گئے ہیں کہ مادے سے حیات کی نمو ممکن نہیں۔ (ایسا تو شاید کسی دور میں بھی نہیں رہا)۔ اب یہ مطالعہ ایک اور شکل میں کیا جا رہا ہے، نئے مباحث کے ساتھ۔ جی ہاں! حیات کے آغاز کے حوالے سے۔ سائنس دان عرصے سے اس فکر میں بھی مبتلا ہیں کہ آخر زمین پر حیات کا آغاز کس طرح ہوا ہو گا؟ ''ایگزو بیالوجی'' اور ''آسٹرو بیالوجی'' کے ذیل میں یہ مطالعات آج بھی جاری ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام مطالعات اِسی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں کہ حیات یا تو خود سے وجود میں آئی ہے یا پھر مادی اجزا کے تال میل سے۔ گویا سائنس دان یقین رکھتے ہیں کہ ''لا حیاتی تولید'' یا ''خود حیاتی'' ممکن ہے۔
1666ء آئزک نیوٹن نے ''کشش ثقل'' کا نظریہ پیش کیا۔ یہ نظریہ پیش کردہ تمام نظریات میں بہت اہم مانا گیا۔ اِس کی اثابت کے سب ہی قائل ہوئے کیوں کہ یہ نہ صرف یہ کہ تمام تر مشاہدات کے عین مطابق تھا بلکہ آیندہ ہونے والے تجارب کے بھی عین مطابق ثابت ہونے والا تھا۔ یہاں تک کہ اسے بدیہی حقیقت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ لیکن کیا ایسا ہی تھا؟ آج ایک اے لیول کا طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہ نظریہ مکمل طور پر درست نہیں۔ اِس میں کمی کوتاہیاں ہیں۔ ازاں بعد انیسویں صدی میں مزید بہتر علم، تجربے اور آلات کی مدد سے وقت کے ایک اور بڑے سائنس دان ''البرٹ آئن اسٹائن'' نظریہ ِ اضافیت پیش کیا۔ آج کل اسے درست اور حقیقت مانا جاتا ہے۔ نہ معلوم کتنے دِن یا صدیوں تک ایسا ہی رہے۔
آج کل سائنسی نظریات اور معتقدات کے پیچھے ایک اہم عامل ''مارکیٹ'' بھی ہے۔ بہت سی تحقیقیں صرف ''کنزمشن'' بڑھانے اور ''کنزیومر ازم'' کو ہوا دینے کے لیے ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک گلاس دودھ روزانہ وغیرہ۔ تحقیق کی دنیا میں ایسا ہی ایک ''یوٹرن'' اُس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب طب کے ایک قدیم رسالے''دا نیو انگلینڈ جرنل اوف میڈیسن'' نے اپنی اشاعت میں ''ہم جنس شادی'' کے حق میں اداریہ لکھا۔ یہ ایک اہم یو ٹرن تھا۔ امریکی سپریم کورٹ اور رائے عامہ کے اچانک ہم جنس پرستی کے جواز میں فیصلے اور تبدیلی رائے کو بھی ایک خاص تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
بہر حال سوال تو ہے 'کہ میڈیسن جرنل کو اپنی گزشتہ رائے کے بر خلاف لواطت کے صحت آگیں ہونے پر اداریہ لکھنے کا خیال ابھی ہی کیوں آتا ہے؟ یہ تو چند صدی قبل کی بات ہے نا جب ایسے کسی فرد کو یورپ میں قتل کر دیا جاتا تھا۔ عیسائی معاشرے میں فطرت سے متصادم افراد کو برداشت کرنے کی روایت نہ تھی۔ وہ معاشرے کو ایسے ناسوروں سے پاک کر دیتے تھے۔ شاید یہ ہی وجہ ہو کہ جب یوگنڈا میں ہم جنسی شادی کے خلاف بل پیش ہوا تو اولاً سزا موت تجویز ہوئی تھی جسے بعد کو عمر قید سے تبدیل کیا گیا۔ یوگنڈا کی پارلیمانی اسپیکر ''ربیکا کڈاگا''نے مجوزہ قانون کو کرسمس پر تحفہ قرار دیا تھا۔
خبر مشہور ہے کہ اس حوالے سے آپ کو پوپ صاحب کی جانب سے دعائیہ کلمات سے نوازا گیا۔2001ء کی بات ہے جب امریکا میں صرف 57 فی صد امریکی ''گے میرج'' کے خلاف تھے، 2014ء میں یہ تعداد گھٹ کر 40 فی صد رہ جاتی ہے۔ کیوں؟ اس بارے میں کچھ ہی عرصہ قبل وقیع ''سائنس میگ'' نے ایک تحقیق شایع کی ہے۔ ''وین کونٹیکٹ چینچز مائنڈ: این ایکسپیریمنٹ اون ٹرانسمیشن اوف سپورٹ فار گے ایکویلٹی''۔ عوامی رائے کیسے تبدیل ہوتی ہے؟ یہ یقیناً ایک اہم موضوع ہے۔ ''ایڈورڈایل برنَیز'' جیسے ماہرین یہ گُر جانتے تھے۔ اگر ڈاکٹر وقار محمود (ایم ڈی) ایسے ماہرین نفسیات اردودان طبقے کی راہ نمائی فرمائیں تو اچھا ہو۔
سائنسی آراء کیا ہیں کِن بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں؟ کِن بنیادوں پر تبدیل ہوتی ہیں خواص کا موضوع ہے، سائنسی موضوع ہے؟ ہم آپ کے جان لینے کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ ہم آپ نے اپنی زندگیوں میں بعض چیزوں کو جو مقام دے رکھا ہے وہ اصلاً اُن کا مقام ہے نہیں۔ ماہرین تو واقف ہیں کاش ہم بھی جان لیں۔ یہ انسانی کمزوری ہے کہ وہ جس چیز سے بھی شدید متاثر ہوا اُسے اپنے من مندر میں وہ مقام دے ڈالا جو اُس کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔
یہ ہی اُس زمانے کا تعقل غالب تھا، جس کے علاوہ ہر بات جہالت تھی۔ یہ تو بعد کو لوئی پاسچر نے ثابت کیا کہ اِس سے قبل غلطی پر مداومت تھی۔ اِس غلط نظریے کو عام کرنے والے کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ارسطو، انیگژی مینڈر، ہیپولائٹس، اناغورس وغیرہ یہ اور ایسے ہی بہت سے عقلا تھے کہ جِن کی اثابتِ فکر کا آج بھی ایک جہاں قائل ہے۔
ارسطو ذاتی مشاہدے اور تجربات سے اِس نتیجے پر پہنچا تھا کہ جاندار جیسے حشرات الارض وغیرہ گوبر سے پیدا ہوتے ہیں۔ مینڈک کیچڑ میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اور اِسی قسم کی بیشمار چیزیں ارسطو کے برس ہا برس بعد بھی سائنس کہلاتی رہیں۔ جان بپٹسٹاوان ہیلمونٹ (12جنوری 1580ء تا 30 دسمبر1644ء) نے توچوہوں کی پیدائش کے حوالے سے 21 روزہ تجربہ بھی کیا اور سائنسی طور پر ثابت کیا کہ حیات، غیر حیات سے نمو پذیر ہو سکتی ہے۔
1668ء کے آس پاس فرانسسکو ریڈی (18فروری1626ء تا یکم مارچ 1697ء)نے چند اہم تجربات کیے۔ اُس نے دکھایا کہ اگر مکھیوں کو گوشت کے پارچوں سے دور رکھا جائے تو اُن میں لاروے اور کیڑے پیدا نہیں ہوتے۔ ازاں بعد ایسے ہی تجارب لوئی پاسچر نے بھی کیے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایسے ثابت شدہ مشاہدات کے باوجود بھی وہ لا حیاتی تولید کا قائل تھا۔ غیر جان دار سے حیات کی نمو لوگوں کے دل و دماغ میں اتنی رچ بَس گئی تھی کہ وہ سامنے کے تجربات اور مشاہدات سے بھی درست نتائج تک نہیں پہنچ پاتے تھے اور یہ معاشرے کے عام افراد نہیں فہمیدہ عناصر تھے۔
وقت کے سائنس دان تھے۔ یہی موصوف ریڈی صاحب، طبیب حاذق، فطرت پسند، حیاتیات داںاورشاعر بھی تھے۔ انھیںتجرباتی حیاتیات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بابائے ''پیرا سائٹالوجی'' بھی کہلاتے ہیں۔ اتنے قابل اور لائق فائق فرد کا حال یہ تھا کہ خود کردہ تجارب کے باوجود انھوں نے ساری زندگی اِسی خیال میں گزار دی کہ لاحیاتی تناسُل دیگر انواع و ماحول میں ممکن ہے۔
اِس تمام عرصے میں مذہبی عناصر بھی نہ صرف یہ کہ لا حیاتی تولید کے قائل تھے بلکہ وہ مذہب سے اِس کی دلیل بھی دیتے تھے۔ مثلاًعیسائیوں کا خیال تھا کہ بائبل میں بھی خداوند نے ایسا ہی فرمایا ہے''اور خدا نے کہا: پانی جانداروں کی کثرت سے بھر جائے اور پرندے زمین کے اوپر آسمان کی فضا میں پرواز کریں'' (پیدائش 1:20)۔
یہ سب کچھ یوں ہی چلتا رہا، یہاں تک کہ لوئی پاسچر نے (1861ء میں) یہ ثابت کیا کہ جاندار اپنی ہی نوع کے جاندار سے وجود میں آتے ہیں۔ لوئی پاسچر نے تجرباتی طور پر یہ دکھایا کہ کیڑے گوشت کے پارچے میں از خود پیدا نہیں ہوتے۔ اُس نے گوشت کے پارچے کو صاف ہوا بند ڈبے میں رکھا۔ دوسرا پارچہ کھلی ہوا میں رکھا گیا۔ ہوا بند گوشت کے پارچے میں کسی قسم کی افزائش نہ ہوئی۔ اِس طرح یہ ثابت کیا گیا کہ جاندار صرف جاندار ہی سے وجود پزیر ہوتے ہیں۔
پھر لوئی پاسچر نے ''پاسچرائزیشن'' کے ذریعے دودھ وغیرہ کو بیکٹریا سے پاک کرنے کا طریقہ عام کیا۔ وہ ایک نابغہ تھا، انسانیت پر اُس کے بڑے احسانات ہیں جس کی تفصیل کا نہ یہ موقع ہے نہ مقام۔ یہاں تو صرف یہ سوال اُٹھانا مقصود ہے کہ تجربات و مشاہدات کے بعد قائم کیے گئے سائنسی نظریات بھی ضروری نہیں کہ درست ہوں۔ اُنھیں حق اور سچ ماننا اور اُن پر آفاقی یا سماجی اصولوں کی بنیاد رکھناکِس طرح درست رویہ قرار پا سکتا ہے؟
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بحث یہیں تمام نہیں ہو جاتی۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اب سائنس دان اِس امر پر متفق ہو گئے ہیں کہ مادے سے حیات کی نمو ممکن نہیں۔ (ایسا تو شاید کسی دور میں بھی نہیں رہا)۔ اب یہ مطالعہ ایک اور شکل میں کیا جا رہا ہے، نئے مباحث کے ساتھ۔ جی ہاں! حیات کے آغاز کے حوالے سے۔ سائنس دان عرصے سے اس فکر میں بھی مبتلا ہیں کہ آخر زمین پر حیات کا آغاز کس طرح ہوا ہو گا؟ ''ایگزو بیالوجی'' اور ''آسٹرو بیالوجی'' کے ذیل میں یہ مطالعات آج بھی جاری ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام مطالعات اِسی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں کہ حیات یا تو خود سے وجود میں آئی ہے یا پھر مادی اجزا کے تال میل سے۔ گویا سائنس دان یقین رکھتے ہیں کہ ''لا حیاتی تولید'' یا ''خود حیاتی'' ممکن ہے۔
1666ء آئزک نیوٹن نے ''کشش ثقل'' کا نظریہ پیش کیا۔ یہ نظریہ پیش کردہ تمام نظریات میں بہت اہم مانا گیا۔ اِس کی اثابت کے سب ہی قائل ہوئے کیوں کہ یہ نہ صرف یہ کہ تمام تر مشاہدات کے عین مطابق تھا بلکہ آیندہ ہونے والے تجارب کے بھی عین مطابق ثابت ہونے والا تھا۔ یہاں تک کہ اسے بدیہی حقیقت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ لیکن کیا ایسا ہی تھا؟ آج ایک اے لیول کا طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہ نظریہ مکمل طور پر درست نہیں۔ اِس میں کمی کوتاہیاں ہیں۔ ازاں بعد انیسویں صدی میں مزید بہتر علم، تجربے اور آلات کی مدد سے وقت کے ایک اور بڑے سائنس دان ''البرٹ آئن اسٹائن'' نظریہ ِ اضافیت پیش کیا۔ آج کل اسے درست اور حقیقت مانا جاتا ہے۔ نہ معلوم کتنے دِن یا صدیوں تک ایسا ہی رہے۔
آج کل سائنسی نظریات اور معتقدات کے پیچھے ایک اہم عامل ''مارکیٹ'' بھی ہے۔ بہت سی تحقیقیں صرف ''کنزمشن'' بڑھانے اور ''کنزیومر ازم'' کو ہوا دینے کے لیے ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک گلاس دودھ روزانہ وغیرہ۔ تحقیق کی دنیا میں ایسا ہی ایک ''یوٹرن'' اُس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب طب کے ایک قدیم رسالے''دا نیو انگلینڈ جرنل اوف میڈیسن'' نے اپنی اشاعت میں ''ہم جنس شادی'' کے حق میں اداریہ لکھا۔ یہ ایک اہم یو ٹرن تھا۔ امریکی سپریم کورٹ اور رائے عامہ کے اچانک ہم جنس پرستی کے جواز میں فیصلے اور تبدیلی رائے کو بھی ایک خاص تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
بہر حال سوال تو ہے 'کہ میڈیسن جرنل کو اپنی گزشتہ رائے کے بر خلاف لواطت کے صحت آگیں ہونے پر اداریہ لکھنے کا خیال ابھی ہی کیوں آتا ہے؟ یہ تو چند صدی قبل کی بات ہے نا جب ایسے کسی فرد کو یورپ میں قتل کر دیا جاتا تھا۔ عیسائی معاشرے میں فطرت سے متصادم افراد کو برداشت کرنے کی روایت نہ تھی۔ وہ معاشرے کو ایسے ناسوروں سے پاک کر دیتے تھے۔ شاید یہ ہی وجہ ہو کہ جب یوگنڈا میں ہم جنسی شادی کے خلاف بل پیش ہوا تو اولاً سزا موت تجویز ہوئی تھی جسے بعد کو عمر قید سے تبدیل کیا گیا۔ یوگنڈا کی پارلیمانی اسپیکر ''ربیکا کڈاگا''نے مجوزہ قانون کو کرسمس پر تحفہ قرار دیا تھا۔
خبر مشہور ہے کہ اس حوالے سے آپ کو پوپ صاحب کی جانب سے دعائیہ کلمات سے نوازا گیا۔2001ء کی بات ہے جب امریکا میں صرف 57 فی صد امریکی ''گے میرج'' کے خلاف تھے، 2014ء میں یہ تعداد گھٹ کر 40 فی صد رہ جاتی ہے۔ کیوں؟ اس بارے میں کچھ ہی عرصہ قبل وقیع ''سائنس میگ'' نے ایک تحقیق شایع کی ہے۔ ''وین کونٹیکٹ چینچز مائنڈ: این ایکسپیریمنٹ اون ٹرانسمیشن اوف سپورٹ فار گے ایکویلٹی''۔ عوامی رائے کیسے تبدیل ہوتی ہے؟ یہ یقیناً ایک اہم موضوع ہے۔ ''ایڈورڈایل برنَیز'' جیسے ماہرین یہ گُر جانتے تھے۔ اگر ڈاکٹر وقار محمود (ایم ڈی) ایسے ماہرین نفسیات اردودان طبقے کی راہ نمائی فرمائیں تو اچھا ہو۔
سائنسی آراء کیا ہیں کِن بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں؟ کِن بنیادوں پر تبدیل ہوتی ہیں خواص کا موضوع ہے، سائنسی موضوع ہے؟ ہم آپ کے جان لینے کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ ہم آپ نے اپنی زندگیوں میں بعض چیزوں کو جو مقام دے رکھا ہے وہ اصلاً اُن کا مقام ہے نہیں۔ ماہرین تو واقف ہیں کاش ہم بھی جان لیں۔ یہ انسانی کمزوری ہے کہ وہ جس چیز سے بھی شدید متاثر ہوا اُسے اپنے من مندر میں وہ مقام دے ڈالا جو اُس کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔