ڈبیٹ کروگے ڈبیٹ
مباحثےجامعات کی جان ہوا کرتے تھے۔ دائیں اوربائیں بازوکی تنظیمیں ایک دوسرے کیخلاف ہتھیار نہیں،حقائق بلند کیا کرتی تھیں۔
جب میں اسکول میں زیرِ تعلیم تھا تو کچھ کام کرنے کا بڑا دل کرتا تھا۔ پہلا کام کلاس کا مانیٹر بننا، دوسرا کام اسکول کی اسمبلی میں تقریر کرنا، تیسراکام پریفیکٹ بننا اور چوتھا کام اسکول کے بینڈ میں حصہ لینا۔ اسکول کے 10 سالوں میں چاروں خواب، خواب ہی رہے۔ ایک بھی پورا نہ ہوا اور سنہ 2003 میں، میں فارغ التحصیل ہوگیا۔ کالج کے 3 سال بھی دھکم پیل کرکے نکل گئے اور مقرر ہی نہ بن سکا۔
سنہ 2009 چل رہا تھا۔ یونیورسٹی کا دوسرا اور نوکری کا تیسرا سال، ایک ہم نصابی تنظیم کے تحت تقریری مقابلے کا سنا، دل میں سابقہ خواب، امیدیں، امنگیں تازہ ہوگئیں۔ نوجوانوں کو بڑے اشتیاق سے تقاریر کرتے ہوئے سنا اور بُری طرح ڈر گیا۔ یہ تو شعلہ نہیں بلکہ جوالہ بیاں تھے۔ کچھ دن بعد میں نے آرٹس کونسل پاکستان میں ایک مباحثہ دیکھا اور انتہائی دکھی ہوگیا۔ اتنی یاسیت، اتنا زہر آلود بیانیہ۔ لیکن تب تلک مجھے ان مباحثوں کی افادیت معلوم نہیں تھی۔ 2 سال تک سوچتا رہا اور آخر کار 2011 میں ہمت کرکے ایک تقریری مقابلے میں حصہ لے لیا۔ وجہ تھی خواب پورا کرنا اور اب مباحثوں کا مقصد بھی سمجھ آگیا تھا۔ بھلا ہو قومی ادارہ برائے فنِ خطابت کا کہ جس نے رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔
کہتے ہیں کہ سنہ 48 تا سنہ 84 تلک یہ مباحثے پاکستان کی جامعات کی جان ہوا کرتے تھے۔ دائیں اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار نہیں، حقائق بلند کیا کرتی تھیں۔ ہر سال انتخابات ہوا کرتے تھے اور طلبہ کے منتخب نمائندے حکامِ بالا سے باقاعدہ مذاکرات کیا کرتے تھے۔ یہ مدلل، بہترین محقق، مدرس اور مبلغ، مبصر و سیاست دان بننے کے عمل سے گذر رہے تھے اور بھی کئی سیاسی پارٹیاں انہی کی مرہونِ منت چل رہی ہیں۔ کئی ٹی وی چینل انہی مباحثوں میں حصہ لینے والوں کے بل بوتے پر چل رہے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں یہ حقائق چھپا کر ہی رکھے جاتے ہیں۔
آمریت نے طلبہ تنظیموں کو اپنے اقتدار کے لیئے خطرہ سمجھا اور ان پر پابندی عائد کردی گئی۔ انتخابات پر پابندی لگ گئی اور مباحثوں کا کلچر بھی فوت ہوگیا۔ اس قدغن سے سب سے بڑا نقصان منطقی سوچ کو ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب قوم ارتقاء کی منازل طے کررہی تھی۔ اپنے اجتماعی مقصدِ حیات کو سمجھ رہی تھی، اپنے مستقبل کی پیش بندی کر رہی تھی۔ یہ مباحثے اور مناظرے مختلف نظریاتی سیاست و معاشرت و معیشت کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
صوبے کم ہوں یا زیادہ؟ لسانی بنیادوں پر بنائے جائیں یا انتظامی بنیادوں پر؟ اگر انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں تو جو لسانی بنیادوں پر قائم ہیں ان کا کیا کریں؟ ریاست کو فلاحی ہونا چاہیئے یا آزاد؟ یہ تمام مباحثے ہمیں قدیم یونانی دور میں لے جاتے ہیں۔ جہاں ہر بات کی سچائی جاننے کے لیئے اس کا ہر زاویہ سے مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
جس مباحثے کو سن کر میں دل برداشتہ ہوگیا تھا اس کا موضوع تھا ''ہم آزاد ہیں''۔ عام انسان کے لئے تو یہ ایک عام سا موضوع ہے لیکن آدھے سامعین نے اس قرارداد کو رد کردیا تھا۔ انہوں نے جو بولا وہ کڑوا سچ تھا وہ جو حقائق اور مثالیں لائے تھے وہ انتہائی درد ناک اور پر سوز تھیں۔ لیکن اس کارروائی کو ڈیولز ایڈووکیٹ Devil's Advocate بننا کہتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ کون اپنے ہی ملک کی برائی کرتا ہے، کس کو پڑی ہے کہ اپنی ناکامیوں کا پرچار کرے، لیکن اگر ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ جسم میں سرطان کی موجودگی پر آنکھیں نہیں موندی جاتی ہیں۔ مرض کی نوعیت، شدت اور جگہ کا تعین کرکے علاج کیا جاتا ہے۔
لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں تو مباحثے کا قتل ہوچکا ہے اور اس کی جگہ لے لی ہے ایک عجیب سی چیز نے، اب فنِ خطابت تو سیکھ لیا جاتا ہے، لیکن تنقیدی سوچ کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ تالیاں بجوانا، قہقے بلند کروانا مقصد رہ گیا ہے اور اپنی جان چھڑانے کے لئے کچھ ایسے موضوعات کا اہتمام کیا جاتا ہے جن سے فکری بالیدگی تو کجا، اجتماعی باؤلا پن ضرور فروغ پا رہا ہے۔
بیوی ماں سے افضل ہے، شیطان عظیم ہے، نصاب میں عشق کا مضمون شامل ہونا چاہیئے، لے لو میری جوانی دے دو مجھے بجلی و پانی، بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں، عاشقی بے کار لوگوں کا کام ہے، نصاب میں سے حساب کا مضمون منہاں کردیا جائے، داغ تو اچھے ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ان موضوعات پر تقاریر کرکے داد تو موصول ہوجائے گی لیکن معاشرے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ البتہ بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات ضرور بڑھ جائیں گے۔
مباحثہ کی شان ہی یہی ہے کہ اس کے ذریعے عوام کا اجتماعی ضمیر جگایا جاسکتا ہے۔ ایک تقریر سوئی ہوئی قوم کو جگا سکتی ہے۔ شکستہ فوج کو جلا بخش سکتی ہے اور انسانیت کو درپیش پیچیدہ مسائل کا بھی جمہوری حل ڈھونڈنے میں مدد دے سکتی ہے۔ لیکن افسوس اور صد افسوس! فلسفہ و منطق کی میراث کو بھی ہم نے پھکڑ پن اور بودے پن سے لبریز کردیا ہے۔ جس تقریر کا مقصد قوم کو جگانا تھا اب اس کا مقصد قوم کو ہنسانا رہ گیا ہے۔
اور اسی فکری غربت کا اثر ہمیں اپنی سیاست میں بھی نظر آتا ہے۔ جوش تقریر سے نہیں گانے سے آتا ہے، ہوش، چشم کشا حقائق سے نہیں آتا ہے بلکہ بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ سے آتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ مباحثے کے اختتام پر اقرارالحسن نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
میری حکامِ بالا، شیخ الجامعات، سیاستدانوں اور اخبارات و ٹی وی چینلز کے مدیران سے یہی گذارش ہے کہ تقریری مقابلے اور مباحثے کروائیں! نوجوان نسل کو خود شناسی کا موقع دیں اور انعامات کے طور پر تعلیمی وظیفے اور انٹرن شپ کے مواقع دیں۔ یہ مباحثوں کی ناکامی ہی ہے کہ جس وجہ سے قوم پہلے ڈی پولیٹسائز یعنی کہ غیر سیاسی اور پھر بے حس ہوگئی ہے۔
ایک آخری بات، تقریری مقابلہ جات میں، منصف کا فیصلہ حتمی و آخری ہوتا ہے۔ فیصلہ کی تردید، منصف کی بے حرمتی گردانی جاتی ہے اور ایسا کرنے والے مقررین کو پہلے تاکید، پھر تنقید اور آخر میں ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل یا 'بلیک لسٹ' کردیا جاتا ہے۔ بدتمیزی اور بد تہذیبی برداشت نہیں کی جاتی ہے۔
اگر آج کل کے سیاسی منظر نامہ کو مندرجہ بالا مثال کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ، جو ہار گئے انھوں نے منصفین کو ہی جھٹلایا ہے! اور احتجاج کی آڑ میں سول نافرمانی اور سلطانی جمہور کو اختتام پذیر کرنا چاہا ہے۔ اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مقابلے ہمیں قانون کی عملداری اور احترام بھی سکھاتے ہیں۔
[poll id="596"]
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
سنہ 2009 چل رہا تھا۔ یونیورسٹی کا دوسرا اور نوکری کا تیسرا سال، ایک ہم نصابی تنظیم کے تحت تقریری مقابلے کا سنا، دل میں سابقہ خواب، امیدیں، امنگیں تازہ ہوگئیں۔ نوجوانوں کو بڑے اشتیاق سے تقاریر کرتے ہوئے سنا اور بُری طرح ڈر گیا۔ یہ تو شعلہ نہیں بلکہ جوالہ بیاں تھے۔ کچھ دن بعد میں نے آرٹس کونسل پاکستان میں ایک مباحثہ دیکھا اور انتہائی دکھی ہوگیا۔ اتنی یاسیت، اتنا زہر آلود بیانیہ۔ لیکن تب تلک مجھے ان مباحثوں کی افادیت معلوم نہیں تھی۔ 2 سال تک سوچتا رہا اور آخر کار 2011 میں ہمت کرکے ایک تقریری مقابلے میں حصہ لے لیا۔ وجہ تھی خواب پورا کرنا اور اب مباحثوں کا مقصد بھی سمجھ آگیا تھا۔ بھلا ہو قومی ادارہ برائے فنِ خطابت کا کہ جس نے رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔
کہتے ہیں کہ سنہ 48 تا سنہ 84 تلک یہ مباحثے پاکستان کی جامعات کی جان ہوا کرتے تھے۔ دائیں اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار نہیں، حقائق بلند کیا کرتی تھیں۔ ہر سال انتخابات ہوا کرتے تھے اور طلبہ کے منتخب نمائندے حکامِ بالا سے باقاعدہ مذاکرات کیا کرتے تھے۔ یہ مدلل، بہترین محقق، مدرس اور مبلغ، مبصر و سیاست دان بننے کے عمل سے گذر رہے تھے اور بھی کئی سیاسی پارٹیاں انہی کی مرہونِ منت چل رہی ہیں۔ کئی ٹی وی چینل انہی مباحثوں میں حصہ لینے والوں کے بل بوتے پر چل رہے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں یہ حقائق چھپا کر ہی رکھے جاتے ہیں۔
آمریت نے طلبہ تنظیموں کو اپنے اقتدار کے لیئے خطرہ سمجھا اور ان پر پابندی عائد کردی گئی۔ انتخابات پر پابندی لگ گئی اور مباحثوں کا کلچر بھی فوت ہوگیا۔ اس قدغن سے سب سے بڑا نقصان منطقی سوچ کو ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب قوم ارتقاء کی منازل طے کررہی تھی۔ اپنے اجتماعی مقصدِ حیات کو سمجھ رہی تھی، اپنے مستقبل کی پیش بندی کر رہی تھی۔ یہ مباحثے اور مناظرے مختلف نظریاتی سیاست و معاشرت و معیشت کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
صوبے کم ہوں یا زیادہ؟ لسانی بنیادوں پر بنائے جائیں یا انتظامی بنیادوں پر؟ اگر انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں تو جو لسانی بنیادوں پر قائم ہیں ان کا کیا کریں؟ ریاست کو فلاحی ہونا چاہیئے یا آزاد؟ یہ تمام مباحثے ہمیں قدیم یونانی دور میں لے جاتے ہیں۔ جہاں ہر بات کی سچائی جاننے کے لیئے اس کا ہر زاویہ سے مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
جس مباحثے کو سن کر میں دل برداشتہ ہوگیا تھا اس کا موضوع تھا ''ہم آزاد ہیں''۔ عام انسان کے لئے تو یہ ایک عام سا موضوع ہے لیکن آدھے سامعین نے اس قرارداد کو رد کردیا تھا۔ انہوں نے جو بولا وہ کڑوا سچ تھا وہ جو حقائق اور مثالیں لائے تھے وہ انتہائی درد ناک اور پر سوز تھیں۔ لیکن اس کارروائی کو ڈیولز ایڈووکیٹ Devil's Advocate بننا کہتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ کون اپنے ہی ملک کی برائی کرتا ہے، کس کو پڑی ہے کہ اپنی ناکامیوں کا پرچار کرے، لیکن اگر ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ جسم میں سرطان کی موجودگی پر آنکھیں نہیں موندی جاتی ہیں۔ مرض کی نوعیت، شدت اور جگہ کا تعین کرکے علاج کیا جاتا ہے۔
لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں تو مباحثے کا قتل ہوچکا ہے اور اس کی جگہ لے لی ہے ایک عجیب سی چیز نے، اب فنِ خطابت تو سیکھ لیا جاتا ہے، لیکن تنقیدی سوچ کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ تالیاں بجوانا، قہقے بلند کروانا مقصد رہ گیا ہے اور اپنی جان چھڑانے کے لئے کچھ ایسے موضوعات کا اہتمام کیا جاتا ہے جن سے فکری بالیدگی تو کجا، اجتماعی باؤلا پن ضرور فروغ پا رہا ہے۔
بیوی ماں سے افضل ہے، شیطان عظیم ہے، نصاب میں عشق کا مضمون شامل ہونا چاہیئے، لے لو میری جوانی دے دو مجھے بجلی و پانی، بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں، عاشقی بے کار لوگوں کا کام ہے، نصاب میں سے حساب کا مضمون منہاں کردیا جائے، داغ تو اچھے ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ان موضوعات پر تقاریر کرکے داد تو موصول ہوجائے گی لیکن معاشرے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ البتہ بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات ضرور بڑھ جائیں گے۔
مباحثہ کی شان ہی یہی ہے کہ اس کے ذریعے عوام کا اجتماعی ضمیر جگایا جاسکتا ہے۔ ایک تقریر سوئی ہوئی قوم کو جگا سکتی ہے۔ شکستہ فوج کو جلا بخش سکتی ہے اور انسانیت کو درپیش پیچیدہ مسائل کا بھی جمہوری حل ڈھونڈنے میں مدد دے سکتی ہے۔ لیکن افسوس اور صد افسوس! فلسفہ و منطق کی میراث کو بھی ہم نے پھکڑ پن اور بودے پن سے لبریز کردیا ہے۔ جس تقریر کا مقصد قوم کو جگانا تھا اب اس کا مقصد قوم کو ہنسانا رہ گیا ہے۔
اور اسی فکری غربت کا اثر ہمیں اپنی سیاست میں بھی نظر آتا ہے۔ جوش تقریر سے نہیں گانے سے آتا ہے، ہوش، چشم کشا حقائق سے نہیں آتا ہے بلکہ بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ سے آتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ مباحثے کے اختتام پر اقرارالحسن نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
''یہ روسٹرم، منبر ہے، اور اس منبر سے کہی جانے والی بات سننا اور اس کا احترام کرنا آپ پر لازم ہے۔''
میری حکامِ بالا، شیخ الجامعات، سیاستدانوں اور اخبارات و ٹی وی چینلز کے مدیران سے یہی گذارش ہے کہ تقریری مقابلے اور مباحثے کروائیں! نوجوان نسل کو خود شناسی کا موقع دیں اور انعامات کے طور پر تعلیمی وظیفے اور انٹرن شپ کے مواقع دیں۔ یہ مباحثوں کی ناکامی ہی ہے کہ جس وجہ سے قوم پہلے ڈی پولیٹسائز یعنی کہ غیر سیاسی اور پھر بے حس ہوگئی ہے۔
ایک آخری بات، تقریری مقابلہ جات میں، منصف کا فیصلہ حتمی و آخری ہوتا ہے۔ فیصلہ کی تردید، منصف کی بے حرمتی گردانی جاتی ہے اور ایسا کرنے والے مقررین کو پہلے تاکید، پھر تنقید اور آخر میں ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل یا 'بلیک لسٹ' کردیا جاتا ہے۔ بدتمیزی اور بد تہذیبی برداشت نہیں کی جاتی ہے۔
اگر آج کل کے سیاسی منظر نامہ کو مندرجہ بالا مثال کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ، جو ہار گئے انھوں نے منصفین کو ہی جھٹلایا ہے! اور احتجاج کی آڑ میں سول نافرمانی اور سلطانی جمہور کو اختتام پذیر کرنا چاہا ہے۔ اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مقابلے ہمیں قانون کی عملداری اور احترام بھی سکھاتے ہیں۔
[poll id="596"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس