معاملہ مراد سعید کی ڈگری کا اور تصویر کا دوسرا رخ

انکوائری کمیٹی کی جلد بازی کا اندازہ لگائیے کہ معاملہ تھا 2 پرچوں کا لیکن کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں 3 پرچے لکھ دیئے۔


مراد سعید کا پورے معاملے کوئی قصور نہیں ماسوائے یہ کہ وہ قومی اسمبلی کا رکن ہے اور اس نے اپنی ڈگری حاصل کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا۔

اپنے مخصوص انداز سے ٹی وی ٹاک شوز کو گرمانے والا شعلہ بیان مقرر، نوجوان لیڈر اور سوات سے 88 ہزار ووٹ حاصل کرنے والا پاکستان کا کم عمر ترین ممبر قومی اسمبلی مراد سعید کا ستارہ پچھلے کئی ماہ سے ڈگری اسکینڈل کی وجہ سے گردش میں ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری قانون کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ مراد سعید کے حق میں آنے اور وائس چانسلر کو برطرف کرنے کی سفارشات آنے کے بعد ملک کے سارے بڑے اخبارات، ٹی وی چینلز، اینکرپرسنز اور سیاستدانوں اور میری طرح سوشل میڈیا پر ٹائم پاس کرنے والوں نے اپنی توپوں کا رخ مراد سعید اور پی ٹی آئی کی طرف موڑدیا ہے۔

ہر کوئی اپنے اپنے انداز اور استطاعت کے مطابق مراد سعید پر لعن طعن کرنے میں مصروف ہے۔ کوئی پی ٹی آئی آئی سے اپنا حساب چکانے کے لئے اس مشن میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈال رہا ہے تو کوئی بغیر کسی تحقیق کے ہر سنی سنائی بات کو آگے منتقل کررہا ہے۔ تحریک انصاف کی صوبائی لیڈر شپ سمیت بہت سارے طالب علم جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں، میں بھی اس تحریک سے وابستہ رہا ہوں اور اس کی لیڈرشپ کی اہلیت، وژن اور انداز سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس لئے خود بھی انہیں ووٹ نہیں دیا اور دوستوں کو بھی انہیں ووٹ نہ دینے اور ان سے دور رہنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ میرے خیال میں یہ تحریک اپنے ٹریک سے اتر گئی ہے لیکن سیاسی اختلافات کے باوجود میں اس بات کی گواہی دینے کی جسارت کررہا ہوں کہ جس ڈگری کے معاملے میں مراد سعید کو گھسیٹا گیا، اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ماسوائے یہ کہ وہ قومی اسمبلی کا رکن ہے اور اس نے اپنی ڈگری حاصل کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا۔

پچھلے تین مہینوں سے میں نے اس کیس میں ذاتی دلچسپی لی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے اساتذہ کے انٹرویو کئے۔ تمام دستاویزات تک رسائی حاصل کی۔ ڈیپارٹمنٹ کے کلرک سے لیکر اس کے تین پی ایچ ڈی پروفیسرز اور خاتون ٹیچر جنہوں نے اس کے لئے میک اپ امتحان کا بندوبست کیا، مراد سعید کے کیس کو سپورٹ کررہے ہیں۔ میں نے مراد سعید سے بھی اس معاملے میں تفصیلی بات کی اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کیس کو سیاسی مقاصد کے لئے حد سے زیادہ اچھالا گیا۔ اس سارے کیس کو سمجھنے کے لئے میں مختصر طور پر آپ کے سامنے چند حقائق رکھنا چاہتا ہوں ۔

مراد سعید 2005 سے 2009 تک پشاور یونیورسٹی میں انوائرنمنٹل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم رہے۔ ایف ایس سی کے بعد پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنسز کے 4 سالہ پروگرام بی ایس آنرز میں داخلہ لیا، یونیورسٹی میں 4 سال گزارے، 40 مضامین پڑھے، پشاور یونیورسٹی کے بلڈ ڈونرز سوسائٹی کے صدر رہے، خیبر لٹریری کلب کے صدر رہے، سوات اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے صدر رہے، پشاور یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ علامہ اقبال شیلڈ جیت کر پورے ملک میں تقریری مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ملک کی تقریباً ساری بڑی یونیورسٹیوں میں منعقدہ تقریری اور شاعری کے مقابلوں میں پشاور یونیورسٹی کی نمائندگی کی۔ پشاور یونیورسٹی کے اسکالرشپ پر جنوبی کوریا اور ہندوستان میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

مراد سعید نے جب یونیورسٹی میں 4 سال گزارے اور عملی سیاست میں قدم رکھنے کے لئے اسلام آباد روانہ ہوئے تو 2009 میں یونیورسٹی چھوڑتے وقت ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کورس کی تکمیل کا سرٹیفیکٹ جاری کیا۔ 2013 میں ڈیپارٹمنٹ کے ایک استاد ڈاکٹر نفیس نے وائس چانسلر کو اپنی ایک کولیگ شہلا، جو ڈیپارٹمنٹ میں بی ایس امتحانات کی ڈیپارٹمنٹل کوارڈینیٹر بھی تھیں، کے خلاف خط لکھا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انہوں نے مراد سعید کے لئے امتحان کا بندوبست کیا ہے جبکہ وہ میرے کلاس سے غیر حاضر رہے اور میرے مضامین کا امتحان نہیں دیا۔ مس شہلا نے بھی اس خط کے جواب میں وائس چانسلر کو ایک خط لکھا جس میں اپنے اوپر اٹھنے والے سارے اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیا اور موقف اختیارکیا کہ مراد سعید کو تو 2011 میں ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ڈی۔ ایم۔ سی جاری کی گئی ہے تو 2013 میں امتحان لینے کی کیا ضرورت ہے؟ وائس چانسلر یا رجسٹرار نے کسی بھی خط کا جواب دینا شاید اس لئے مناسب نہ سمجھا کیونکہ اس وقت مراد سعید قومی اسمبلی کا رکن نہیں بلکہ ایک عام طالب علم تھا۔ اگر اس وقت وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ معمولی سی پھرتی دکھاتے تو شاید معاملات اس نہج تک نہ پہنچتے۔

2013 انتخابات میں عمران خان نے مراد سعید کے پروفائل اور پارٹی میں کردار کو دیکھ کر اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا۔ اگرچہ عام انتخابات میں تعلیم کی شرط نہیں رکھی گئی تھی لیکن پھر بھی مراد سعید نے الیکشن کمیشن میں اپنی تعلیمی قابلیت ایف ایس سی ظاہر کی۔ مارچ 2015 میں مراد سعید نئی چیئر پرسن ڈاکٹر شاہدہ ذاکر کو اپنی ڈگری کے حصول میں مدد کے لئے درخواست لکھی تو انہوں نے بی ایس امتحانات کی کوآرڈینیٹر مس شہلا کو ہدایت کی کہ اگر ممکن ہو تو مراد سعید کے جن دو پرچوں پراساتذہ کو اعتراض تھا، اس کے لئے میک اپ امتحان کا انتظام کیا جائے۔ ڈاکٹر نفیس نے اور دوسرے پروفیسر نے مراد سعید کے لئے پرچے بنائے۔ مراد سعید نے دونوں پرچے حل کئے۔ دونوں اساتذہ نے چیک کئے اور رزلٹ شعبہ امتحانات کو ارسال کیا تاکہ اس کے لئے آفیشل ڈی۔ ایم۔ سی تیار کی جاسکے۔ لیکن اس دوران ایک فیڈریشن نے مراد سعید کے امتحان کے خلاف جلوس نکالا، اور بات میڈیا تک پہنچی۔ میڈیا نے وائس چانسلر سے رابطہ کیا۔ وائس چانسلر نے تمام کارروائی روکنے کا حکم دیا اور معاملے کی انکوائری کا حکم دیا۔ میڈیا کو ایشو مل گیا اور مخالف سیاسی پارٹیوں کو سیاست کا موقع اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے میڈیا اور سیاسی دباؤ میں آکر انکوائری کمیٹی تشکیل دی اور مراد سعید کو حاضر ہونے کو کہا گیا۔ لیکن مراد سعید کمیٹی کے سامنے حاضر ہونے کے بجائے سیدھا عدالت پہنچ گئے۔

یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی نے یک طرفہ فیصلہ سناتے وقت اس قدر جلدبازی سے کام لیا کہ حقائق ہی مسخ کرڈالے۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ معاملہ تھا 2 پرچوں کا لیکن کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں 3 پرچے لکھ دیئے۔ میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ گویا مراد سعید کوئی پہلا طالب علم تھا جس کو رکن قومی اسمبلی ہونے کے ناطے کوئی خاص رعایت دی گئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ متعلقہ ڈیپارٹمنٹ وقتاً فوقتاً اپنے طالب علموں کے لئے میک اپ امتحانات منعقد کراتا آرہا ہے اور شعبہ ماحولیات میں یہ سارا ریکارڈ موجود ہے، جس کے مطابق ابھی تک 200 سے زائد طلباء کے لئے میک اپ امتحانات کا انتظام کیا گیا ہے۔ لیکن کسی بھی امتحان پر نہ تو کوئی اعتراض کیا گیا اور نہ ہی کوئی انکوائری کمیٹی بنی۔ البتہ مراد سعید کے معاملے کو سیاسی رنگ دیا گیا اور ابھی تک اس کا میڈیا ٹرائل جاری ہے۔

اس سارے پس منظر، پروپیگنڈا، میڈیا ٹرائل اور سیاسی بیان بازی میں کسی نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ جس معاملے میں مراد سعید کو اتنا گھسیٹا گیا اور اس پر کیچڑ اچھالا گیا۔ آپ اس سارے معاملے کو اس تناظر میں دیکھئے تو شاید آپ کو اس کیس کی نوعیت سمجھ میں آجائے گی۔ مراد سعید کو کورس کمپلیشن سرٹیفیکیٹ کس نے دیا؟ ڈیپارٹمنٹ یعنی یونیورسٹی نے۔ اسے 2011 میں ان آفیشل ڈی۔ ایم۔ سی کس نے دی؟ ڈیپارٹمنٹ یعنی یونیورسٹی نے۔ اس کے امتحان اور ڈی۔ ایم۔ سی پر اعتراض کس نے اٹھائے؟ کس نے مراد سعید کو مارچ 2015 میں دوبارہ امتحان دینے کا کہا؟ ڈیپارٹمنٹ یعنی یونیورسٹی نے۔ کس نے اس کے لئے امتحان کا بندوبست کیا؟ ڈیپارٹمنٹ یعنی یونیورسٹی نے۔ اس کے لئے پرچے کس نے بنائے اور کس نے چیک کئے؟ ڈیپارٹمنٹ یعنی یونیورسٹی نے۔ کس نے سیاسی دباو میں آکر کمیٹی بنائی اور اس امتحان کومنسوخ کیا؟ اسی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے۔ کس نے ٹی وی پر آکر اپنے ہی امتحانی عمل کو متنازعہ بنایا؟ ڈیپارٹمنٹ یعنی اسی یونیورسٹی نے۔

بہرحال اس ساری کچھڑی میں اگر کوئی بات میرے لئے باعث اطمینان ہے تو وہ یہ کہ اس سارے مسئلے سے حکومت کی توجہ صوبے کی یونیورسٹیوں کی طرف مبذول ہوگی جہاں بہت ساری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ عمران خان اور تو کوئی وعدہ ایفاء نہ کرسکے لیکن اگر وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بنیادی اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوئے تو نہ صرف ملک میں حقیقی تبدیلی آئے گی بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی اس کا احسان رہے گا اور ویسے بھی تبدیلی آنے کا بتایا نہیں جاتا، عمل سے نظر آتا ہے!

[poll id="598"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں