وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ کرنے کا فیصلہ
متحدہ کو قومی دھارے میں رہ کر ملک اور جمہوریت کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، اجلاس میں فیصلہ
وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں پارلیمانی رہنماؤں کا اہم اجلاس ہوا جس میں ایم کیو ایم کے استعفوں سے پیدا صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ کیے جائیں۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود اچکزئی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے کرکے انہیں استعفے واپس لینے پر قائل کریں۔ وزیراعظم نے کہا حکومت کسی پارلیمانی جماعت کو ایوان سے باہر نہیں دیکھنا چاہتی، حکومت کی خواہش اور کوشش ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتیں ایوان میں رہ کر اپنا آئینی اور جمہوری کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم کے چیمبر میں ہونیوالے اجلاس میں خورشید شاہ، فضل الرحمن، اکرم درانی، اے این پی کے غلام احمد بلور، جی جی جمال، غوث بخش مہر، آفتاب شیرپاؤ، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ، وفاقی وزرا چوہدری نثار، اسحق ڈار، پرویز رشید، سعد رفیق اور دیگر شریک ہوئے۔ بی بی سی کے مطابق اجلاس میں ایم کیو ایم کے استعفے قبول نہ کرنے اور اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور قرار دیا گیا کہ کراچی کوکسی طور پر بھی ملک کے دیگر حصوں سے الگ نہیں کیا جائیگا اور وہاں کا مینڈیٹ رکھنے والی کسی بھی جماعت کو سیاسی دھارے سے الگ نہیں کیا جائیگا۔ حکومت ایم کیو ایم کے کراچی سے متعلق تحفظات دور کرنے کی کوشش کریگی، تاہم کراچی آپریشن کو کسی طور پر بھی بند نہیں کیا جائیگا۔
فضل الرحمن نے کہا ایم کیو ایم کے استعفوں سے سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے لہٰذا استعفے قبول کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ ایم کیو ایم کراچی کے عوام کی نمائندہ جماعت ہے، ہمیں ایم کیو ایم کے جائز تحفظات دور کرنے کیلیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کہاکہ حکومت کی یہ پوری کوشش ہے کہ ایم کیوایم پارلیمان کا حصہ رہے۔ وزیر داخلہ نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال اور رینجرزکے آپریشن کے بعد حالات کی بہتری کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔ چوہدری نثارکو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ ایم کیو ایم کے جائز تحفظات دورکرانے کیلیے ڈی جی رینجرز سندھ اور دیگر اعلیٰ حکام سے رابطے کریں۔ آئی این پی کے مطابق ضرورت پڑنے پر فضل الرحمان اور محود اچکزئی الطاف حسین کو منانے کیلیے لندن بھی جاسکتے ہیں۔ اجلاس میں متحدہ کے استعفوں کے معاملے کو التوا میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت استعفوں کے معاملے پر ایم کیو ایم رہنماؤں سے بات چیت جاری رکھے گی۔ اسپیکر ایم کیو ایم کے ساتھ بھی تحریک انصاف والا برتاؤ کریں تاہم کراچی میں فورسز کا ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہیگا۔
وزیر اعظم نے کہا متحدہ کو قومی دھارے میں رہ کر ملک اور جمہوریت کی بہتری کیلیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ استعفے منظور نہ کیے جائیں اور معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے حکومت ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرے۔ خورشید شاہ نے کہا استعفوں کے معاملے پر درمیانی راستہ نکالا جائے، فضل الرحمن نے کہا تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں واپس لایا گیا تو ایم کیو ایم کو کیوں نہیں لایا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کہا جمہوریت اور پارلیمنٹ کوکسی صورت کمزور نہیں ہونے دینگے، کراچی آپریشن پر متحدہ کے تحفظات سننے کوتیار ہیں۔
علاوہ ازیں وزیر خزانہ اسحق ڈار اور متحدہ کے فاروق ستار میں ایک بار پھر ٹیلی فونک رابطہ ہوا، اسحق ڈار نے استعفوں کے فیصلے پرنظرثانی کی درخواست کی اورکہا حکومت کی کوشش ہے کہ ایم کیو ایم پارلیمنٹ کا حصہ رہے۔ فاروق ستار نے کہاکہ کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کرنیکا سلسلہ بند ہونا چاہئے آپریشن کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ اسحق ڈار نے واضح کیا کہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے ، ایم کیو ایم پریشان نہ ہو، متحدہ کا پارلیمانی کردار خود اس کے بہترین مفاد میں ہے۔ فضل الرحمن نے بھی فاروق ستارسے فون پر رابطہ کیا اور انھیں استعفے واپس لینے پر قائل کرنیکی کوشش کی۔ جس پر فاروق ستار نے کہا کہ استعفوں کی واپسی کیلیے ہم سے نہیں الطاف بھائی سے رابطہ کیا جائے، انھوں نے کراچی آپریشن پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو پانچ شرائط پیش کر دیں، پہلی یہ کہ الطاف حسین کا خطاب ٹی وی پر براہ راست نشرکرنے پر پابندی ختم کی جائے، دوسری کراچی آپریشن کی نگرانی کیلیے فوری طور پر مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے، تیسری ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ روکی جائے، چوتھی کراچی آپریشن کو غیر جانبدار بنایا جائے اور پانچویں یہ کہ زیرحراست افراد کو عدالت میں پیش اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کیلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
فضل الرحمن نے چوہدری نثار سے بھی فون پر بات کی اور کہا حکومت استعفوں کے معاملے پرجلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے، چوہدری نثار نے کہاکہ حکومت استعفوں کے معاملے پرقانون کے مطابق کارروائی کریگی، ایم کیو ایم کے جائز خدشات دور کرنے کیلیے تیار ہیں۔ متحدہ کے رہنماؤں رشید گوڈیل، آصف حسنین اور وسیم اختر نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کا رویہ دیکھ کر استعفوں کی واپسی کا فیصلہ کرینگے۔
نجی ٹی وی کے مطابق حکومتی قانونی مشیروں نے ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ کرنے کے کئی جواز ڈھونڈ نکالے ہیں۔ کہتے ہیں کہ الگ الگ استعفوں کی تصدیق کا عمل مکمل نہیں ہوا۔ دستخطوں کی ریکارڈ سے بھی میچنگ کی جانا باقی ہے۔ اجتماعی استعفے اور ان کے ساتھ شکایاتی مراسلہ منسلک کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ مشروط تھے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفوں پر تشویش ہے، اس سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے، اپنے موقف پر قائم ہوں، استعفیٰ ایک مرتبہ اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کے دفتر پہنچ گیا تو وہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا مجھے بتایاگیا کہ عدالت نے بھی اس حوالے سے کچھ فیصلے کیے، اس پر میں نے قانونی ماہرین کو بلایا ہے، ان سے مشاورت کے بعد ایم کیو ایم سے بات چیت ہو گی۔ اگرآئین میں اس کی گنجائش ہے تو ہمارا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا تو نہیں، ہم نہیں چاہتے کہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والوں کو اسمبلی سے باہر بھیجا جائے۔ وزیر اعظم اور پارلیمانی قائدین نے ایم کیو ایم کو استعفے واپس لینے پر آمادہ کرنے کیلیے الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے رابطوں کا ٹاسک مجھے سونپا ہے، میں نے موقف اختیار کیا کہ اگرچہ میرا موقف استعفوں کے معاملے پر وہی ہے جو تحریک انصاف کے استعفوں کے بارے میں تھا تاہم اگر کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے تو میں ضرور کردار ادا کروں گا۔ کراچی میں آپریشن ضرور ہو مگر کسی جماعت کو ٹارگٹ نہیں بنانا چاہیے۔ کوشش ہوگی کہ ایم کیو ایم کو باعزت طریقے سے واپس اسمبلی میں لے آئیں، فضل الرحمن نے آئینی ماہرین کا اجلاس آج بلا لیا۔
دریں اثنا اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور پختونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ایم کیو ایم کو واپس ایوان میں لانے پر اتفاق کیا ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خورشید احمد شاہ اور محمود اچکزئی کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ ایم کیو ایم کو واپس ایوان میں لانے کیلئے حکومت پر زور دیںگے۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پرکہا ایم کیو ایم کو ایوان سے جانے نہ دیا جائے کیونکہ یہی ایوان جمہوریت کی علامت اور تمام مسائل کے حل کی جگہ ہے، ہم کس طرح اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں، یہ آئین اور قانون کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود اچکزئی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے کرکے انہیں استعفے واپس لینے پر قائل کریں۔ وزیراعظم نے کہا حکومت کسی پارلیمانی جماعت کو ایوان سے باہر نہیں دیکھنا چاہتی، حکومت کی خواہش اور کوشش ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتیں ایوان میں رہ کر اپنا آئینی اور جمہوری کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم کے چیمبر میں ہونیوالے اجلاس میں خورشید شاہ، فضل الرحمن، اکرم درانی، اے این پی کے غلام احمد بلور، جی جی جمال، غوث بخش مہر، آفتاب شیرپاؤ، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ، وفاقی وزرا چوہدری نثار، اسحق ڈار، پرویز رشید، سعد رفیق اور دیگر شریک ہوئے۔ بی بی سی کے مطابق اجلاس میں ایم کیو ایم کے استعفے قبول نہ کرنے اور اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور قرار دیا گیا کہ کراچی کوکسی طور پر بھی ملک کے دیگر حصوں سے الگ نہیں کیا جائیگا اور وہاں کا مینڈیٹ رکھنے والی کسی بھی جماعت کو سیاسی دھارے سے الگ نہیں کیا جائیگا۔ حکومت ایم کیو ایم کے کراچی سے متعلق تحفظات دور کرنے کی کوشش کریگی، تاہم کراچی آپریشن کو کسی طور پر بھی بند نہیں کیا جائیگا۔
فضل الرحمن نے کہا ایم کیو ایم کے استعفوں سے سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے لہٰذا استعفے قبول کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ ایم کیو ایم کراچی کے عوام کی نمائندہ جماعت ہے، ہمیں ایم کیو ایم کے جائز تحفظات دور کرنے کیلیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کہاکہ حکومت کی یہ پوری کوشش ہے کہ ایم کیوایم پارلیمان کا حصہ رہے۔ وزیر داخلہ نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال اور رینجرزکے آپریشن کے بعد حالات کی بہتری کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔ چوہدری نثارکو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ ایم کیو ایم کے جائز تحفظات دورکرانے کیلیے ڈی جی رینجرز سندھ اور دیگر اعلیٰ حکام سے رابطے کریں۔ آئی این پی کے مطابق ضرورت پڑنے پر فضل الرحمان اور محود اچکزئی الطاف حسین کو منانے کیلیے لندن بھی جاسکتے ہیں۔ اجلاس میں متحدہ کے استعفوں کے معاملے کو التوا میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت استعفوں کے معاملے پر ایم کیو ایم رہنماؤں سے بات چیت جاری رکھے گی۔ اسپیکر ایم کیو ایم کے ساتھ بھی تحریک انصاف والا برتاؤ کریں تاہم کراچی میں فورسز کا ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہیگا۔
وزیر اعظم نے کہا متحدہ کو قومی دھارے میں رہ کر ملک اور جمہوریت کی بہتری کیلیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ استعفے منظور نہ کیے جائیں اور معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے حکومت ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرے۔ خورشید شاہ نے کہا استعفوں کے معاملے پر درمیانی راستہ نکالا جائے، فضل الرحمن نے کہا تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں واپس لایا گیا تو ایم کیو ایم کو کیوں نہیں لایا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کہا جمہوریت اور پارلیمنٹ کوکسی صورت کمزور نہیں ہونے دینگے، کراچی آپریشن پر متحدہ کے تحفظات سننے کوتیار ہیں۔
علاوہ ازیں وزیر خزانہ اسحق ڈار اور متحدہ کے فاروق ستار میں ایک بار پھر ٹیلی فونک رابطہ ہوا، اسحق ڈار نے استعفوں کے فیصلے پرنظرثانی کی درخواست کی اورکہا حکومت کی کوشش ہے کہ ایم کیو ایم پارلیمنٹ کا حصہ رہے۔ فاروق ستار نے کہاکہ کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کرنیکا سلسلہ بند ہونا چاہئے آپریشن کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ اسحق ڈار نے واضح کیا کہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے ، ایم کیو ایم پریشان نہ ہو، متحدہ کا پارلیمانی کردار خود اس کے بہترین مفاد میں ہے۔ فضل الرحمن نے بھی فاروق ستارسے فون پر رابطہ کیا اور انھیں استعفے واپس لینے پر قائل کرنیکی کوشش کی۔ جس پر فاروق ستار نے کہا کہ استعفوں کی واپسی کیلیے ہم سے نہیں الطاف بھائی سے رابطہ کیا جائے، انھوں نے کراچی آپریشن پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو پانچ شرائط پیش کر دیں، پہلی یہ کہ الطاف حسین کا خطاب ٹی وی پر براہ راست نشرکرنے پر پابندی ختم کی جائے، دوسری کراچی آپریشن کی نگرانی کیلیے فوری طور پر مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے، تیسری ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ روکی جائے، چوتھی کراچی آپریشن کو غیر جانبدار بنایا جائے اور پانچویں یہ کہ زیرحراست افراد کو عدالت میں پیش اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کیلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
فضل الرحمن نے چوہدری نثار سے بھی فون پر بات کی اور کہا حکومت استعفوں کے معاملے پرجلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے، چوہدری نثار نے کہاکہ حکومت استعفوں کے معاملے پرقانون کے مطابق کارروائی کریگی، ایم کیو ایم کے جائز خدشات دور کرنے کیلیے تیار ہیں۔ متحدہ کے رہنماؤں رشید گوڈیل، آصف حسنین اور وسیم اختر نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کا رویہ دیکھ کر استعفوں کی واپسی کا فیصلہ کرینگے۔
نجی ٹی وی کے مطابق حکومتی قانونی مشیروں نے ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ کرنے کے کئی جواز ڈھونڈ نکالے ہیں۔ کہتے ہیں کہ الگ الگ استعفوں کی تصدیق کا عمل مکمل نہیں ہوا۔ دستخطوں کی ریکارڈ سے بھی میچنگ کی جانا باقی ہے۔ اجتماعی استعفے اور ان کے ساتھ شکایاتی مراسلہ منسلک کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ مشروط تھے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفوں پر تشویش ہے، اس سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے، اپنے موقف پر قائم ہوں، استعفیٰ ایک مرتبہ اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کے دفتر پہنچ گیا تو وہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا مجھے بتایاگیا کہ عدالت نے بھی اس حوالے سے کچھ فیصلے کیے، اس پر میں نے قانونی ماہرین کو بلایا ہے، ان سے مشاورت کے بعد ایم کیو ایم سے بات چیت ہو گی۔ اگرآئین میں اس کی گنجائش ہے تو ہمارا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا تو نہیں، ہم نہیں چاہتے کہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والوں کو اسمبلی سے باہر بھیجا جائے۔ وزیر اعظم اور پارلیمانی قائدین نے ایم کیو ایم کو استعفے واپس لینے پر آمادہ کرنے کیلیے الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے رابطوں کا ٹاسک مجھے سونپا ہے، میں نے موقف اختیار کیا کہ اگرچہ میرا موقف استعفوں کے معاملے پر وہی ہے جو تحریک انصاف کے استعفوں کے بارے میں تھا تاہم اگر کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے تو میں ضرور کردار ادا کروں گا۔ کراچی میں آپریشن ضرور ہو مگر کسی جماعت کو ٹارگٹ نہیں بنانا چاہیے۔ کوشش ہوگی کہ ایم کیو ایم کو باعزت طریقے سے واپس اسمبلی میں لے آئیں، فضل الرحمن نے آئینی ماہرین کا اجلاس آج بلا لیا۔
دریں اثنا اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور پختونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ایم کیو ایم کو واپس ایوان میں لانے پر اتفاق کیا ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خورشید احمد شاہ اور محمود اچکزئی کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ ایم کیو ایم کو واپس ایوان میں لانے کیلئے حکومت پر زور دیںگے۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پرکہا ایم کیو ایم کو ایوان سے جانے نہ دیا جائے کیونکہ یہی ایوان جمہوریت کی علامت اور تمام مسائل کے حل کی جگہ ہے، ہم کس طرح اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں، یہ آئین اور قانون کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔