دار چینی کا جزیرہ پہلا حصہ

ایک پرسکون خاموشی جھیل کے اوپر تیر رہی تھی۔ ایک گہرا سکون جو شہر کی گہما گہمی میں نہیں ملتا۔

shabnumg@yahoo.com

جولائی کا گرم دن تھا مگر آسمان پر کہیں کہیں سفید بادل نظر آ رہے تھے۔ سری لنکا میں ان دنوں یکایک بارش برسنے لگتی ہے۔ بعض اوقات دن میں تین چار مرتبہ بھی! موسم یکایک خوشگوار ہو جاتا ہے اور احساس فطری مہک سے سرشار۔ ٹوئرسٹ کمپنی کی ایک بڑی سی وین اور سلجھا ہوا ڈرائیور ہمارے ساتھ تھا، جو ایک لحاظ سے ہمارا گائیڈ بھی تھا۔ راستے میں ہر شہر کا نام، اہمیت اور تفریحی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کرتا جاتا۔ ابھی یہ ہمیں مدو گنگا جھیل دکھانے جا رہا ہے۔ یہ جھیل بالاہتیا میں جنوبی صوبے کے گالے ڈسٹرکٹ میں واقع ہے۔ یہ ایک خوبصورت ساحلی جھیل ہے۔ اسے قدیم دور میں ویلی گنگا بھی کہا جاتا تھا۔ یہ علاقہ سدا بہار جنگلی درختوں اور جھاڑیوں میں گھرا ہوا ہے۔ بقول قدیم شاعر کے کہ:

دنیا کی طرف بھاگنے والو فقط
پریشانیاں اور الجھنیں ملیں گی

یہ تمہیں تمہارا خالص پن
واپس لوٹا دے گی

ایک پرسکون خاموشی جھیل کے اوپر تیر رہی تھی۔ ایک گہرا سکون جو شہر کی گہما گہمی میں نہیں ملتا۔ جہاں ہم اپنی ذات سے بچھڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک حسین موقع تھا، کھوئی ہوئی ذات کو دوبارہ پانے کا۔ اس پرسکون جھیل میں تین سو کے قریب پودے اور دو سو پچاس کے لگ بھگ ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جاندار پائے جاتے ہیں۔ یہ سری لنکا کی دوسری بڑی آبی جانوروں کی رہائش گاہ کہلاتی ہے۔ کشتی کا یہ سفر انتہائی پرکیف اور نیا پن لیے ہوئے تھا۔ بالاہتیا گاؤں پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ راستے میں ایک پل نظر آیا، جو کافی نیچے تھا۔ ملاح نے سب سے جھکنے کے لیے کہا۔ اگر نہ جھکتے تو سروں کی خیر نہیں تھی۔ یورپین سیاح واپس آ رہے تھے۔ انھوں نے جھکتے وقت خوب شور مچایا۔ ہر سمت ہلچل اور زندگی کا احساس رواں دواں تھا۔ ملاح نے ایک جگہ کشتی روک کے جھاڑیوں میں ایک بڑی سی چھپکلی نما جانور دکھایا۔ اس نے کشتی کا رخ موڑا تو قدیم درختوں اور جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی فطری غار نظر آئی۔ اس تنگ گزرگاہ میں جا بجا پراسراریت کا احساس تھا۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ہر مسافر انجانا سا خوف محسوس کرتا ہو گا۔ وہ ہمیں دار چینی کے جزیرے کی طرف لے کر جا رہا تھا۔ یہ وہی دار چینی ہے جو ہمارے روزمرہ کھانوں کا حصہ بنتی ہے۔

جزیرے کے قریب کشتی رکی تو گھنی جھاڑیوں کی ایک گزرگاہ اوپر کی طرف جا رہی تھی۔ دار چینی کی بھینی مہک ہوا کے جھونکوں کے ساتھ مزید گہری ہونے لگتی۔ سری لنکا دار چینی کی خالص پیداوار کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ برازیل، انڈونیشیا، چائنا، ویت نام اور برما میں بھی یہ درخت پائے جاتے ہیں۔ اس کی سو سے زائد قسمیں ہیں مگر فقط چار اقسام کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک قسم کیسیا دارچینی کی بھی ہے، جو گہری خاکستری رنگ کی اور دیکھنے میں کھردری ہے۔ یہ زیادہ تر چائنا، انڈیا، ویت نام اور انڈونیشیا میں پائی جاتی ہے۔ لیکن سیلونی دار چینی ہلکے براؤن رنگ کی ہے۔ دیکھنے میں ہموار اور جلدی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ کیسیا کے مقابلے کم مضر صحت ہے۔ 2012ء میں انٹرنیشنل جرنل آف پریوینٹو میڈیسن کے مطابق تین گرام سفوف روزانہ ذیابیطس کے مریضوں کو آٹھ ہفتوں تک استعمال کروایا گیا۔ جس سے شوگر لیول میں واضح کمی واقع ہوئی۔ تاہم اس کا زیادہ استعمال مضر صحت ہے۔ بالخصوص جگر کی بیماریوں میں اس کے استعمال کی ممانعت ہے۔ کھانوں میں روزانہ دار چینی کی مقدار اتنا فائدہ نہیں کرتی۔ یہ دوا کے طور پر زیادہ مقدار میں لی جاتی ہے۔ جس کے لیے سیلونی دار چینی زیادہ مفید ہے۔

سامنے گائیڈ ہمیں ایک چوکور کمرے کی طرف لے گیا، جو چاروں طرف سے کھلا تھا۔ پہلے اس نے دار چینی کا درخت دکھایا۔ جس کی چھال اس کے ہاتھ میں تھی۔ تعارف کے بعد جب ہم نشستوں پر براجمان ہوئے تو سب سے پہلے اس نے دار چینی کے فوائد بتائے۔ دار چینی کا استعمال قدیم تہذیب جیسے کہ مصر، چائنا، روم اور یونان میں ہوتا تھا۔ یہ گلے کے جملہ امراض، کولیسٹرول کی کمی، جوڑوں کے درد اور دل کی بیماریوں میں استعمال کی جاتی تھی۔ اس نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد وہ دکھانے لگا کہ کس طرح چھال سے چھوٹے ٹکڑے بنائے جاتے ہیں۔ اسی اثنا میں دار چینی کی چائے ایک لڑکا لے کر آیا۔ ہم چائے پینے لگے بڑے مزے کی چائے تھی۔

''یہ چائے سردیوں میں ہر طرح کی موسمی بیماریوں سے فائدے مند رہتی ہے۔ اس کے ساتھ لونگ اور بڑی الائچی کا استعمال جسم کو زیادہ تقویت دیتا ہے۔''


''جی بالکل۔'' بچوں نے سر دھنے کیونکہ وہ یہ چائے پینے کے عادی ہیں۔''

''دار چینی کے سفوف کی چٹکی بھر اور ایک چمچہ شہد اگر روزانہ استعمال کیا جائے تو وزن کم ہوتا ہے۔'' گائیڈ نے بتایا پھر وہ اپنی دار چینی سے بنی اشیا دکھانے لگا۔ یہ دار چینی کا تیل ہے۔ مچھروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس تیل کی خوشبو تیز اور دل دہلانے والی تھی۔ مچھر ایسے تو نہیں بھاگتے۔

آج کل ہر جگہ کیمیکل استعمال ہو رہے ہیں، جو صحت کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ بناوٹی اور غیر فطری دنیا ہمیں تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ یہ فطری اشیا اور ان کا استعمال اب قصہ پارینہ بن چکا۔ میں نے دار چینی سے بنی مزیدار چائے کا سِپ لیتے ہوئے سوچا۔

''امی کو نباتات اور جڑی بوٹیوں کے علم سے بڑا لگاؤ ہے۔'' عرصم نے گائیڈ کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوا۔

''یہ نیم حکیم خطرہ جان ہے۔'' میاں بولے تو سب ہنسنے لگے۔

''یہ لوگ نباتات کی کس قدر پوجا کرتے ہیں۔'' میں نے رشک بھرے لہجے میں کہا۔

دارچینی کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ مصر میں کئی مذہبی رسومات میں اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ یونان اور روم میں اسے جادوئی جڑی بوٹی کہا جاتا تھا۔ جو طاقت، روحانیت، کامیابی، شفا، تحفظ، محبت، قسمت و خوشحالی کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ اسے جلایا بھی جاتا تھا اور اس کے ساشے بنا کے رکھے جاتے تھے تا کہ روحانیت اور تحفظ کی لہریں منفی اثرات کو زائل کر دیں۔ واپس آتے ہیں زمین پر جا بجا دارچینی کے درخت کے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ ان پر پاؤں پڑتے تو پورا جنگل مہک اٹھتا۔ ان لوگوں کے پاس چیزوں کو سنبھالنے، سنوارنے اور بہتر بنانے کا کس قدر سلیقہ ہے۔ یہ اپنے پھولوں، پودوں، درختوں، دریاؤں، قدیم ورثے اور سمندروں سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ تفریحی مقامات، دریا، سمندر، باغ، کھیت و کھلیان ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھے۔ کیونکہ یہ تمام تر وسائل ان کی زندگی کی بقا و خوشحالی سے جڑے ہوئے ہیں۔ مدوگنگا کے پچیس جزیروں پر دار چینی، بیمبو اور ناریل کے بے شمار درخت پائے جاتے ہیں۔ خوشبودار جنگل کی مہک تھی ہر طرف اور حواس تھے کہ نیند سے بوجھل ہوئے جا رہے تھے۔

(جاری ہے)
Load Next Story