بلوچستان آزمائش در آزمائش
1974ء کی بغاوت میں اردو داں طبقہ بھی موجود تھا کیونکہ یہ بغاوت نیشنل عوامی کے روس نواز دھڑے نے کر رکھی تھی
صبر ایوبیؑ اور باضابطگی حضرت ایوب علیہ السلام سے مشہور ہے۔ مگر ان کے نام سے منسوب پاکستان کے ایک حاکم محمد ایوب خان نے بات چیت کے نام پر نوروز خان اور ان کے 8 ساتھیوں کو گفتگو کے لیے بلایا اور 9 کے 9 لوگوں کو پھانسی دے دی، یہ تھی بدعہدی جس نے بلوچستان میں بداعتمادی اور بدعہدی کا آغاز کیا۔ ایوب خان نے بلاشرکت غیرے مسلم لیگ کے نام سے دس برس حکومت کی۔ اس حکومت میں ایوب خان کے دست راست ذوالفقار علی بھٹو ان کے سیاسی مشیر بھی تھے۔ ابھی ایوب خان کی سفاکی کے زخم بھرے نہ تھے کہ عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر 1974ء میں بلوچستان کی منتخب نیشنل عوامی پارٹی کی منتخب حکومت اور عطا اللہ مینگل پر کریک ڈاؤن کر دیا۔ مگر وہ ایوب خان نہ تھے کہ اپنے کاندھے پر سارا بوجھ ڈال لیتے۔
انھوں نے زبردست چابک دستی سے نواب اکبر بگٹی کو ملا کر آپریشن کیا' انھیں گورنری کا منصب سونپ دیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ شورش کا دائرہ کار پشتون علاقوں اور بگٹی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ البتہ قلات، خضدار، جھالاوان، تربت، پسنی، گوادر میں زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ مری علاقے بھی خاصے متحرک تھے ان علاقوں میں جہاں یہ تحریک چل رہی تھی وہاں عوامی راج کا نعرہ تھا اور بہت بھرپور طریقے سے مہم جاری تھی۔ مخصوص علاقوں میں ان کے ماہانہ پمفلٹ بھی تقسیم ہوتے تھے۔ جب کہ میڈیا پر ان لیڈروں کے خلاف سردار اور نوابی کا پروپیگنڈہ جاری تھا۔ مگر آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے کی ہمت نہ تھی کیونکہ عوام میں انتہائی قسم کے نعروں کے لیے زمین ہموار نہ تھی۔ جب سندھ کے وڈیرے اور حکمران بلوچ باغیوں کے خلاف باتیں کرتے تھے تو بلوچ عوامی راج کے نعرے لگاتے تھے اور اپنے دفاع میں یہ کہتے تھے کہ ہم انگریز کے بنائے سردار یا نواب نہیں ہیں بلکہ ہم تو اس وقت کے منتخب کردہ ہیں جب تاریخ کے دھارے میں کمیون سسٹم جاری تھا اس وقت کی پروپیگنڈہ مشنری جو بلوچوں کے حق میں تھی اس کو نازش امروہوی چلا رہے تھے جن کی رہائش کا خود کوئی ٹھکانہ نہ تھا البتہ ان کے شایع کردہ پمفلٹ سنا ہے کہ سائیں عزیز اللہ مرحوم مختلف گھروں پر اور اخبارات کے دفتروں پر چھوڑ جاتے تھے۔
1974ء کی بغاوت میں اردو داں طبقہ بھی موجود تھا کیونکہ یہ بغاوت نیشنل عوامی کے روس نواز دھڑے نے کر رکھی تھی اور تنگ نظر قوم پرست اس میں نمایاں نہ تھے، جناح روڈ یا دالبدین میں پنجابی یا اردو داں ان لوگوں کا نشانہ نہ تھے جیسا کہ اب بسوں سے اتار کر مارا جاتا ہے اہداف مقرر تھے' لوگوں کی نقل مکانی کا تصور نہ تھا لیکن نقل مکانی پر مجبور کرنے میں آج بھی قوم پرست کم ملوث ہیں۔ زیادہ تر کالعدم مذہبی تحریکیں خوف زدہ کر کے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہیں لہٰذا لوگ اپنی جائیداد اونے پونے بیچ کر اپنے باپ دادا کی رہائش چھوڑ کر جا رہے ہیں، کوئٹہ کا یہ المیہ ہے یا مستونگ اور دیگر چھوٹے شہروں میں اکا دکا واقعات رونما ہوئے۔ مگر موجودہ حکمراں پارٹیاں خصوصاً بلوچ قوم پرست وسیع النظری کا ثبوت دے رہی ہیں 'بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ غوث بخش بزنجو کی جماعت ہے جو چھوٹے پیمانے پر انسانی حقوق کا تحفظ کر رہی ہے۔
اس حکومت کے آنے سے قبل اغوا برائے تاوان خصوصاً ہندوؤں کو کافی مشکلات تھیں مگر اب ہندوؤں کو ان مشکلات سے دوچار نہیں ہونا پڑ رہا ہے اس کے علاوہ کاروباری حضرات کو جن مشکلات کا سامنا تھا وہ بھی رفع ہو چکی ہیں۔ بلوچستان کی حکومت فی الوقت انتہا پسندوں اور توازن پرستوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے گو کہ میری اطلاعات محدود ہیں' اڑتی پڑتی خبریں ایپکس کمیٹی کی کارکردگی کے جوابات سے سوالات کا اندازہ ہوتا ہے اور جوابات بھی محسوس ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ صدر جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف سے جو غلطیاں سرزد ہوئی تھیں دونوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جا رہے ہیں ۔
جنرل پرویز مشرف نے جو غلطی کی وہ بہت بڑی غلطی تھی جس کا اندازہ خود ان کو بھی نہ تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اگر وہ زمینی حقائق سے آگاہ ہوتے اور اکبر بگٹی کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا تو وہ ایسا قدم نہ اٹھاتے۔ یہ پاکستان کے فوجی لیڈروں کی مجبوری ہے کہ انھیں سیاسی بصیرت سے کام لینا ضروری ہے۔ تحمل، تدبر اور تفکر ہر قدم پر ضروری ہے۔ کیونکہ پاکستان نہایت سنگین راستوں سے گزر رہا ہے۔ اتفاق کی بات ہے جنرل راحیل ان راستوں کو سمجھ رہے ہیں داخلہ اور خارجہ امور پر وہ اپنی نگاہ کو بلند کیے ہوئے ہیں اور بلوچستان کو اولیت دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے ہمراہ وہ بلوچستان کے مسئلوں کو حل کرنے میں کوشاں ہیں۔ حالیہ فیصلوں میں پہاڑوں سے اترنے والوں کو بہت سی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے واضح طور پر جو نمایاں حوصلہ افزائی کا معاشی صلہ ہے ان میں رقوم کا ملنا ہے 5 تا 15 لاکھ جو لوگ اتر رہے ہیں ان میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو لوگ تھک چکے ہیں اور منزل نظر نہیں آ رہی ہے یہ ایک اچھا عمل ہے جب کہ طالبان کا طریقہ کار مختلف ہے اس میں کوئی حوصلہ افزائی کا عمل دخل نہیں ہے، بلوچ نوجوان کے لیے درحقیقت سیاسی رہ گزر پر رہزنی اور رہبری کا مسئلہ ہے۔ معاملات بہتر سے بہتر کی طرف جا رہے ہیں۔
اگر بلوچ ناراض حضرات کو سیاسی مراعات دی جائیں تو معاملات جو الجھ گئے ہیں اس ڈور کو سلجھایا جا سکتا ہے اور اس کی تجاویز وزیر اعلیٰ بلوچستان سے لی جائیں۔ مثال کے طور پر راہداری کے مسئلے پر مختلف مراعات، بلوچستان کی آمدنی میں حصہ کی شرح، ملازمتوں کی شرح، دکانوں، ہوٹلوں اور کاروباری مراعات ٹیکنیکل معاملات میں بلوچوں کی تربیت، ٹول ٹیکس کی شرح اور دیگر مراعات بشمول ٹورازم، حکومت بلوچستان سے مشورے کے بعد بلوچوں کے لیے نئی بستیوں کا قیام، تا کہ نسل پرستی کا عفریت لوگوں کے سر سے اتر جائے۔ ابتدائی بول چال کے لیے چائنیز لینگویج کے چھوٹے انسٹی ٹیوٹ جو اردو چائنیز اور مقامی آوازوں کا ادراک، بلوچستان کا مسئلہ کب کا حل ہو گیا ہوتا کیونکہ وہ نہ کوئی الگ کرنسی مانگ رہے تھے اور نہ وزارت خارجہ۔ یہ جو الگ الگ کی باتیں ہو رہی ہیں وہ محض کچھ لو اور دو کی باتیں ہیں۔
یہ شیخ مجیب کے 6 نکات نہیں ہیں زیادہ مانگیں گے تو کچھ ملے گا کا فلسفہ ہے۔ جو لوگ لیڈران کی حیثیت سے بیٹھ گئے ہیں انھیں بھی معلوم ہے کہ الگ ملک اتنا آسان نہیں اور نہ عالمی پیمانے پر اس قدر آسان ہے۔ لہٰذا ناراض لیڈران سے براہ راست بات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ پہلے وزیر اعلیٰ کی بنیاد پر اور بعدازاں ایک تجویز کے ذریعے۔ وزیر اعلیٰ وزیر اعظم اور جنرل راحیل شریف پھر دونوں حضرات کو مینڈیٹ دے کر ابتدائی بات ہر ایک سے الگ الگ کی جائے۔ ظاہر ہے 3 پارٹیاں یا 4 پارٹیاں الگ الگ ڈیمانڈ پیش کریں گی کچھ نرم ہوں گے تو کچھ گرم۔ بعدازاں معاملات ختم اور نرم ہوتے جائیں گے لیکن اعتماد سازی کا عمل جیسا کہ آگے بڑھ رہا ہے آگے بڑھایا جائے نہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کہ ایک کو توڑ کر اپنا ہمنوا بناؤ اور الگ الگ کر کے مارو نہ کہ جنرل ایوب خان اور جنرل مشرف کی طرح سفاکی بلکہ جو عمل چل رہا ہے اس کو سرعت سے آگے بڑھایا جائے کیونکہ آخر کار ان کو بلوچستان کی مٹی اپنی طرف کھینچے گی اور مسائل حل ہوں گے کیونکہ تمام فریق ملک کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی کرن مہر کے ادراک میں ہے
جاگ اے روح کی عظمت کہ مری خاک میں ہے
(مصطفیٰ زیدی)