ستمگر اگست اور چھوٹا سا امتحان

جمہوریت مضبوط کرنے کی جتنی بھی کوشش کی جاتی ہے صرف ایک واقعہ اس پر پانی پھیر دیتا ہے۔


Ayaz Khan August 13, 2015
[email protected]

WASHINGTON: جمہوریت مضبوط کرنے کی جتنی بھی کوشش کی جاتی ہے صرف ایک واقعہ اس پر پانی پھیر دیتا ہے۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب کسی سیاسی جماعت نے اجتماعی استعفے دیے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں ہی تحریک انصاف نے قومی اور پنجاب وسندھ اسمبلیوں سے استعفے دیے تھے اور اب پھر اگست کا مہینہ ہے اور ایم کیوایم نے سینیٹ، قومی اور سندھ اسمبلی سے اجتماعی استعفے دے دیے ہیں۔ 12اگست کا دن بہت ہنگامہ خیز رہا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی میں ایک فون کیا اور فوری طور پر ان کے ارکان پارلیمنٹ حرکت میں آئے اور اجتماعی طور پر مستعفی ہو گئے۔

ماضی میں استعفے الطاف حسین کو پیش کیے جاتے تھے مگر اس بار قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو استعفے پیش کیے گئے۔ سندھ اسمبلی میں اسپیکر آغا سراج درانی نے استعفے وصول کر لیے مگر کہا کہ وہ ان کا جائزہ لیں گے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ایم کیو ایم سے استعفوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے استعفے وصول کرتے ہی انھیں منظور کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ اس کے بعد یوں لگا کہ ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اسپیکر صاحب کو ایک پیغام مل گیا کہ حضور یوں نہیں کرنا۔ پھر ڈیمج کنٹرول شروع ہو گیا۔

اس ساری ہنگامہ خیزی کے دوران وزیر اعظم بیلا روس میں تھے۔ یہ مت سمجھیے گا کہ وہ اس سے لاعلم تھے کیونکہ ان کے علم میں صورتحال نہ ہوتی تو ایم کیو ایم کے ارکان کم از کم قومی اسمبلی سے ضرور فراغت پا چکے ہوتے۔ وزیراعظم رات 9بجے کے قریب وطن واپس پہنچے اور انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کا آغاز کر دیا۔ اسحاق ڈار نے رات ہی ڈاکٹر فاروق ستار سے فون پر نظر ثانی کی درخواست کر دی۔ جمعرات کی دوپہر انھوں نے دوبارہ فون کیا۔ جمہوریت کو کمزور ہونے سے بچانے کے لیے پارلیمانی سربراہوں کا اجلاس طلب کیا گیا۔ اجلاس حسب توقع اس فیصلے پر پہنچا کہ ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ کیے جائیں۔

بدھ کی رات مولانا فضل الرحمان نے جب بھی میڈیا سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ثالثی کے لیے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ اس سے پہلے مختلف چینلز پر یہ خبر چلتی رہی کہ حکومت ایم کیو ایم کو منانے کا ٹاسک مولانا کو دینے والی ہے۔ گویا مولانا نے خود کو ثالثی کے لیے پیش کر دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ مولانا، تحریک انصاف کے استعفوں کو منظور نہ کرنے کے اقدام کو آئین اور قانون کے منافی قرار دے رہے تھے۔ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں حکومتی وفد ان کے دردولت پر حاضر ہوا تو ملکی اور سیاسی ''مفاد'' میں انھوں نے تحریک انصاف کے خلاف قومی اسمبلی میں اپنی قرار داد واپس لے لی۔ حکومت اور پارلیمانی سربراہوں کی درخواست پر مولانا ثالث بن چکے ہیں۔ انھوںنے یہ ذمے داری ملتے ہی اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس بار حکومت نے ان کی خدمات نقد مانگی ہیں تو اس کے بدلے میں ادھار نہیں کرے گی۔ ورنہ مولانا کا موقف واضح ہے۔ فرماتے ہیں تحریک انصاف کی طرح ایم کیو ایم کے ارکان بھی عملی طور پر مستعفی ہو چکے ہیں البتہ آئین اور قانون میں گنجائش نکلتی ہے تو پھر ضرور غور ہونا چاہیے۔

حکومت اور اس کے سیاسی حلیفوں کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 13اپریل 2015ء کے ایک فیصلے سے روشنی مل گئی ہے۔ خورشید شاہ کہتے ہیں آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ درست' سیاسی مسائل کا حل سیاسی ہی ہونا چاہیے۔ جمہوریت کی مضبوطی کی بات کی جائے تو گذشتہ سال اگست کے استعفوں کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تلاش کیا جا رہا تھا۔ حکومتی وزیر الزامات کی بھرمار کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نے بھی کہا تھا وقت آنے پر بتایا جائے گا اس سازش کے پیچھے کون ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے تو ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا البتہ ان کے وزیر دفاع خواجہ آصف پرانے الزامات پھر دہراتے نظر آتے ہیں۔ ہاں اب یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ متحدہ کے استعفوں کے پیچھے کسی خفیہ ہاتھ کا الزام سننے کو نہیں ملا۔

اسے بھی غالباً جمہوریت کا حسن ہی کہا جائے گا کہ آج حکومتی ارکان خود یہ وضاحتیں دینے پر مجبور ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکان ڈی سیٹ نہیںہوئے۔ سرکاری پارٹی اگر اپوزیشن کا کیس لڑنے لگے تو سمجھیں جمہوریت مضبوط ہو گئی ہے۔ گذشتہ دو دن میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اچانک ایسا کیوں کیا؟۔ آپ کو یاد ہو گا مائنس الطاف حسین فارمولے کی باتیں بڑی شدت سے ہو رہی تھیں۔ ایم کیو ایم کے اندر اختلافات کا تاثر بھی دیا جا رہا تھا۔ الطاف حسین متعدد بار رابطہ کمیٹی کو توڑ کر اس کی از سرنو تشکیل کر چکے ہیں۔ انھوں نے پارٹی کی قیادت چھوڑنے کی پیش کش بھی لاتعداد مرتبہ کی۔ بے یقینی کی فضا پیدا ہو جائے تو انتہائی اقدام اٹھانا پڑتا ہے۔

الطاف حسین اپنے کیریئر کی مشکل ترین اننگز میں بہت خوبصورت کھیلے۔ انھوں نے ایک ہی سٹروک سے یہ ثابت کر دیا کہ ٹیم کا ایک بھی کھلاڑی ان کے خلاف نہیں ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ پیغام دے دیا کہ اگر کسی نے ایم کیو ایم سے ڈیل کرنی ہے تو اسے کپتان الطاف حسین سے بات کرنا پڑے گی۔ ان کی ٹیم کا کوئی اور رکن اس قابل نہیں کہ وہ ڈیل کر سکے۔ انھوں نے اپنی سیاسی تنہائی کو بھی بڑی حد تک دور کر لیا۔ آپ دیکھ لیں تمام سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ الطاف حسین، نواز شریف اور آصف زرداری کے رویے سے بھی ناراض تھے۔ استعفوں کے کارڈ نے دونوں کو مشکل میں ڈال دیا۔ استعفے منظور ہو جاتے تو ایسا سیاسی بحران پیدا ہوتا جس سے نکلنا بہت مشکل تھا۔ بات ضمنی الیکشن پر ختم نہ ہوتی۔ عام انتخابات کی طرف جانا پڑتا۔ حکومت یہ نہیں چاہتی۔

سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے ساری نظریں اب مولانا فضل الرحمان پر ہیں۔ مولانا کی کامیابی کے امکانات ہمیشہ 100فیصد ہوتے ہیں۔ مولانا نے ناکام ہونا سیکھا ہی نہیں۔ نواز شریف اور ان کے حلیفوں نے مولانا کو کتنا مینڈیٹ دیا ہے اور الطاف حسین کم سے کم کن مطالبات کی منظوری پر راضی ہوں گے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ الطاف حسین کو دینے کے لیے وزیر اعظم کے پاس کتنا کچھ ہے۔ ایم کیو ایم کے بقول ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی جانچ پڑتال کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام اور کراچی آپریشن کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی کے مطالبات اتنے بڑے نہیں ہیں۔ یہ دو مطالبات شاید اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی قابل قبول ہونگے۔ آپریشن پر البتہ کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا یہ حکومت بھی واضح کر چکی ہے۔ امید ہے یہ بحران بھی ختم ہو جائے گا۔ حکومت کو یقیناً یہ احساس ہوگا کہ وہ ایم کیو ایم سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کرے گی جو آپریشن کے ذریعے امن کے قیام کی کوشش کرنے والے اداروں کی ناراضی کا باعث بنے۔

کراچی آپریشن اسی رفتار اور توانائی کے ساتھ جاری رہے اور ایم کیو ایم بھی مان جائے۔ ہماری مضبوط جمہوریت کا ایک اور چھوٹا سا امتحان ہے۔ امید ہے کہ وہ اس امتحان مین بھی پاس ہو جائے گی۔ ناکامی کی گنجائش سرے سے نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اگست بڑا ستمگر ہوتا ہے' ہمارا!!!!!!!!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں