کسی شہر کوکس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے

ایک اور ’’پہل‘‘ یہ کی گئی کہ شہر کے ایک حصے میں کرپٹ ٹریفک افسروں کی جگہ مسخرے ٹائپ افراد کو تعینات کردیا گیا


Sajid Ali Sajid August 13, 2015
[email protected]

معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے ممتاز سماجی ماہرین پر مشتمل ایک اسٹڈی گروپ تشکیل دیا ہے جسے یہ ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ دنیا کے بڑے شہروں کو درپیش مسائل کا جائزہ لے اور یہ پتہ چلائے کہ وہاں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا طریقے اختیار کیے گئے اور کس طرح ان سنگین مسائل کو حل کیا گیا۔ یہ جائزہ لینے کے بعد مذکورہ اسٹڈی گروپ ایسے اقدامات تجویز کرے گا جن کے ذریعے کراچی اور لاہور سمیت پاکستان کے بعض بڑے شہروں کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

یہاں ہم اس اسٹڈی گروپ کے استفادے کے لیے بوگوٹا کولمبیا کے سابق میئر مسٹر انیٹانازمکوس کے تحریر کردہ مضمون کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ مسٹر انیٹا ناز نیشنل یونیورسٹی آف کولمبیا کے سابق صدر اور اس وقت سماجی جدت کو فروغ دینے والی تنظیم کورپوویژنریوز (Corpovisionarios) کے صدر ہیں۔

کسی شہر کو تبدیل کرنے کا آرٹ

بوگوٹا، کولمبیا: یہ 1995 اور 2003 کے درمیان کی بات ہے میں نے دو میعادوں کے لیے بوگوٹا کے میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، دنیا کے بیشتر شہروں کی طرح کولمبیا کا یہ دارالحکومت بھی بہت سارے بڑے چھوٹے گوناگوں مسائل سے دوچار تھا، جن کی ''فکسنگ'' کی ضرورت تھی مگر بہت کم لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مسائل ''فکس'' یعنی حل کیے جاسکتے ہیں۔ ایک ''پروفیسر آف فلاسفی'' کی حیثیت سے مجھے اس سلسلے میں روایتی عقل و دانش پر بہت کم بھروسہ تھا۔ جب کولمبیا کے سیکڑوں میئرز کی طرح مجھے بھی فارک نامی بائیں بازو کے گوریلا گروپ کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں ۔میں نے ایک بلٹ پروف Vest پہننے کا فیصلہ کیا مگر میں نے اپنی واسکٹ پر دل کی شکل کا سوراخ کروایا اور اسے اپنے اعتماد یا خلاف ورزی Defiance کی علامت کے طور پر نو ماہ تک ساتھ لیے گھومتا رہا۔

جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا بوگوٹا کا ٹریفک انتہائی بے ہنگم اور خطرناک تھا ہم نے طے کیا کہ شہر کو ٹریفک سیفٹی میں ایک نئی انقلابی اپروچ کی ضرورت ہے، ہم نے اس مقصد سے جو مختلف حکمت عملیاں اپنائیں ان میں سے ایک کے تحت ہم نے لاکھوں سٹیزن کارڈز پرنٹ کروا کر تقسیم کیے۔ان سٹیزن کارڈوں کے ایک طرف اوپر کی طرف رخ کیا ہوا انگوٹھا چھاپا گیا جس کو دکھا کر احتیاط سے ڈرائیو کرنے والے مہربان اور بااخلاق ڈرائیوروں کو شاباش دی جاتی تھی جب کہ دوسری طرف نیچے جھانکنے والے انگوٹھے (تھمبس ڈاؤن)کا نشان تھا جس کے ذریعے ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا تھا ایک دہائی کے اندر ٹریفک حادثوں میں ہلاکتوں کی شرح آدھی سے بھی کم رہ گئی۔

ایک اور ''پہل'' یہ کی گئی کہ شہر کے ایک حصے میں کرپٹ ٹریفک افسروں کی جگہ مسخرے ٹائپ افراد کو تعینات کردیا گیا تاکہ بجائے اس کے کہ پولیس والے ٹریفک ٹکٹ دینے اور اس طرح حاصل ہونے والی رقم اپنی جیبوں میں رکھ لیں یہ ''پرفارمرز'' ڈرائیوروں کے رویوں پر چیک رکھنے کے لیے اپنے مسخرے پن اور سوانگ کے ذریعے کمیونکیٹ کریں مثلاً جب کوئی گاڑی کسی کراس واک پر پیدل چلنے والے کو سڑک پار کرنے کے حق رائٹ آف وے کو نظرانداز کرے تو یہ لوگ ناراض اور غصہ ہونے کی اداکاری کریں کیا برسر عام تعریف اور منظوری یا تنقید اور نامنظوری ظاہر کرنے کا یہ نظام کارگر رہا؟

ہمارا مذاق اڑانے والے بہت سے تھے ایک نیوزکانفرنس میں ایک صحافی نے پوچھا کیا مسخرے اور سوانگ بھرنے والے ٹریفک کے جرمانے عائد کرسکتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں وہ قانونی طور پر اس کے مجاز نہیں۔

پھر یہ سسٹم فیل ہوجائے گا۔ یہ اس صحافی کا اگلا جملہ تھا۔

مگر تبدیلی ممکن ہے لوگ ٹریفک سگنلز کا احترام کرنے لگے پہلی مرتبہ وہ کراس واک پر رکنے لگے چند مہینوں میں ہی میں پرانی 1800 افسران کی کرپٹ ٹرانزٹ پولیس سروس کو فارغ کرنے اور ان کی جگہ نیشنل پولیس سروس لگانے میں کامیاب ہوگیا۔

میئر کے طور پر میں نے یہ بات بھی سیکھی کہ ہمیشہ یہ بات قدر و قیمت رکھتی ہے کہ آپ اس طرح بولیں جیسے آپ اپنے بدترین دشمنوں سے مخاطب ہیں۔ پرانے الفاظ نئے انداز سے استعمال کیے جائیں تو وہ آپ کے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہوسکے تو تھوڑا سا کھیل بھی لیں۔ مثلاً نئے ٹیکسوں کا اعلان کریں خوشگوار انداز سے اور آرام سے مسکراتے ہوئے۔ میں دو مرتبہ منتخب ہوا درحقیقت ایک ایسے پلیٹ فارم پر جہاں مجھے ٹیکسوں میں اضافے کا اعلان کرنا تھا۔ میری دوسری میعاد کے دوران سٹی کونسل نے ٹیکسوں میں اضافے کی منظوری دینے سے انکار کردیا۔ جس پر میں نے شہریوں کو ''رضاکارانہ ٹیکس'' ادا کرنے کی دعوت دی ۔

حیرت انگیز طور پر 63 ہزار گھر والے میری باتوں میں آگئے اور انھوں نے زیادہ تر رئیل اسٹیٹ ٹیکس کی صورت میں خود پر لاگو ٹیکس سے دس فیصد زیادہ رقم ادا کردی۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ ہم ہر چیز میں کامیاب رہے مگر ہم بہت سی ایسی تبدیلیاں لے آئے جو بظاہر ناممکن نظر آتی تھیں ہمارے اقدامات کارگر رہے کیونکہ لوگوں نے تعاون کیا اور انھوں نے اس لیے کیا کہ انھیں خود اپنی طاقت پر حیرت ہو رہی تھی ان امیدوں کی کوکھ سے جن سے نتائج برآمد ہوئے مزید امیدیں پیدا ہوئیں آئیے ایک ایسا شہر میرے پاس لائیں جس میں ایک ہزار مسائل ہیں میں آپ کو ایسے دس ہزار لوگوں سے ملوا دوں گا جو یہ مسائل حل کرسکتے ہیں۔

جب شہر کو پانی کی قلت کا سنگین مسئلہ درپیش ہوا ، میں نے ایک پبلک کمٹمنٹ کیا۔ بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی روایتی راشننگ نہیں ہوگی اس کے برعکس ہم نے بارہ سے بیس فیصد رضاکارانہ پانی کی بچت کا نصب العین طے کیا اور ہم آٹھ سے 16 فیصد بچت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے لوگوں کو اس پالیسی سے آگاہ کرنے کے لیے ہم نے ٹیلی فون کے بزی ہونے کے سگنل کی جگہ یہ پیغام ریکارڈ کرکے چلادیا جو یا تو میری یا کولمبیا کی پوپ اسٹار شاکرہ کی آواز میں تھا۔ ''یعنی پانی بچانے پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔''

کچھ تو ہم نے پانی کی بچت کے طریقوں کی معلومات شایع کروائیں جب کہ بہت سے خاندانوں نے خود اپنے طریقے آپس میں صلاح مشورہ کرکے وضع کیے۔ اس کے باوجود کہ ہم شہر میں نکاسی آب کی سہولتوں میں اضافہ کر رہے تھے پانی کا استعمال کم ہوگیا اور آج بھی بحران سے پہلے کے مقابلے میں کم ہے۔

اس ساری مشق سے ہم نے ایک اور سبق سیکھا لوگوں کے لیے چھوٹے چھوٹے خوشگوار تجربات وضع کرنے سے مدد ملتی ہے کیونکہ اس سے دل خوش کن حیرت پر مبنی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ شہریوں کو ایک دوسرے کی تعریف کرنے کے لمحات میسر آتے ہیں اور وہ کوئی نئی چیز سمجھنے اور کر گزرنے کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔

سیاست کا فن ایک تجسس اور الجھن پر مبنی بزنس ہے تمام دوسرے پیشوں کے برعکس اس میں بہت ساری باتیں یکجا ہوتی ہیں مثلاً قائل معقول کرنے کا تہیہ کرلینا، مخلصانہ جذبات اور اسی سے ہم آہنگ باہر کی ''باڈی لینگویج'' جو کبھی کبھار بہت تکلیف دہ آہستہ آہستہ بڑھنے والی منصوبے اور حکمت عملی کے تحت کیے جانے والے انٹرایکشن کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ سارا معاملہ Lead کرنے کا ہے ڈائریکٹ کرنے کا نہیں۔ لوگ سب سے زیادہ کس چیز سے پیار کرتے ہیں وہ یہ کہ آپ بلیک بورڈ پر خطرے سے پر کسی جملے کا آدھا حصہ لکھیں اور پھر لوگوں کے اس حق اور آزادی کو تسلیم کرلیں کہ باقی آدھا جملہ انھوں نے لکھنا ہے۔

نظریاتی طور پر بھی اور عملی اعتبار سے بھی سب سے زیادہ فکر اس بات کی رہی کہ قانون کی حکمرانی حاصل کرنے کے لیے سماجی اور اخلاقی ریگولیشن کی طاقت کا استعمال کس طرح کیا جائے یہ بات انسانی زندگیوں کے بنیادی احترام کا تقاضا کرتی تھی جسے لفظوں کا یہ روپ دیا گیا کہ ''زندگی مقدس ہے'' میرا مقصد شہریت کا ایک کاسموپولیٹن کلچر تخلیق کرنا تھا جن میں ''انسانیت کے خلاف جرائم'' جیسی اصطلاحات کو ایک جچی تلی آپریشنل Meaning مل جائے گی۔

شاید اب وقت آگیا ہے کہ نئے سرے سے قانون اور اس کے بکھرے ہوئے تارپود کا جائزہ لیا جائے میرا تجربہ مجھے بتاتا ہے کہ انسانیت قانون کے رسمی لگے بندھے میدان اور کلچر کے غیر رسمی جنگل کے درمیان خلیج کو کم کرنے کے تین طریقے سیکھ رہی ہے۔ یعنی قانون کا Creative ایک زیادہ جدت پسند نفاذ بڑے محتاط انداز میں خود قانون کی اصلاح اور لوگوں کو آمادہ کرنے کی مختلف شکلوں کا نفاست پسندانہ کھوج اور تلاش جس کے ذریعے قومی سرحدوں کو پھلانگا جاسکے۔

کسی شہر کو تبدیل کرنا سب سے بڑا سیاسی چیلنج نہیں ہاں اسے برقرار رکھنا ضرور مشکل ہے ۔

جتنی جلدی کوئی شہر ترقی کرسکتا ہے اتنی ہی تیزی سے ناکام بھی ہوسکتا ہے مگر یہ بات کبھی فراموش نہ کریں کہ زبردست تبدیلیاں حیرت انگیز طور پر چھوٹے اقدامات سے لائی جاسکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |