پُر امن بلوچستان
انسانی سماج کی تاریخ سے لے کر اس کے ارتقا ، تشکیل ، ماضی و حال تک ہر دو مظاہر اس کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔
جنگ اور امن انسانی سماج کے دو لازم و ملزوم مظاہر ہیں۔ انسانی سماج کی تاریخ سے لے کر اس کے ارتقا ، تشکیل ، ماضی و حال تک ہر دو مظاہر اس کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ حرص، تعصب، حسد اور استحصال جنگ کا نقطہ آغاز ہیں اور یہ سب انسانی سماج سے متصادم جذبات ہیں، اس لیے ان سے پھوٹنے والی جنگ بھی غیر انسانی ہے۔ جنگ جارحانہ ہو کہ دفاعی بہرصورت قابلِ نفرین ہے۔ یہ زندگی کو بے معنی بنا دیتی ہے... اور جنگ کے ہاتھوں زندگی کی بے معنویت کی تصویر دیکھنی ہو تو 'اداس نسلیں' کا مذکورہ اقتباس دوبارہ پڑھیے، سہ بارہ پڑھیے؛ ذرا رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر...انسانی احساس کے ساتھ۔
امن' جنگ کا ، بد امنی کا الٹ، مگر انسانی سماج کا مترادف ہے۔اس لیے انسانی سماج کی بقا اور ارتقا کا خواہش مند ہر فرد اس کی تمنا کرتا ہے۔ لکھنے والے ذہن، سوچنے والے ذہن اس کے سب سے بڑے داعی ہوتے ہیں۔ جو لکھنے والا، سوچنے والا امن کا متمنی نہ ہو، اس کے انسانی وصف پہ شک کیا جانا چاہیے۔بلوچستان کے اہلِ قلم امن کے کیسے داعی ہیں، اس کا اظہار ہمارے عہد کے ایک جینئس ، شعریت سے بھرپور رواں نثر لکھنے والے وحید زہیر کے ہاں دیکھیے، وہ امن و بد امنی کا تقابل کن خوب صورت و آسان فہم تشبیہات کے ساتھ کرتے ہیں'' امن حافظہ بڑھاتا ہے، بدامنی حافظوں پر وارکرتی ہے۔ امن انصاف کی پیروی کرتا ہے، بدامنی ناانصافی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ امن کے منہ سے دودھ کی مہک آتی ہے، بدامنی کے منہ کو خون لگتا ہے۔ امن خوشبو ہے، بدامنی اسپتال کا مردہ خانہ ہے۔ امن فاختہ ہے، بدامنی گدھ ہے۔ امن بلبل کی آواز ہے، بدامنی ایمبولینسوں کا ہوٹر ہے۔ امن مسکراہٹ ہے، بدامنی جھنجلاہٹ ہے۔ امن ترقی ہے، بدامنی زوال ہے۔ ''...اور کمال ہے یہ اسلوب جو نہایت سادگی اور روانی سے امن سے ہماری محبت،دوستی اور بد امنی سے نفرت و دشمنی کو غیر محسوس طور پر بڑھاوا دیتا ہے۔
سو، انسانی سماج کا، نوعِ انسانی کا سب سے قیمتی ورثہ ہے امن۔ مگر اس سے بھی کہیں سے زیادہ قیمتی ہے؛ انسان۔ ہم امن انسانوں کے لیے چاہتے ہیں، انسانی سماج کے لیے چاہتے ہیں۔اگر یہ محض مخصوص انسانوں کے لیے، مخصوص انسانی گروہ کے لیے ہو، تو یہ جنگ کی دوسری شکل بن جاتا ہے اور امن کا جو پیڑ انسانی لہو کی سیرابی سے پھوٹے، اس کی چھاؤں بھی لہو آلود ہی رہے گی۔ اس لیے دنیا کے ہر خطے سمیت بلوچستان کو بھی پُر امن ضرور ہونا چاہیے مگر یہ بے گناہ انسانی جانوں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے...نیز امن کو ایک سماجی مظہر کے طور پر از خود سماج کا حصہ بننا چاہیے نہ کہ یہ طاقت کے بہ زور نافذ ہو یا کسی پیکیج کی صورت بہ طور خیرات عطیہ کیا جائے۔
بلوچستان کی بد امنی حکمرانوں کے دامن کا داغ بنی ہوئی ہے۔کوئی ایک راکٹ ان کے تمام تر دعوؤں کو ہوا میں اڑا لے جاتا ہے۔ وہ سب جو بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے داعی ہیں، ان کے دامن پہ بلوچستان کے پہاڑوں سے رِستے لہوکے چھینٹے ہیں۔ یہ سب اپنے ہی عوام کے خون سے رنگے ہاتھوں میں ملکی سلامتی کا پرچم تھامے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چند باغیوں کے خاتمے سے ساری 'بدامنی' قابو میں لائی جا سکتی ہے، اور یہ چند باغی ہیں کہ برسوں سے قابو میں ہی نہیں آتے۔ یہ نہیں جانتے کہ باغی کوئی فرد نہیں ہوتا، کوئی جسم نہیں ہوتا کہ جسے تشدد سے توڑا یا موت سے ختم کیا جا سکے۔
بغاوت ایک گھنے درخت کی طرح ہے، جس کی طویل اور مستحکم جڑیں ہوتی ہیں، جنھیں جوان خون مسلسل مضبوط بناتا رہتا ہے۔ سو'بغاوت کے اسباب کا خاتمہ کیے بغیر محض افراد کا خاتمہ ایسے ہے، جیسے اس پیڑکی جڑوں تک جائے بغیر محض اس کی شاخوں کو کترکر عارضی طور پراس کی چھاؤں کا خاتمہ کردیا جائے۔ پیڑ کی چھاؤں خواہ کتنی ہی عارضی کیوں نہ ہو، اس کی جڑیں مستقل ہوتی ہیں۔ انقلاب، بغاوت، آزادی، امن ... ان سب کی اپنی مخصوصیات حسیات و حرکیات ہوتی ہیں، جنھیں سمجھنے سے ہمارے حکمران اور ان کے بے شعور وباوردی مصاحب سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
نااہل بادشاہوں کی تقدیر میں انھیں ڈبونے والے مدبر مشیر ہی لکھے ہوتے ہیں، جن کی فکر ِ رسا کبھی بلوچستان میں حقو ق کے آغاز کا پیکیج بنواتی ہے، تو کبھی بلوچستان کو پُر امن بنانے کا۔ 'آغازِ حقوقِ بلوچستان' کی اصطلاح کا سادہ سا مفہوم یہی بنتا ہے کہ آپ ساٹھ سال بعد بلوچستان میں حقوق کی تفویض کا آغاز ابھی کرنے جا رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں اب تک آپ نے اس خطے کے انسانوں کو حقوق سے محروم رکھا۔ تو پھر ان محرومیوں کے ردِ عمل پہ فتویٰ بازی و آپریشن گردی کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ اور اب ایک دَہائی سے بھڑکی آگ کو ٹھنڈاکرنے کے لیے 'پُرامن بلوچستان پیکیج ' نامی فائر بریگیڈ کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس اصطلاح کو وضع کرتے ہوئے گویا آپ یہ تسلیم کررہے ہوتے ہیں کہ یہ پُرامن نہیں، اسے پُر امن بنانا ہے... تو پھربرسوں سے اہلِ جبہ و دستار کے قیامِ امن کے دعوے کس کھاتے میں رکھے جائیں؟ ... نیز پُرامن بنانے کی طرز ملاحظہ ہو؛ بد امنی سے تائب ہونے والوں کے لیے پانچ سے پندرہ لاکھ نقد کی پیش کش۔
کوئی عقل سے پیدل بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یوں نقد رقم کا مطلب کس کے بینک اکاؤنٹ میں اضافہ کرنا ہے۔دنیا کی کون سی ریاست 'بھٹکے ہوئے'شہریوں کو 'راہِ راست' پر لانے کے لیے پیسوں کی ترغیب دیتی ہے؟ اور جو محض پیسوں کے لیے آج امن کے دائرے میں آ رہا ہے، کیا پتہ انھی پیسوں کے لیے کل اس دائرے سے نکل بھی جائے!... ایک جانب امن کے لیے پیسوں کا پانی بہایا جا رہا ہے، دوسری جانب آپریشن کی آگ برس رہی ہے۔ مت بھولیے کہ لہو بہا کر امن کسی طور قائم نہیں کیا جا سکتا۔گولیوں سے محبت بوکر وطن کا چہرہ خوں سے دھو نے والوں کو رستہ کٹنے کا کیسا ہی گماں کیوں نہ ہو، ہمیں ان کے حتماً منزل کھونے کا یقیں ہے۔
سادہ سی بات ہے صاحب، ریاست کا احترام شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل اور عزتِ نفس کی بحالی سے منسلک ہے۔ اس اقدام کو ممکن بنائے بغیر نہ بلوچستان میں حقوق کا آغاز ہو سکتا ہے، نہ جنگ کی ہول ناکیوں سے نجات پاتے ہوئے یہ خطہ محبوبہ کی آغوش جیسا پُرامن ہو سکتا ہے۔
امن' جنگ کا ، بد امنی کا الٹ، مگر انسانی سماج کا مترادف ہے۔اس لیے انسانی سماج کی بقا اور ارتقا کا خواہش مند ہر فرد اس کی تمنا کرتا ہے۔ لکھنے والے ذہن، سوچنے والے ذہن اس کے سب سے بڑے داعی ہوتے ہیں۔ جو لکھنے والا، سوچنے والا امن کا متمنی نہ ہو، اس کے انسانی وصف پہ شک کیا جانا چاہیے۔بلوچستان کے اہلِ قلم امن کے کیسے داعی ہیں، اس کا اظہار ہمارے عہد کے ایک جینئس ، شعریت سے بھرپور رواں نثر لکھنے والے وحید زہیر کے ہاں دیکھیے، وہ امن و بد امنی کا تقابل کن خوب صورت و آسان فہم تشبیہات کے ساتھ کرتے ہیں'' امن حافظہ بڑھاتا ہے، بدامنی حافظوں پر وارکرتی ہے۔ امن انصاف کی پیروی کرتا ہے، بدامنی ناانصافی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ امن کے منہ سے دودھ کی مہک آتی ہے، بدامنی کے منہ کو خون لگتا ہے۔ امن خوشبو ہے، بدامنی اسپتال کا مردہ خانہ ہے۔ امن فاختہ ہے، بدامنی گدھ ہے۔ امن بلبل کی آواز ہے، بدامنی ایمبولینسوں کا ہوٹر ہے۔ امن مسکراہٹ ہے، بدامنی جھنجلاہٹ ہے۔ امن ترقی ہے، بدامنی زوال ہے۔ ''...اور کمال ہے یہ اسلوب جو نہایت سادگی اور روانی سے امن سے ہماری محبت،دوستی اور بد امنی سے نفرت و دشمنی کو غیر محسوس طور پر بڑھاوا دیتا ہے۔
سو، انسانی سماج کا، نوعِ انسانی کا سب سے قیمتی ورثہ ہے امن۔ مگر اس سے بھی کہیں سے زیادہ قیمتی ہے؛ انسان۔ ہم امن انسانوں کے لیے چاہتے ہیں، انسانی سماج کے لیے چاہتے ہیں۔اگر یہ محض مخصوص انسانوں کے لیے، مخصوص انسانی گروہ کے لیے ہو، تو یہ جنگ کی دوسری شکل بن جاتا ہے اور امن کا جو پیڑ انسانی لہو کی سیرابی سے پھوٹے، اس کی چھاؤں بھی لہو آلود ہی رہے گی۔ اس لیے دنیا کے ہر خطے سمیت بلوچستان کو بھی پُر امن ضرور ہونا چاہیے مگر یہ بے گناہ انسانی جانوں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے...نیز امن کو ایک سماجی مظہر کے طور پر از خود سماج کا حصہ بننا چاہیے نہ کہ یہ طاقت کے بہ زور نافذ ہو یا کسی پیکیج کی صورت بہ طور خیرات عطیہ کیا جائے۔
بلوچستان کی بد امنی حکمرانوں کے دامن کا داغ بنی ہوئی ہے۔کوئی ایک راکٹ ان کے تمام تر دعوؤں کو ہوا میں اڑا لے جاتا ہے۔ وہ سب جو بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے داعی ہیں، ان کے دامن پہ بلوچستان کے پہاڑوں سے رِستے لہوکے چھینٹے ہیں۔ یہ سب اپنے ہی عوام کے خون سے رنگے ہاتھوں میں ملکی سلامتی کا پرچم تھامے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چند باغیوں کے خاتمے سے ساری 'بدامنی' قابو میں لائی جا سکتی ہے، اور یہ چند باغی ہیں کہ برسوں سے قابو میں ہی نہیں آتے۔ یہ نہیں جانتے کہ باغی کوئی فرد نہیں ہوتا، کوئی جسم نہیں ہوتا کہ جسے تشدد سے توڑا یا موت سے ختم کیا جا سکے۔
بغاوت ایک گھنے درخت کی طرح ہے، جس کی طویل اور مستحکم جڑیں ہوتی ہیں، جنھیں جوان خون مسلسل مضبوط بناتا رہتا ہے۔ سو'بغاوت کے اسباب کا خاتمہ کیے بغیر محض افراد کا خاتمہ ایسے ہے، جیسے اس پیڑکی جڑوں تک جائے بغیر محض اس کی شاخوں کو کترکر عارضی طور پراس کی چھاؤں کا خاتمہ کردیا جائے۔ پیڑ کی چھاؤں خواہ کتنی ہی عارضی کیوں نہ ہو، اس کی جڑیں مستقل ہوتی ہیں۔ انقلاب، بغاوت، آزادی، امن ... ان سب کی اپنی مخصوصیات حسیات و حرکیات ہوتی ہیں، جنھیں سمجھنے سے ہمارے حکمران اور ان کے بے شعور وباوردی مصاحب سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
نااہل بادشاہوں کی تقدیر میں انھیں ڈبونے والے مدبر مشیر ہی لکھے ہوتے ہیں، جن کی فکر ِ رسا کبھی بلوچستان میں حقو ق کے آغاز کا پیکیج بنواتی ہے، تو کبھی بلوچستان کو پُر امن بنانے کا۔ 'آغازِ حقوقِ بلوچستان' کی اصطلاح کا سادہ سا مفہوم یہی بنتا ہے کہ آپ ساٹھ سال بعد بلوچستان میں حقوق کی تفویض کا آغاز ابھی کرنے جا رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں اب تک آپ نے اس خطے کے انسانوں کو حقوق سے محروم رکھا۔ تو پھر ان محرومیوں کے ردِ عمل پہ فتویٰ بازی و آپریشن گردی کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ اور اب ایک دَہائی سے بھڑکی آگ کو ٹھنڈاکرنے کے لیے 'پُرامن بلوچستان پیکیج ' نامی فائر بریگیڈ کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس اصطلاح کو وضع کرتے ہوئے گویا آپ یہ تسلیم کررہے ہوتے ہیں کہ یہ پُرامن نہیں، اسے پُر امن بنانا ہے... تو پھربرسوں سے اہلِ جبہ و دستار کے قیامِ امن کے دعوے کس کھاتے میں رکھے جائیں؟ ... نیز پُرامن بنانے کی طرز ملاحظہ ہو؛ بد امنی سے تائب ہونے والوں کے لیے پانچ سے پندرہ لاکھ نقد کی پیش کش۔
کوئی عقل سے پیدل بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یوں نقد رقم کا مطلب کس کے بینک اکاؤنٹ میں اضافہ کرنا ہے۔دنیا کی کون سی ریاست 'بھٹکے ہوئے'شہریوں کو 'راہِ راست' پر لانے کے لیے پیسوں کی ترغیب دیتی ہے؟ اور جو محض پیسوں کے لیے آج امن کے دائرے میں آ رہا ہے، کیا پتہ انھی پیسوں کے لیے کل اس دائرے سے نکل بھی جائے!... ایک جانب امن کے لیے پیسوں کا پانی بہایا جا رہا ہے، دوسری جانب آپریشن کی آگ برس رہی ہے۔ مت بھولیے کہ لہو بہا کر امن کسی طور قائم نہیں کیا جا سکتا۔گولیوں سے محبت بوکر وطن کا چہرہ خوں سے دھو نے والوں کو رستہ کٹنے کا کیسا ہی گماں کیوں نہ ہو، ہمیں ان کے حتماً منزل کھونے کا یقیں ہے۔
سادہ سی بات ہے صاحب، ریاست کا احترام شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل اور عزتِ نفس کی بحالی سے منسلک ہے۔ اس اقدام کو ممکن بنائے بغیر نہ بلوچستان میں حقوق کا آغاز ہو سکتا ہے، نہ جنگ کی ہول ناکیوں سے نجات پاتے ہوئے یہ خطہ محبوبہ کی آغوش جیسا پُرامن ہو سکتا ہے۔