نظریہ ضرورت

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ فوجی عدالتیں صاف شفاف اور منصفانہ مقدمے کی کارروائی کے بنیادی اصول کو مقدم رکھیں

سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلہ کو، جس کے تحت اس نے پارلیمنٹ کے اس قانون کی توثیق کر دی ہے کہ دہشت گردوں پر مقدمہ چلانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں، ملک بھر میں وسیع طور پر سراہا گیا۔ عوام کو گویا سُکھ کا سانس آ گیا۔ رائے عامہ نے بھرپور امیدوں اور تمناؤں کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ فوجی عدالتیں صاف شفاف اور منصفانہ مقدمے کی کارروائی کے بنیادی اصول کو مقدم رکھیں اور اپنے فیصلوں اور سزاؤں میں بھی انصاف کو مقدم رکھا جائے۔ ان کے فیصلوں پر اعلیٰ عدالتوں کو نظرثانی کا حق حاصل ہو گا لہذا قانونی معاملات اور اپنے فیصلوں میں ان کو کسٹم یا ٹیکس کی عدالتوں کے فیصلوں سے چنداں مختلف نہیں ہونا چاہیے۔

رائے عامہ کو مدنظر رکھا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے فوج اور حکومت کے مابین کسی غلط فہمی کے امکان کو ختم کر دیا ہے اور پارلیمنٹ میں جس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ فوجی عدالتیں سول مقدمات پر فوقیت نہ حاصل کر لیں نیز یہ کہ کورٹ مارشل کی سزا استثنائی ہونی چاہیے نہ کہ اس کو معمول کا حصہ بنا لیا جائے۔ اس حوالے سے جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کا فیصلہ ''مار بری بمقابل میڈیسن '' کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ایک اعلیٰ جوڈیشل اسٹیٹس مین شپ کا نمونہ قرار دیا ہے۔

میاں نواز شریف کی حکومت کو اس کا دہرا سہرا بندھتا ہے۔ قانون کے نفاذ میں اپنی خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک محدود وقت تک کے لیے فوجی عدالتوں کی اجازت دے دینا جس میں آئینی حدود کی وضاحت کی گئی ہے تا کہ قانون کی حکمرانی اپنے منطقی نتیجے پر پہنچ سکے۔ مزید برآں کاغذی عقابوں کو بھی احساس ہو جائے بلکہ یہ تسلی ہو جائے اور وہ خدا کا شکر ادا کریں کہ اس کا ردعمل اکتوبر 1999ء جیسے پاگل پن کی صورت میں کم از کم اب تک تو ظاہر نہیں ہوا۔ ہمارے عدالتی نظام پر جو ایک بہت تلخ طنز کی جاتی ہے وہ یہ کہ کسی قابل وکیل کو بھاری فیس دے کر مقدمہ لڑانے کے بجائے کیوں نہ جج کو ہی بھاری فیس دیدی جائے۔ اور اگر سیاست میں مجرم بھی شامل ہو جائیں جن کے اختیار میں گورننس بھی دیدی جائے تو آپ کو کیا ملے گا؟

وہ نہ صرف آزاد ہو جائیں گے بلکہ ان میں سے چند ایک قوم پر حکومت بھی کرنے لگیں گے جیسا کہ وہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سامنے کی مثال ہے کہ لاکھوں ڈالر اسمگل کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والی فیشن ماڈل ایان علی چار ماہ کی حراست اور میڈیا کے ڈرامے کے بعد اب اسے الٹا مظلوم قرار دیا جانے لگا ہے اور یہ بھی ہمارے میڈیا کا کمال ہے کہ اسے مجرم نہیں گردانا جا رہا۔ وہ تو قتل کر کے بھی بچ سکتی ہے جیسے بے شمار دوسرے بچ گئے کیونکہ انھیں سیاسی اثر و رسوخ حاصل تھا یا انھوں نے بھاری رشوت دی۔ ایان خاطر جمع رکھے اگر یہ ثابت ہو گیا کہ جو رقم وہ لے جا رہی تھی اس کا دہشت گردوں کی فنڈنگ سے کوئی تعلق واسطہ ہے تو نہ صرف وہ خود بلکہ اس کے سرپرست بھی فوجی عدالت میں طلب کر لیے جائیں گے جہاں انھیں استغاثہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔دہشت گردی کسی بھی نوعیت کی ہو اس کے لیے روپے پیسے کے وسائل لازم ہیں۔


دہشت گردی کے انسداد کی خاطر ان ذرایع کا قلع قمع کرنا ناگزیر ہے۔ منظم جرائم کرنے کرانے والوں کے بھاری بینک اکاؤنٹ بھی ہوتے ہیں اور وہ ''منی لانڈرنگ'' بھی کرتے ہیں۔ (یعنی کالے دھن کو سفید کرتے ہیں۔) اس ضمن میں نیویارک کے علاقے مین ہٹن کے کسی بینک میں آپ کا اکاؤنٹ ہو جس کے بعد بینک حکام کی معاونت کے ساتھ منی لانڈرنگ کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم پھر ہتھیار خریدنے میں بھی استعمال ہو سکتی ہے دھماکا خیز مواد بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، نئی شناختی دستاویزات بھی بن جاتی ہیں۔ سفر اور نقل و حمل کے اخراجات بھی جن میں مطلوبہ ہدف تک رسائی کی معلومات بھی شامل ہیں اور کارروائی سے قبل مقامی پولیس حکام کو نواز دیا جاتا ہے۔فوجی عدالتوں کے ذریعے ہونے والے فیصلوں کا ایک وزن ہونا چاہیے اور فوج کو خود بھی اپنے احتساب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایک میجر جنرل کی برطرفی اور ایک لیفٹیننٹ جنرل کے بارے میں سخت ناپسندیدگی کا اظہار جنرل راحیل شریف کا این ایل سی اسکینڈل کے بارے میں فیصلہ پورے ملک میں بے حد پسند کیا گیا اور فوج میں بھی اسے سراہا گیا ہے۔

آخر جنرل کیانی اس معاملے کی انکوائری پر 3 سال سے زیادہ عرصہ تک خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ اب اس اسکینڈل کے پیچھے جو حقائق تھے اور جو مجرم تھے وہ کوئی راز نہیں۔ کیا انھوں نے اپنا پر تعیش معیار زندگی اپنی پنشن سے حاصل کیا یا ان کی بیویوں نے کچن کے اخراجات سے پیسے بچائے؟ جنرل مشرف کے بعض جرنیلوں کی کرپشن نے یونیفارم کو داغدار کر دیا ہے۔ ایک ''دھوکے باز'' دھوکے باز ہی ہے خواہ اس کا منصب کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو۔ جنرل راحیل شریف نے این ایل سی اسکینڈل کے حوالے سے نہایت جرات مندانہ اقدام کیا کہ تعلق واسطے والوں کو بھی پکڑ لیا گیا لیکن بعض لوگوں کا احتساب ضرور کیا جانا چاہیے۔

نکتے کی بات یہ ہے کہ جنرل کیانی کے دور پر بھی نظر ڈالنی چاہیے' لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوج ایسا کرے گی؟ امید رکھنی چاہیے کہ آرمی چیف جنرل مشرف کو سیاسی میدان میں اتارنا چاہتی ہے۔ اس طرح تو ایک نیا بحران اٹھ کھڑا ہو گا جو فوج کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔ تو کیا ہم پھر مشرف دور والے دلدل میں گرنا چاہتے ہیں۔ ملک کی تباہ کن حالت کی ذمے داری ''این آر او'' کی وجہ سے ہے۔ ہمیں وردی پر لگا داغ دھو ڈالنا چاہیے۔ اقربا پروری اور کرپشن کے خلاف کارروائی کو ایک مثال بنا دیا جانا چاہیے۔ راحیل شریف اپنے ''شہدا'' کی کسی حالت میں بھی سبکی نہیں چاہیں گے کہ بدعنوان افراد کو ٹیکس فری زندگی کی آسائش بدستور حاصل رہیں۔ یہ ہماری آیندہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ میں خود احتسابی کی کمی کی بات کی ہے۔ ججوں کا تقرر بھی اعلیٰ عدلیہ کرتی ہے اور وہ عدلیہ کو ہی جوابدہ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں اس کا کوئی ہمسر نہیں۔اس حوالے سے اس دلیل کی پیروی کی جاتی ہے کہ عدلیہ عوام کو جوابدہ ہے۔ عدلیہ کو پاکستان میں آئینی طور پر بہت اونچا مقام حاصل ہے جو آئین کے ذریعے تشکیل کی گئی ہے لیکن وہ آئین سے بالاتر نہیں لہذا ان کا کردار بھی اس عظیم منصب کی نمایندگی کرتا محسوس ہونا چاہیے۔ انھیں بہت زیادہ تدبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ''لارڈ شپ'' ممکن ہے کہ اپنا فیصلہ قانونی زبان کی آڑ میں چھپا لیں اور اگر حالات ایسی نہج پر پہنچ جائیں تو پھر عدلیہ کو نظریہ ضرورت ایجاد کرنا پڑ جاتا ہے۔
Load Next Story