رشکِ گل وگلزار مہکتا یہ پریوار آخری حصہ

صفیہ اختر تو خود ایک علیحدہ مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔ اتنی ٹوٹ کر محبت کرنے والی عورت

tishna.brelvi@yahoo.com

اب یہاں جاوید اختر کے والدین کا بھی ذکر ہو جائے۔ جاں نثار اختر ایک مشہور استادِ سخن مضطر خیرآبادی کے فرزند 1914ء میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا شوق تو بچپن ہی سے تھا ۔ اردو اور فارسی کے پروفیسرکی حیثیت سے آپ نے گوالیار اور حمیدیہ کالج بھوپال میں پروفیسر کی لیکن مزاج میں بے چینی بہت تھی ۔ سگریٹ اور شراب کے دھتّی۔ ان کی پہلی بیوی صفیہ سراج الحق تدریس سے تعلق رکھتی تھیں وہ مشہور شاعر اسرار الحق مجاز کی چھوٹی بہن تھیں۔

صفیہ اختر تو خود ایک علیحدہ مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔ اتنی ٹوٹ کر محبت کرنے والی عورت ۔ شوہرکے ایسے ناز اٹھائے کہ یقین نہ آئے ۔ دس سال کی ازدواجی زندگی میں اس نے سیکڑوں خط جاں نثار اختر کو لکھے ۔ ہندی کویتا کی ناری کی طرح جو پریتم پر جاں نثارکرتی ہے اور بدلے میں کچھ طلب نہیں کرتی۔ یہ محبت نامے ''حرف آشنا '' اور '' زیر لب '' کے عنوان سے دوجلدوں میں چھپ چکے ہیں انھیں جتنی بار پڑھو کم ہے ، اس میں علی گڑھ ، بھوپال ، اورگوالیار کا خاص طور سے ذکر ہے اور ترقی پسند تحریک کا بھی ۔ صفیہ تو محبت کا فوارہ تھی ہر ایک کے لیے ۔ عصمت ، رضیہ سجاد ظہیر اور سلمی شان الحق سے خصوصی دوستی تھی ۔ جادو (جاوید اختر ) کی شرارتوں کو بھی خوب بیان کیا ہے ۔ فراق گورکھپوری ان خطوں سے بیحد متاثر ہوئے اور کرشن چندر نے صفیہ کو بہن بنالیا ۔

صفیہ کے بعد جاں نثار اختر نے دوسری شادی ایک خوبصورت عورت سے کی اور بمبئی میں قسمت آزمانے پہنچ گئے لیکن قسمت کی دیوی ان کے بجائے ان کے سر کش بیٹے جاوید اختر پر مہربان ہوئی۔اب صفیہ اختر کے بھائی مجاز کا ذکر ضروری ہے ۔ اسرار الحق مجاز ( یا مجاز ردولوی) مجاز لکھنوی کے طور پر مشہور ہوئے ۔ صفیہ کی طرح ان کی تعلیم بھی علی گڑھ میں ہوئی اور یہیں ان کی شاعری کا قمقمہ روشن ہوا ۔ وہ ویمنز کالج کی لڑکیوں میں بہت مقبول تھے ۔ کئی ایک عشق بھی کیے ۔ انھوں نے گوئٹے کے ہیرو ورتھر کی طرح ایک شادی شدہ عورت سے بھی محبت کی جس میں وہ ناکام رہے لیکن مجاز نے ورتھر کی طرح خود کشی نہیں کی۔ بلکہ مے نوشی کی ( جو خود کشی کی دوسری شکل ہے) آپ ترقی پسند بھی تھے اور رومان پرست بھی ۔فیض احمد فیض کی طرح۔ جوش بھی ان کو ہر جگہ لیے لیے پھرتے اور خوب شراب پلاتے ۔ مشاعروں میں وہ دھیمے انداز میں ترنم سے اشعار سناتے اور پسند کیے جاتے ۔ انھوں نے نذر علی گڑھ کے عنوان سے ایک شاندار نظم لکھی جو ترانہ بن گئی۔

مجاز نے دہلی میں بھی نوکری کی ۔ ایک دن چاندنی چوک میں ان کی مدیرِ ''ساقی'' شاہد احمد دہلوی سے مڈھ بھیڑ ہوئی ۔ شاہد نے پوچھا ''مجاز تم کیا کررہے ہو ؟'' مجاز نے کہا ''عیش کررہا ہوں۔'' شاہد احمد دہلوی فوراً بولے ''عیش کے لیے تو کیش کی ضرورت ہوتی ہے جو تمہارے پاس نہیں ۔ایک اور چیز بھی لازمی ہے '' ۔ ''وہ کیا چیز ؟'' مجاز نے پوچھا ۔ شاہد احمد دہلوی نے مجاز کو سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا اورکہا ''فلیش' 'وہ بھی تمہارے پاس نہیں۔''ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی کے لفظFleshمیں سب کچھ تھا جو دبلے پتلے بیمار شاعر کے پاس نہیں تھا ۔ مجاز رانچی کے مینٹل ہاسپٹل میں بھی رہے۔

جب مے نوشی سے مجازکی صحت بہت خراب ہونے لگی تو ایک دن راجہ صاحب محمود آباد نے اس کو مشورہ دیا کہ ''دیکھو مجاز تم بہت زیادہ پینے لگے ہو ۔ احتیاط کرو اور جوش کی طرح گھڑی سامنے رکھ کر پیا کرو ۔'' مجاز بھی حاضر جواب تھا ۔ فوراً بولا '' راجہ صاحب میں تو گھڑا سامنے رکھ کر پینا چاہتا ہوں۔'' لیکن مے کشی تو امتحان لیتی ہے جس میں مجاز فیل ہوگیا ۔ اختر شیرانی اور منٹو کی طرح۔ دسمبر 1955 کی ایک سرد رات ایک شراب خانے میں بہت کسمپرسی کی حالت میں یہ شاعر خوش نواجاں سے گزرگیا ۔


انجمن ترقی پسند مصنفین کے مہکتے ہوئے پریوارکی بنیاد 1936 میں لکھنؤ میں رکھی گئی ۔ سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے ہاتھوں۔ مولانا حسرت موہانی اور منشی پریم چند بھی اس سے وابستہ تھے ۔ انقلاب اور انسان دوستی اس انجمن کا نعرہ تھا ۔سارے ہندوستان میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں ۔ علی گڑھ ، لکھنؤ ، دہلی اور بمبئی اس کے سب سے بڑے گڑھ تھے ۔لاہور بھی اسی پریوار کا ایک بہت اہم حصّہ تھا ۔ یہاں فیض احمد فیض،احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری، ہاجرہ مسرورجیسے شاعر و ادیب موجود تھے اور خود سجاد ظہیر بھی جو ماسکو کی طرف سے یہاں بھیجے گئے تھے تاکہ وہ نئے ملک میں کمیونزم کو مضبوط بنائیں مگر یہ خواب حقیقت نہ بن سکا اور پاکستان میں شدت پسندی اور مذہبی جنون بڑھتا ہی گیا۔

بہرحال یہ پریوار ابھی سلامت ہے ۔ اس کی جھلکیاں نظر آتی رہتی ہیں مثلاً کراچی میں نور محمد شیخ کی عوامی ادبی انجمن جو شاید اس شہر کی سب سے شاندار تنقیدی محفل ہے ۔

ترقی پسند تحریک کا فلمی دنیا سے بھی گہرا لگاؤ تھا ۔ بالی وڈ بھی ایک پریوار لالی وڈ بھی ۔ کھانے ، لباس اور فیشن بھی۔مشاعروں کی دنیا بھی اسی مہان پریوارکا حصہ ہے اور موسیقی بھی پھر ہم کریکٹ کو کیوں نہ شامل کریں یہ بھی ایک مشترکہ خاندان ہے۔

کاش تعلیمی و ادبی تعاون کی اہمیت کو بھی محسوس کیا جائے کہ یہ روشن خیالی کا بنیادی حصہ ہے ۔ ایک زبردست زرعی اور صنعتی پریوار بھی بنایا جائے جو مل کر ڈیم و غیرہ بناکر عوام کو خوشحال بنائے۔

رشکِ گل و گلزار مہکتا یہ پریوار
نفرت کی تعصّب کی گرے آہنی دیوار
(تشنہؔ)
Load Next Story