جیسے لوگ ویسے حکمران
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسانی معاشرے سے متعلق تمام خرابیاں ہماری رگ رگ میں سرائیت کرچکی ہیں
لاہور:
اپنے حکمرانوں کے کرتوتوں کے جواب میں ہمیں اکثر یہ طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمراں مسلط کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو دھوکہ، فراڈ، ملاوٹ، کم ناپ تول، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، رشوت، بدعنوانی قریبا ہر شعبہ زندگی میں دکھائی دے گی۔ نجی شعبہ ہو یا سرکاری کوئی کسی سے کم نہیں، ہر کوئی بے ایمانی اور بددیانتی میں دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسانی معاشرے سے متعلق تمام خرابیاں ہماری رگ رگ میں سرائیت کرچکی ہیں۔معاشرے میں ایمانداری اور دیانت داری کا لفظ اپنی وقعت کھوچکا ہے۔ حرام کو حلال، غیر قانونی کو قانونی شکل دے کر مال بٹورنے کی جو ریت نکل چلی ہے وہ آگے ہی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ مفاد پرست ٹولے انسانی لاشوں پر چل کر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مصروف عمل ہیں اور عوام چمک کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہے رہیں،دولت کا حصول ایک جنون کی حیثیت اختیار کرچکاہے۔ اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک سب کا ایک ہی حال ہے۔
سیاستدان، بیوروکریٹس ہوں یا بزنس مین سبھی ایک ڈگر پر چل رہے ہیں، اور اگر کوئی اس قافلے میں شامل نہیں ہے، تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی شامل ہوتا جارہا ہے۔ رہے عوام تو ان کی حالت تو ویسے ہی جنونیوں کی سی بنائی جاچکی ہے، کہ شعور رکھنے کے باوجود، سب کچھ سمجھتے بوجھتے دیوانہ وار بھاگے چلے جارہے ہیں۔
سیاست کا شعبہ ہو یا کھیل کا میدان، آپ دیکھ لیجیے، ہم جانتے بوجھتے اس شخص کے نعرے لگاتے ہیں جس کا نام ملک کے کرپٹ ترین لوگوں میں سرفہرست ہو۔ ہمارے قومی کھلاڑی چند ٹکوں کے عوض سرعام بکتے ہیں، وہ عالمی سطح پر پاکستانی قوم کی بے توقیری بڑھانے کے لیے سیاستدانوں کے کرتوتوں پر سہاگے کا کام کرتے ہیں، مگر ہم پھر انھی لوگوں کے لیے پلکیں بچھائے رکھتے ہیں۔ اداکاربھی دینی اسکالرزکا روپ دھار کر ہمارے مذہب کے ساتھ مذاق کرتے ہیں مگر ہم ہیں کہ ماتھے پر بل تک نہیں لاتے۔ ہم نے اپنے وطن کا نقشہ بدلنے والوں اور ان کوششوں میں مزید آگے جانے والوں کو مقدس گائے کا درجہ دے رکھا ہے۔ بزنس مین محلات اور اونچے پلازے بنانے کے لیے چھونپڑیوں کو آگ لگوا دیتے ہیں، وہ زمینیں ہتھیانے کے لیے خود غریب لوگوں کو جھگیاں بنوا کردیتے ہیں، اور کچھ عرصے بعد انھی کو زندہ جلوا دیتے ہیں، مگر ہم ہیں کہ ان کی ہر نئی مہم پر ذبح ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں شعبدہ بازی میں مگن ہیں، ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزام لگانے والے کرسی کے لیے بھائی بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کو غدار کہنے والے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک اور بغل گیر نظر آتے ہیں۔ لسانیت اور فرقہ پرستی کے نام پر ایک دوسرے کے ہزاروں لوگوں کو قتل کرانے والے ایک دوسرے کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں تو ہم بخوبی جانتے ہیں، یہی باتیں ہم ہر روز سنتے اور پڑھتے ہیں، مگر اس کے باوجود ہماری سوچ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ کیوں؟، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟، کیا ہمارے اندر تبدیلی کی کوئی جستجو ہی موجود نہیں ہے؟۔ جی نہیں، ایسا نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، ہمارے اندر تبدیلی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، ہم تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، ہم تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ہم خود کو بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں، مگر کیا؟ کہ یہ ہماری بدنصیبی یا ہماری نیتوں کی پختگی میں کہیں کوئی کمی ہے کہ ہمارا دشمن ہمارے ارادوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ وہ ہرروز نت نئی چالیں ہم پر مسلط کرتا ہے، وہ ہمارے جذباتی پن کا فائدہ اٹھاتا ہے، وہ مختلف محاذوں پر ہماری نفسیات سے کھیلتا ہے، وہ ہم سے ہمدردی بھی جتاتا ہے اور ہمیں پیٹتا بھی ہے۔
آپ دیکھ لیجیے، جب ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا تو کتنے لوگوں نے ساتھ دیا تھا؟، یہ کتنے مہینوں تک کھلے آسمان تلے، دھوپ میں، بارش میں، گرمی میں، سردی میں سخت تکلیفیں سہ کر ایک سچی آرزو کے ساتھ انقلاب کا انتظار کرتے رہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تھے جنہوں نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا، نیا پاکستان دینے کا وعدہ کیا تو کتنے افراد اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور اسلام آباد کی سڑکوں پر جا بیٹھے۔ جو وہاں تک نہیں آسکے، ان کے دل عمران خان اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ دھڑکتے رہے، لوگ ان کی کامیابی کے لیے دن رات دعائیں کررہے تھے، ہر کوئی تبدیلی کا بے تابی سے منتظر تھا۔
مگر کیا ملا؟، کیا نتیجہ نکلا؟، عوام کے جذبے دھرے رہ گئے، ساری قوم کے دل بے دردی کے ساتھ توڑ دیے گئے، اور سب سے بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ خوابوں کے ساتھ سب کے اعتماد بھی چکنا چور کردیے گئے۔ وہ جو انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے آگے موجود شخص کو جناح کا سپاہی سمجھنے لگے تھے، ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ایک ہی دورانیے میں دو رہنماؤں نے عوام کی امیدوں کو خاک میں ملادیا، ایک بہانہ کرکے کینیڈا بھاگ گیا، تو دوسرے نے ''ملک کے وسیع تر مفاد میں'' پویلین کا رخ کیا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا؟، ذرا یاد کیجیے! مسلم لیگ ن کے سابق دور میں عوام کو قرضوں کے مغربی جال سے نکالنے کے لیے 'قرض اتارو ملک سنوارو' کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا، لوگوں کے جذبات کیا تھے؟، کتنے ضعیفوں نے اپنی پینشن اس نعرے پر نچھاورکردیں؟، کتنی بیواؤں نے اپنے پلاٹ اس حکومت کی جھولی میں ڈال دیے؟، کتنی بیٹیوں کے جہیز اس کی نذر ہوئے؟،کتنی رقوم کتنی فراغدلی سے ہمارے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے حکومت کو دیں؟، کتنے لوگ ہوں گے اس ملک میں جنہوں نے اس انقلابی نعرے کا جواب اپنی حیثیت کے مطابق اثبات میں نہ دیا ہو؟، مگر عوام کو کیا ملا؟۔ ذرا فیصلہ کیجیے کہ کیا فرق تھا، 'قرض اتارو ملک سنوارو'، 'انقلاب' اور 'نیا پاکستان' کے نام سے چلنے والی تحریکوں میں؟
جی ہاں، یہ سب نعرے تھے، روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی طرح، صرف نعرے، یہ کوئی تبدیلی، کوئی انقلاب لانے کے لیے نہیں بلکہ یہ قوم کا اعتماد چکنا چور کرنے کے لگائے گئے تھے۔ غیبی طاقتیں، خفیہ ہاتھ، ہمارے دشمن خوب جانتے تھے کہ پاکستانی قوم میں اس وقت کون سے جذبات بھڑک رہے تھے، انھیں سارے طریقے آتے تھے، انھوں نے ان جذبات کو تادیرمنجمد کرنے کے لیے یہ تحریکیں چلوائیں، تاکہ اس قوم کا کوئی بھی رہنما خواہ وہ اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں، وہ تبدیلی کا کوئی بھی نعرہ لگائے، عوام شش و پنج میں مبتلا ہوجائیں کہ آیا ہمارے ساتھ پھر کوئی کھیل تو نہیں کھیلا جانے والا؟