سانحہ قصور اور ہماری بے حسی
آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے ساتھ جو اندوہناک واقعہ ہوا تھا آج تک ہم اس کا درد محسوس کرتے ہیں
NAIROBI:
آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے ساتھ جو اندوہناک واقعہ ہوا تھا آج تک ہم اس کا درد محسوس کرتے ہیں، اتنا دلخراش واقعہ تھا کہ سوچ کر آج بھی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور اب قصور کے واقعے کو دیکھیے کیا ظلم و ستم ہے یہ کہ معصوم بچوں کو جوکہ پاکستان کا مستقبل ہیں، اپنے والدین کے لیے ایک روشن امید ہے ان معصوم بچوں کے ساتھ ظلم و ستم کا تماشا لگایا جاتا ہے اور یہ کام کئی سالوں سے ہورہاتھا، کوئی ایک دن کا واقعہ نہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی وڈیوز بنانا، کیا ہوگیا ہے ہمارے لوگوں کو؟ کس طرح کے انسان ہے یہ، کہاں رہتے ہیں، کن لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق ہے، کون سے لوگ ہیں جو یہ بھیانک کردار تخلیق کررہے ہیں، کون سے لوگ ہیں جو اس طرح کی بھیانک سوچیں ان لوگوں کے دماغوں میں Fit کرتے ہیں اور پھر ان لوگوں سے ایسے ایسے کراہیت والے کام لیتے ہیں کہ انسانیت زمین کی گہرائیوں میں دفن ہوتی نظر آتی ہے اور ان تمام کاموں کے دوران ریاست کا کردار، ریاست کہیں نظر نہیں آتی۔
تمام لکھنے والے، سچائیاں لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں، گلے پھاڑ پھاڑکر، چیخ چیخ کر بھی سچائیاں بتائی جارہی ہیں مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اس سرے کو پکڑے تو دوسرا سرا غائب ۔ عام سے سادہ لوگوں کے ساتھ ان کی اولاد کے ساتھ ایک یا دو نہیں سیکڑوں بچوں کے ساتھ زیادتی و ظلم کیا جارہاہے اور اس طرح کے واقعات پورے پاکستان میں ہورہے ہیں، یہ کوئی سادہ جرم نہیں، یہ ظلم کی انتہا ہے یہ زندہ اولاد ہیں یہ اپنے والدین کا سہارا ہے یہ پاکستان کا مستقبل ہیں یہ ایسے ہی بچے ہیں جیسے کہ ہمارے اور آپ کے ہیں، خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے کیوں اﷲ کا خوف نہیں آتا ان لوگوں کے دلوں میں، یہ گھناؤنے کاروبار کرتے ہیں، کیا ہم جنگلی جانوروں کے ملک میں بستے ہیں جہاں درندے نما انسان ہی انسانوں کو کھانے کے لیے منڈلاتے پھرتے ہیں۔ 284 بچے، 284 زندگیاں، کیا یہ بچے نارمل بچوں کی طرح زندگی گزار سکیںگے؟ کیا یہ بچے کبھی خوش رہ سکیںگے؟
کہاں ہیں ہمارے حکمران اور تمام حکومتی ممبران، کیا یہ ظلم و ستم ایسا ہے کہ آپ اسے سنیں، ایک بیان دیں اور بس! مختلف ذرایع کہتے ہیں کہ کئی سالوں سے یہ جنسی کاروبار جاری ہے، قصور کے عوامی نمایندوں کو تو یقینا ان کو اس بارے میں علم ہوگا اور اگر وہ ان تمام باتوں سے لا علم تھے تو حیرت ہے، جو ارکان منتخب ہوکر آئیں اور حلف اٹھائیںگے وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہیںگے اگر وہی لاعلم ہونے کا دعویٰ کریں تو پریشانی کی بات ہے، فوری طور پر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو ایکشن لینا چاہیے نہ صرف ایکشن لیں بلکہ اس تمام کام میں تمام لوگوں کو باعث عبرت بھی بنا دیں تا کہ آیندہ کے لیے لوگ ان سے سبق حاصل کرسکیں۔
ڈر اور خوف کی وجہ سے لوگ اپنی زبانیں بند رکھیں اور جانوروں سے بد تر زندگی گزاریں کیا یہی ہمارا پاکستان ہے؟
مال و دولت کی ہوس نے انسانوں کے دل و دماغ کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے کہ رشتوں کا خالی پن، دھوکہ بازی، بے ایمانی، تمام انسانیت پر بدنما داغوں کی طرح ہیں، کس کس طریقے سے انسانوں کی شکلوں والے لوگ اس معاشرے کو اس ملک کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دیہی زندگی ابھی تک کیسے کیسے سفر سے گزر رہی ہے، خواتین، بچے، بوڑھے، جوان سب کے سب ریاست کی ناک کے نیچے ریاست ہی کے ظلم کا شکار ہیں، سب سے پہلے تو اس گاؤں کے تمام سرکاری عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے حکومت جواب طلب کرے اور ان تمام افراد کو عوام کے سامنے جواب دہ بنایا جائے، آخر کب تک اس طرح ظلم کی چکی چلتی رہے گی، اس ترقی یافتہ دور میں کب تک زنجیروں میں باندھ کر انسانوں کو کوٹھریوں کی نذر کیا جاتا رہے گا، مجھے لگتا ہے یہ وہ سوال ہے جو ہمیشہ کی کتابوں میں تحریر ہوتا ہے اور ہم آج تک ان سوالوں کے جوابوں سے نا آشنا ہیں، کیسی مجبوری اور کیسا ستم ہے جو زندہ انسانوں کو زندہ ہی نگلے جارہا ہے اور کوئی روک تھام کی امید نظر نہیں آتی، اسے معاشرے کی بے حسی کہیے یا ریاست کی بے حسی کہیے کہ خواتین اور بچوں کو اگر ہراساں کیا جائے، ان کی زندگیاں ان پر مشکل ترین بنادی جائیں تو پھر اﷲ ہی مالک ہے۔
آرمی پبلک اسکول کے بعد یہ بھی ایسا ہی دل ہلادینے والا واقعہ ہے اور اس واقعے کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں اس میں تقریباً پورے پاکستان کے شہروں میں اس طرح کی ایکٹیوٹی ہورہی ہے اور تقریباً پاکستان کے 10 شہر اس میں سر فہرست ہے، کیا ہم سب اﷲ کے عذاب کو بھولے جارہے ہیں، کیا ہم ماضی کی کہانیوں کو بھلاچکے ہیں، کیا ہماری دولت ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رکھے گی؟
ہمارا مذہب تو ہمیں جانوروں کے ساتھ ظلم کی اجازت نہیں دیتا،، ایک کتے کو پانی پلانے پر اﷲ پاک گناہوں سے آزاد کردیتا ہے تو یہ تو ہمارے اپنے لوگ ہیں کیا لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ اس مکروہ، گھناؤنے کھیل کو ہر سطح پر مخاطب کیا جائے، کچھ حکومتی ارکان کہتے ہیں کہ میڈیا اس واقعے کو بہت ہوا دے رہا ہے یہ کوئی معمولی واقعہ ہے؟ کیا اس واقعے کو میڈیا نہ ابھارتا تو شاید یہ ظلم و ستم کی اندوہناک کہانی جانے کب تک چلتی رہتی؟ سیکڑوں زندہ لاشیں اپنی بے قدری کی داستانیں اپنے سینے میں چھپاکر زمینوں میں دفن ہوجاتی!
پاکستان کے جس جس شہر میں بھی یہ کہانیاں چلی، ہنگامی بنیادوں پر فوری حکومت توجہ کریں، تمام حکومتی ارکان کو متحرک کیا جائے ان ارکان کو جواب دہ بنایاجائے اور خدا کے واسطے بادشاہت، شہنشاہیت کی طرز حکومت نہ بنائی جائے کہ یہ سب بعد میں باعث عبرت ہی بن جاتی ہے، ہمارے طور طریقے، قوانین کچھ بھی ہو مگر اﷲ پاک کا قانون اٹل ہے اور قیامت تک صرف اور صرف اﷲ پاک ہی اس قانون پر قادر ہے، ریاست کا حکمران جواب دہ ہے، اﷲ کے سامنے اور عوام کے سامنے بھی۔
دل و دماغ سوچ کر افسردہ ہوتا ہے کہ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہ معاشرہ ہمیں کیا دے رہا ہے؟ اور یقینا ہم سب ہی ان تمام کے ذمے دار ہیں، دیہی علاقوں میں، گاؤں میں اگر اس طرح ہورہاہے تو شہروں میں بھی پڑھے لکھے سعد عزیز کی طرح اپنی سوچوں کو بدل رہے ہیں، ایک پڑھا لکھا ماڈرن لڑکا ایک سفاک دہشت گرد کا روپ دھار لیتا ہے اور کئی لوگوں کو درندگی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے۔ MBAکرنے کے بعد بھی اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی آخر سوسائٹی میں کیا ایسا ہے کہ سعد عزیز اپنی تمام تر سوچ کو منفی کرلیں؟ کہاں کہاں پر خلا پیدا ہوتے جارہے ہیں ہم شاید اس کا اندازہ بھی نہیں کر پارہے اور نہ ہم اپنے آزاد وطن سے انصاف کررہے ہیں، میڈیا ہی کی وجہ سے کئی ایسے ایشوز اب سامنے آرہے ہیں جو ڈھکے چھپے رہتے تھے جو ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں پنپ رہے ہیں۔
کرپشن اور نا انصافی، ظلم، غارت گری پورا کا پورا ملک اور معاشرہ سلگ رہا ہے اگر صرف سیکڑوں لوگ ہی جاہ و جلال کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھیںگے اور باقی چیونٹیوں کی طرح مسل دیے جائیںگے کہ ہم اور آپ سوچ نہیں سکتے ہیں کہ یہ آگ کتنی خطرناک ہوگی۔
امید رکھتے ہیں کہ اس واقعے پر بھی سخت ایکشن ہوگا اور مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ جو ریاست کے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ جن کی ذمے داری بنتی ہے عوام کی دیکھ بھال کی اگر وہ نالائق ہیں تو ان کو بھی فوری طور پر ہٹایاجائے۔
حکمرانوں کے پاس یہ وقت ایک تاریخی وقت ہے جس میں ان کے تمام ایکشن اور تمام اقدامات نہ صرف ان کے قد آور وقار کو بہت اونچا کرسکتے ہیں۔ جس کے لیے انھیں عوام کے دکھ، درد میں ان کے ساتھ قدم بہ قدم ہونا ہوگا۔ چھوٹے سے چھوٹے معاملے پر اگر ان کی نظر گہری ہوتی ہے اور فوری طور پر مثبت اقدامات ہوتے ہیں، تب ہی ایک مثبت سمت نظر آسکتی ہے، دعا ہے کہ اﷲ عالیشان ہم سب کو اپنی ہدایت دیں کہ ہم سب کو خالی ہاتھ اور صرف اپنے اپنے اعمال کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہونا ہے وہاں اندھیرا اور تنہائی اور منوں مٹی کے نیچے ہمارے اپنے ہی دفن کرکے واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیںگے اور صرف اور صرف سب کو اپنے اپنے اعمال کے آئینے میں ہی دیکھنا ہوگا۔