’’نیلی قوم‘‘ طوارق
صحرائے صحارا کے غیور لوگ جو آج بھی جدید طرز زندگی قبول کرنے کو تیار نہیں
طوارق وسیع و عریض ریگستان میں رہنے والی دنیا کی وہ بہادر قوم ہے جسے نیلی قوم یا نیلے لوگ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو دیکھ کر آزادی کا احساس بھی ہوتا ہے اور طاقت کا بھی۔ یہ وہ باہمت قوم ہے جس نے دنیا سے اپنی طاقت اور جواں مردی کو تسلیم کرایا ہے۔
زمانۂ قدیم کے وحشی بربروں اور قدیم مصریوں نے مل کر یہ گروپ تشکیل دیا ہے، جو دنیا کا سب سے قدیم گروپ ہے اور شمالی افریقا میں رہتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ لگ بھگ دس ہزار سال قبل جنوب مغربی ایشیا سے آئے تھے۔ لفظ ''بربر'' لاطینی لفظ "barbarus" سے نکلا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ کبھی رومی سلطنت کا حصہ نہیں رہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو "imazighen" کہہ کر پکارتے تھے جس کا مطلب ہے: آزاد لوگ۔عرب فاتحین نے اپنے متعدد قبائل کو خود ہی ختم کردیا، کیوں کہ وہ قبیلے شمالی افریقا کی فتح کے بعد عربوں میں ضم ہوگئے تھے، اس لیے ان کی الگ شناخت نہیں رہی، بلکہ وہ عربوں کا ہی حصہ بن گئے۔ اصل میں یہ بربر بحیرۂ روم کی سفید فام نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب وہ متعدد اقوام اور گروپس میں گھلے ملے تو ان کی مخلوط نسلیں وجود میں آگئیں اور ان کا انفرادی وجود کہیں کھوگیا۔
٭آج کہاں رہتے ہیں؟:
آج اس قوم کے لوگ کوہ اٹلس میں بھی رہتے ہیں جو سرخ بالوں والے لوگ ہیں، مگر ان میں نہایت سیاہ رنگت والے بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ذیلی صحارا کی آبادیوں میں اس طرح گھل مل گئے کہ ایک الگ ہی گروپ وجود میں آگیا۔
٭خاص گاؤں:
کوہ اٹلس کے بربروں نے اپنے پہاڑی خطوں میں خاص گاؤں تعمیر کرلیے ہیں جو دیکھنے میں قلعے (kasbas) لگتے ہیں جن کے اسٹرکچر یا ڈھانچے (چھتیں اور دیواریں) کچی اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں جن کے اوپر درختوں کی شاخیں ڈالی گئی ہیں اور ان پر کچی مٹی کا لیپ کیا گیا ہے۔ ان خصوصی گھروں کو tighremt کہا جاتا ہے جو تین یا چار سطحی ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں چند ایک ہی کھڑکیاں ہوتی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ ان میں رہنے والوں کو سخت گرمی سے بچایا جاسکے۔ ان گھروں کی چھتوں پر ٹیرس بھی بنے ہوتے ہیں جہاں گرمیوں کی راتوں میں آرام کیا جاسکتا ہے۔ ان سب پر سفید، یا ہلکا نیلا رنگ کیا جاتا ہے۔ ہر گاؤں کا ایک بڑا اسٹور (irherm) ہوتا ہے جہاں یہ لوگ اپنا گیہوں، رئی یا جو، جوار کی فصلیں رکھتے ہیں۔ اس irherm کی حفاظت ایک mokhazni کرتا ہے جو تن خواہ دار محافظ ہوتا ہے۔ بربر گاؤں پر ایک بوڑھا سردار حکومت کرتا ہے۔ ایک خطے کے بہت سے سردار مل کر ایک اسمبلی تشکیل دیتے ہیں جسے مقامی زبان میں mokaddem کہا جاتا ہے اور اس کا سربراہ سب سے بوڑھا سردار ہوتا ہے۔
٭کھیتی باڑی:
فارمنگ بربر برادریاں مخصوص عربی اونٹوں سے کھیتوں کو جوتتی ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر ان لوگوں نے ٹیرس بھی بنارکھے ہیں اور آب پاشی کے لیے خندقیں، نہریں یا کھائیاں بھی جن سے یہ بربر اپنی فصلوں کو پانی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی خاص فصلوں میں گیہوں، رئی، جو، جوار اور دیگر اناج شامل ہیں۔
٭بے مثال آرٹسٹ:
یہی بربر لوگ الجیریا کے پہاڑی علاقے Tassili n'Ajjerمیں واقع دیواری پینٹنگز کے خالق بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھے سے آٹھ ہزار سال پرانی ہیں۔ ان پینٹنگز میں مگرمچھ، شترمرغ، گینڈے، زرافے، دریائی گھوڑے، ہاتھی، افریقی غزال اور ہرن وغیرہ کو دکھایا گیا ہے۔ یہ اس زمانے کی پینٹنگز ہیں جب صحارا کسی savanna جیسا سرسبز علاقہ تھا۔طوارق اصل میں ایک بربر گروپ ہی ہے جس کی اپنی زبان (tamashek) ہے اور رسم الخط بھی۔ یہ لوگ جیومیٹری کی علامات (tifinagh) کو ملاکر لکھتے ہیں۔ اسے براہ راست اصل بربر رسم الخط سے لیا گیا ہے جو کبھی Numidiansاستعمال کرتے تھے۔ Numidians لیبیا میں رہنے والی ایک قدیم قوم تھی جو رومی دور سے بھی پہلے گزری ہے۔ انہوں نے خود کو صحارا کے سخت اور انسان دشمن ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے خانہ بدوشوں والا طرز زندگی اپنایا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ مغربی صحارا کے ماسٹر بن گئے اور لیبیا سے ماریطانیہ تک پر چھاگئے جن میں ہوگر اور ادرار کے پہاڑی سلسلے بھی شامل تھے۔ خانہ بدوش بربروں کے بارے میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ہیروڈوٹس نے بھی اشارہ دیا تھا جو لیبیا کے نخلستانوں میں آباد تھے، لیکن اس یہ طوارق کے نام سے سولھویں صدی میں معروف ہوئے۔
٭معاشی سرگرمیاں:
روایتی طور پر طوارق معاشرہ درجہ بند تھا جہاں مراتب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ان میں جنگجو اور اشرافیہ شامل تھے۔ انہوں نے دفاعی گروپ تشکیل بھی دے رکھے تھے۔ یہ لوگ مویشی بھی پالتے اور ان کی تجارت بھی کرتے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ دور دراز علاقوں میں اپنے تجارتی قافلے بھیجا کرتے تھے اور اپنا سامان تجارت دوسرے شہروں کو فروخت کرتے تھے۔ یہ لوگ ویسے تو سوداگر تھے، مگر بنیادی طور پر گلہ بان تھے جو مویشی چراتے تھے اور انہیں فروخت کرتے تھے۔ ان کا زیادہ تر واسطہ لوہاروں سے پڑتا تھا جن سے یہ اپنے گھوڑوں کی زینیں اور آلات کی مرمت کرتے تھے۔ اچھے ہنرمند ہونے کے بعد یہ لوگ سرامکس سے عمدہ چیزیں بھی تیار کرنے لگے تھے۔ یہ کانسی کے برتن اور خصوصاً اس کی کیتلیاں بہت اچھی بناتے تھے۔ یہ قالین بننے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ روزمرہ کی ضرورت کی سبھی چیزیں تیار کرتے تھے۔ یہ اسلامی مذہبی پیشواؤں کی خدمت بھی کرتے تھے۔ جب دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات ختم ہوگئے تو انہوں نے اچھی خاصی معاشی ترقی کی۔ اس سے پہلے طوارق کے پاس سیاہ فام غلام بھی تھے جن کی یہ خرید و فروخت کرتے تھ، مگر آج وہاں کوئی غلام نہیں ہے، بلکہ وہ اور ان کے لوگ معاشرے کے مستحکم اور مضبوط لوگوں کی متعدد خدمات انجام دے رہے ہیں۔
٭ایک قابل فخر گروپ:
طوارق کو تاریخ دانوں نے ایک قابل فخر گروپ کہہ کر پکارا ہے۔ ان میں ایسے قابل فخر، انفرادیت پسند اور بہادر جنگجو بھی ہیں جنہوں نے شہری تہذیب کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ طوارق نے کئی صدیوں تک صحارا سے گزرنے والے تجارتی راستوں پر اپنا کنٹرول رکھا اور یہ صورت حال گذشتہ صدی کے شروع تک قائم رہی۔ ان اہم راستوں سے سونا، ہاتھی دانت، غلام، نمک اور دوسری افریقی مصنوعات عرب سے یورپی بازاروں تک جاتی تھیں۔ گویا انہیں صحارا کے ذیلی شہروں اور قصبوں سے بحیرۂ روم کے علاقوں تک رسائی ملی ہوئی تھی۔ بعض اوقات یہ لوگ لوٹ مار اور ڈاکا زنی بھی کرتے تھے اور خاص طور سے تجارتی قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے، گاؤں دیہات میں بھی لوٹ مار کرتے تھے۔
٭ٹمبکٹو شہر کے خالق:
کہا جاتا ہے کہ طوارق نے گیارہویں صدی میں ٹمبکٹو نام کا شہر بھی آباد کیا تھا جسے آج ''مالی'' کہا جاتا ہے، لیکن ان کی زندگی عام طور سے چھوٹی آبادیوں اور بستیوں سے ہی وابستہ رہی اور وہ حسب معمول خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کرتے رہے۔
٭طوارق کا مذہب اور عقیدہ:
جب اس علاقے میں عرب فاتحین آئے تو بربروں نے اسلام قبول کرلیا، لیکن روایتی طور پر وہ ریگستانی دیوی دیوتاؤں کی ہی پرستش کرتے رہے جن میں پتھر، پانی، آگ اور پہاڑ شامل تھے۔ یہ لوگ متعدد غاروں، تالابوں اور درختوں کو بھی اپنا دیوتا مانتے تھے۔ ان میں ایک مذہبی رسم ہاتھ دھونے کی بھی تھی، مگر چوں کہ ریگستان میں پانی نہیں ملتا، اس لیے یہ لوگ اب پانی کے بجائے ریت سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ طوارق لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ہر انسان کے پیچھے ایک جن، بھوت، پری یا بونا چلتا ہے جو اس کے لیے خوش قسمتی بھی لاسکتا ہے اور بدبختی بھی۔
٭نئی جگہ کی تلاش میں:
طوارق خانہ بدوش ہیں اور اپنے اونٹوں، بھیڑوں، بکریوں اور گھوڑوں کے ساتھ ہر وقت سفر میں رہتے ہیں، انہیں ہر وقت نئی چراگاہوں کی تلاش رہتی ہے۔ یہ لوگ شہروں یا مضافاتی علاقوں میں جانا پسند نہیں کرتے جہاں سے گزرنے کا ٹیکس یا اس کی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔
٭نیلا لباس۔۔۔۔ نیلی پگڑیاں:
ان سب لوگوں کو blue people یا نیلے لوگ کہہ کر پکارا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیلا لباس پہنتے ہیں اور نیلی نقاب سے ہی اپنا چہرہ ڈھکے رہتے ہیں۔ زیادہ گرم علاقوں میں یہ نیلی نقاب اور نیلی پگڑی بھی استعمال کرتے ہیں، تاکہ گرمی سے خود کو بالخصوص اپنے چہرے کو بچاسکیں۔ یہ نقاب اور پگڑی مردوں میں اس بات کی بھی علامت ہے کہ مذکورہ مرد بالغ ہوگیا ہے، کیوں کہ بالغ ہونے کے بعد ہی اسے یہ نقاب اور پگڑی پہننے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ بچے بڑے ہوکر تلوار بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
نیلی نقاب صحت و صفائی کے لیے تو استعمال کی جاتی ہی ہے، مگر اس کے اخلاقی اور طلسماتی معنیٰ بھی ہیں۔ مرد لمبا لبادہ پہنتے ہیں جو اونٹ کے بالوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سخت گرمی اور ریت کے طوفانوں سے بچاتا ہے۔ مگر عورتیں نقاب سے اپنا چہرہ نہیں چھپاتیں، صرف مرد چھپاتے ہیں۔ شروع میں کہا جاتا تھا کہ مرد بدروحوں سے بچنے کے لیے یہ نقاب استعمال کرتے ہیں، مگر بعد میں یہ پتا چلا کہ اس کا مطلب گرمی اور گرم ریت سے بچاؤ ہے۔
شروع میں مرد صرف نیلی پگڑی پہنتے تھے، مگر اب وہ ہر رنگ کی پگڑی پہننے لگے ہیں۔
٭لباس، زیور اور رسوم:
طوارق لوگ چاہے مرد ہوں یا عورتیں، سونے، چاندی اور عنبر کے طرح طرح کے زیورات بھی پہنتے ہیں۔ طوارق خواتین کو اپنی زندگی میں کافی آزادی حاصل ہے۔ شادی سے پہلے انہیں مردوں کے ساتھ ریلیشن شپ کی اجازت ملی ہوئی ہے۔ طوارق خواتین خاص خاص مواقع پر پوستین سے تیار کردہ لمبا لباس پہنتی ہیں جس کے کناروں پر سونے اور چاندی کے تار لگے ہوتے ہیں۔ طوارق لوگوں میں مدرسری نظام رائج ہے، حالاں کہ ان کی خواتین کے ہاتھوں میں کوئی اختیار نہیں ہوتا، مگر پھر بھی یہ ماؤں کی طرف سے پہچانے جاتے ہیں۔
٭خیمے اور گھر:
ان کے خیمے اونٹ کی کھال یا بکروں کی کھال سے تیار کردہ مٹیریل یا پھر اونٹوں کے بالوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کے خیموں کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیوں کی باڑ لگی ہوتی ہے۔ ایک بڑا خیمہ بطور مسجد استعمال ہوتا ہے۔ یہ خیمہ سخت گرم دنوں اور ریت کے طوفانوں کے وقت دن میں گرمی سے بچاتا ہے۔ چوں کہ طوارق خانہ بدوش ہیں، اس لیے یہ لوگ کھیتی باڑی نہیں کرتے، اس کے بجائے یہ جانوروں کی کھالوں کا کام کرتے ہیں، ساتھ ہی دودھ، گوشت ڈیری مصنوعات (پنیر اور مکھن) کا کاروبار بھی کرتے ہیں جو خاص طور سے اناج کے لیے (بہ طور خاص گیہوں) کے لیے کیا جاتا ہے جس سے یہ خمیر سے پاک روٹی تیار کرتے ہیں۔ گیہوں کو پیسنے کے لیے یہ لوگ لکڑی کے ہاون دستے اور موٹی لکڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ چوں کہ ریگستان میں ہر وقت ریت اور گرد اڑتی رہتی ہے، اس لیے ان بربروں کے پسے ہوئے آٹے میں بھی یہ چیزیں مل جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے دانت خراب ہوجاتے ہیں۔ بکریوں کے ریوڑوں کی دیکھ بھال عام طور سے نوجوان لڑکے اور خواتین کرتی ہیں۔ ان کے تجارتی یا کاروباری مراکز کو ''سوق'' کہا جاتا ہے جہاں فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کے درمیان خوب سودے بازی ہوتی ہے جس میں بعض اوقات کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ان کے گھر یعنی ریگستان میں پانی ایک نہایت قیمتی چیز ہے جو دھونے دھلانے کے لیے بہ مشکل ہی استعمال ہوتا ہے۔ طوارق کی بنیادی خوراک کھجور اور اونٹ اور بکری کے دودھ سے تیار کردہ پنیر سے بنائی جاتی ہے۔
٭فرانسیسی نو آبادیاں اور طوارق کے لیے مشکل حالات:
فرانسیسی فوج نے کئی سال تک ریگستان کے ان خانہ بدوشوں کو دبانے کے لیے ان کے خلاف لڑائی اور خوں ریزی کی اور ان کو بے دردی سے قتل کیا، آخر کار 1917میں یہاں فرانس کی نوآبادی قائم ہونے سے پہلے طوارق کو چھے کنفیڈریشنز میں منظم کردیا گیا اور ہر کنفیڈریشن میں ایک درجن یا زیادہ قبیلے شامل تھے۔
1960کے عشرے میں افریقی ملکوں کی آزادی کے بعد طوارق کا علاقہ غیرفطری طور پر درج ذیل جدید اقوام میں تقسیم کردیا گیا:
نائیجر، مالی، الجیریا، لیبیا اور برکینافاسو۔ لیکن طوارق کے تعلقات اپنے پڑوسی افریقی گروپس کے ساتھ اس کے ذرائع کے حوالے سے مسلسل کشیدہ رہے۔ خاص طور سے جب سے یہاں فرانسیسی نوآبادیاں قائم ہوئیں، اس کے بعد ایک تو ان میں سیاسی عدم استحکام رہا، پھر معاشی اور اقتصادی ترقی کی راہوں میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ خانہ بدوشوں پر عائد سخت پابندیوں نے بھی تنازعات پیدا کیے، پھر گلوبل وارمنگ نے بھی اس بہادر اور جری قوم کی ترقی کی راہ میں مشکلات کھڑی کردیں، کیوں کہ انہیں پانی کی کمی کا سامنا تو ہمیشہ رہا، ساتھ ہی زرخیز زمین بھی نہ مل سکی اور نہ ہی ایسا اچھا ماحول ملا جہاں وہ ترقی کرکے پنپ پاتے۔ اس خطے کے ترقی کرتے شہروں میں بطور ایندھن جلائی جانے والی لکڑی کی طلب بھی مسلسل بڑھتی رہی جس نے بہت سے مسائل پیدا کیے۔ آج بعض طوارق کھیتی باڑی کے تجربات کررہے ہیں، بعض گلہ بانی کے پیشے کو چھوڑ کر چھوٹے اور بڑے شہروں میں ملازمتیں تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کے علاقوں میں تیل اور یورینیم کے کنووں کی دریافت کا مطلب یہ تھا کہ یہاں صنعتوں کی ترقی کا راستہ کھل جائے گا، مگر پھر بھی طوارق معاشرہ نہ بدل سکا، کیوں کہ بعض افراد نے اس نئی تبدیلی کو قبول نہیں کیا۔ بعض کیس تو ایسے بھی سامنے آئے جب تیل کے کنووں پر صرف چند ہفتے کام کرنے والے خانہ بدوشوں نے خودکشیاں کرلیں یا ان بربروں نے بھی خود کو ہلاک کرلیا جو صحارا کے ہائی ویز پر کام کررہے تھے۔
٭مشکلات اور غارت گری:
الجیریا کی آزادی فرانسیسی نو آبادی نظام سے بھی بدتر ثابت ہوئی: 200,000 افراد کو نائیجر بھیج دیا گیا اور دیگر 200,000 کو مالی، وہ خشک ترین خطوں میں جہاں پانی نایاب ہے۔ نائیجر اور مالی میں تو طوارق جنگجو ایک آزاد طوارق علاقے کے قیام کے لیے 1960سے سرکاری افواج کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ 1968-1973 اور 1981-1985 کی درمیانی مدت میں متعدد بار طوارق کو شدید ترین قحط سالی اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا جن میں ان کے لاکھوں مویشی (80 %) اور دو ملین طوارق افراد کو شہر کے مضافات یا ہر طرح کی بنیادی ضرورت سے محروم علاقوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس دوران متعدد بچے بھوک اور فاقوں سے مرگئے۔ اس موقع پر جب بین الاقوامی فلاحی تنظیموں نے انہیں خوراک فراہم کرنے کی پیشکش کی تو ان غیور طوارق نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آج لگ بھگ تین لاکھ طوارق درج ذیل علاقوں میں آباد ہیں: الجیریا، تیونس، مالی، لیبیا، نائیجر اور برکینا فاسو اور ان میں سے لگ بھگ 20ہزار ایسے ہیں جنہوں نے اپنے روایتی اور قدیم طرز زندگی کو اب تک نہیں چھوڑا ہے۔
زمانۂ قدیم کے وحشی بربروں اور قدیم مصریوں نے مل کر یہ گروپ تشکیل دیا ہے، جو دنیا کا سب سے قدیم گروپ ہے اور شمالی افریقا میں رہتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ لگ بھگ دس ہزار سال قبل جنوب مغربی ایشیا سے آئے تھے۔ لفظ ''بربر'' لاطینی لفظ "barbarus" سے نکلا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ کبھی رومی سلطنت کا حصہ نہیں رہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو "imazighen" کہہ کر پکارتے تھے جس کا مطلب ہے: آزاد لوگ۔عرب فاتحین نے اپنے متعدد قبائل کو خود ہی ختم کردیا، کیوں کہ وہ قبیلے شمالی افریقا کی فتح کے بعد عربوں میں ضم ہوگئے تھے، اس لیے ان کی الگ شناخت نہیں رہی، بلکہ وہ عربوں کا ہی حصہ بن گئے۔ اصل میں یہ بربر بحیرۂ روم کی سفید فام نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب وہ متعدد اقوام اور گروپس میں گھلے ملے تو ان کی مخلوط نسلیں وجود میں آگئیں اور ان کا انفرادی وجود کہیں کھوگیا۔
٭آج کہاں رہتے ہیں؟:
آج اس قوم کے لوگ کوہ اٹلس میں بھی رہتے ہیں جو سرخ بالوں والے لوگ ہیں، مگر ان میں نہایت سیاہ رنگت والے بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ذیلی صحارا کی آبادیوں میں اس طرح گھل مل گئے کہ ایک الگ ہی گروپ وجود میں آگیا۔
٭خاص گاؤں:
کوہ اٹلس کے بربروں نے اپنے پہاڑی خطوں میں خاص گاؤں تعمیر کرلیے ہیں جو دیکھنے میں قلعے (kasbas) لگتے ہیں جن کے اسٹرکچر یا ڈھانچے (چھتیں اور دیواریں) کچی اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں جن کے اوپر درختوں کی شاخیں ڈالی گئی ہیں اور ان پر کچی مٹی کا لیپ کیا گیا ہے۔ ان خصوصی گھروں کو tighremt کہا جاتا ہے جو تین یا چار سطحی ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں چند ایک ہی کھڑکیاں ہوتی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ ان میں رہنے والوں کو سخت گرمی سے بچایا جاسکے۔ ان گھروں کی چھتوں پر ٹیرس بھی بنے ہوتے ہیں جہاں گرمیوں کی راتوں میں آرام کیا جاسکتا ہے۔ ان سب پر سفید، یا ہلکا نیلا رنگ کیا جاتا ہے۔ ہر گاؤں کا ایک بڑا اسٹور (irherm) ہوتا ہے جہاں یہ لوگ اپنا گیہوں، رئی یا جو، جوار کی فصلیں رکھتے ہیں۔ اس irherm کی حفاظت ایک mokhazni کرتا ہے جو تن خواہ دار محافظ ہوتا ہے۔ بربر گاؤں پر ایک بوڑھا سردار حکومت کرتا ہے۔ ایک خطے کے بہت سے سردار مل کر ایک اسمبلی تشکیل دیتے ہیں جسے مقامی زبان میں mokaddem کہا جاتا ہے اور اس کا سربراہ سب سے بوڑھا سردار ہوتا ہے۔
٭کھیتی باڑی:
فارمنگ بربر برادریاں مخصوص عربی اونٹوں سے کھیتوں کو جوتتی ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر ان لوگوں نے ٹیرس بھی بنارکھے ہیں اور آب پاشی کے لیے خندقیں، نہریں یا کھائیاں بھی جن سے یہ بربر اپنی فصلوں کو پانی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی خاص فصلوں میں گیہوں، رئی، جو، جوار اور دیگر اناج شامل ہیں۔
٭بے مثال آرٹسٹ:
یہی بربر لوگ الجیریا کے پہاڑی علاقے Tassili n'Ajjerمیں واقع دیواری پینٹنگز کے خالق بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھے سے آٹھ ہزار سال پرانی ہیں۔ ان پینٹنگز میں مگرمچھ، شترمرغ، گینڈے، زرافے، دریائی گھوڑے، ہاتھی، افریقی غزال اور ہرن وغیرہ کو دکھایا گیا ہے۔ یہ اس زمانے کی پینٹنگز ہیں جب صحارا کسی savanna جیسا سرسبز علاقہ تھا۔طوارق اصل میں ایک بربر گروپ ہی ہے جس کی اپنی زبان (tamashek) ہے اور رسم الخط بھی۔ یہ لوگ جیومیٹری کی علامات (tifinagh) کو ملاکر لکھتے ہیں۔ اسے براہ راست اصل بربر رسم الخط سے لیا گیا ہے جو کبھی Numidiansاستعمال کرتے تھے۔ Numidians لیبیا میں رہنے والی ایک قدیم قوم تھی جو رومی دور سے بھی پہلے گزری ہے۔ انہوں نے خود کو صحارا کے سخت اور انسان دشمن ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے خانہ بدوشوں والا طرز زندگی اپنایا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ مغربی صحارا کے ماسٹر بن گئے اور لیبیا سے ماریطانیہ تک پر چھاگئے جن میں ہوگر اور ادرار کے پہاڑی سلسلے بھی شامل تھے۔ خانہ بدوش بربروں کے بارے میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ہیروڈوٹس نے بھی اشارہ دیا تھا جو لیبیا کے نخلستانوں میں آباد تھے، لیکن اس یہ طوارق کے نام سے سولھویں صدی میں معروف ہوئے۔
٭معاشی سرگرمیاں:
روایتی طور پر طوارق معاشرہ درجہ بند تھا جہاں مراتب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ان میں جنگجو اور اشرافیہ شامل تھے۔ انہوں نے دفاعی گروپ تشکیل بھی دے رکھے تھے۔ یہ لوگ مویشی بھی پالتے اور ان کی تجارت بھی کرتے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ دور دراز علاقوں میں اپنے تجارتی قافلے بھیجا کرتے تھے اور اپنا سامان تجارت دوسرے شہروں کو فروخت کرتے تھے۔ یہ لوگ ویسے تو سوداگر تھے، مگر بنیادی طور پر گلہ بان تھے جو مویشی چراتے تھے اور انہیں فروخت کرتے تھے۔ ان کا زیادہ تر واسطہ لوہاروں سے پڑتا تھا جن سے یہ اپنے گھوڑوں کی زینیں اور آلات کی مرمت کرتے تھے۔ اچھے ہنرمند ہونے کے بعد یہ لوگ سرامکس سے عمدہ چیزیں بھی تیار کرنے لگے تھے۔ یہ کانسی کے برتن اور خصوصاً اس کی کیتلیاں بہت اچھی بناتے تھے۔ یہ قالین بننے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ روزمرہ کی ضرورت کی سبھی چیزیں تیار کرتے تھے۔ یہ اسلامی مذہبی پیشواؤں کی خدمت بھی کرتے تھے۔ جب دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات ختم ہوگئے تو انہوں نے اچھی خاصی معاشی ترقی کی۔ اس سے پہلے طوارق کے پاس سیاہ فام غلام بھی تھے جن کی یہ خرید و فروخت کرتے تھ، مگر آج وہاں کوئی غلام نہیں ہے، بلکہ وہ اور ان کے لوگ معاشرے کے مستحکم اور مضبوط لوگوں کی متعدد خدمات انجام دے رہے ہیں۔
٭ایک قابل فخر گروپ:
طوارق کو تاریخ دانوں نے ایک قابل فخر گروپ کہہ کر پکارا ہے۔ ان میں ایسے قابل فخر، انفرادیت پسند اور بہادر جنگجو بھی ہیں جنہوں نے شہری تہذیب کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ طوارق نے کئی صدیوں تک صحارا سے گزرنے والے تجارتی راستوں پر اپنا کنٹرول رکھا اور یہ صورت حال گذشتہ صدی کے شروع تک قائم رہی۔ ان اہم راستوں سے سونا، ہاتھی دانت، غلام، نمک اور دوسری افریقی مصنوعات عرب سے یورپی بازاروں تک جاتی تھیں۔ گویا انہیں صحارا کے ذیلی شہروں اور قصبوں سے بحیرۂ روم کے علاقوں تک رسائی ملی ہوئی تھی۔ بعض اوقات یہ لوگ لوٹ مار اور ڈاکا زنی بھی کرتے تھے اور خاص طور سے تجارتی قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے، گاؤں دیہات میں بھی لوٹ مار کرتے تھے۔
٭ٹمبکٹو شہر کے خالق:
کہا جاتا ہے کہ طوارق نے گیارہویں صدی میں ٹمبکٹو نام کا شہر بھی آباد کیا تھا جسے آج ''مالی'' کہا جاتا ہے، لیکن ان کی زندگی عام طور سے چھوٹی آبادیوں اور بستیوں سے ہی وابستہ رہی اور وہ حسب معمول خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کرتے رہے۔
٭طوارق کا مذہب اور عقیدہ:
جب اس علاقے میں عرب فاتحین آئے تو بربروں نے اسلام قبول کرلیا، لیکن روایتی طور پر وہ ریگستانی دیوی دیوتاؤں کی ہی پرستش کرتے رہے جن میں پتھر، پانی، آگ اور پہاڑ شامل تھے۔ یہ لوگ متعدد غاروں، تالابوں اور درختوں کو بھی اپنا دیوتا مانتے تھے۔ ان میں ایک مذہبی رسم ہاتھ دھونے کی بھی تھی، مگر چوں کہ ریگستان میں پانی نہیں ملتا، اس لیے یہ لوگ اب پانی کے بجائے ریت سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ طوارق لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ہر انسان کے پیچھے ایک جن، بھوت، پری یا بونا چلتا ہے جو اس کے لیے خوش قسمتی بھی لاسکتا ہے اور بدبختی بھی۔
٭نئی جگہ کی تلاش میں:
طوارق خانہ بدوش ہیں اور اپنے اونٹوں، بھیڑوں، بکریوں اور گھوڑوں کے ساتھ ہر وقت سفر میں رہتے ہیں، انہیں ہر وقت نئی چراگاہوں کی تلاش رہتی ہے۔ یہ لوگ شہروں یا مضافاتی علاقوں میں جانا پسند نہیں کرتے جہاں سے گزرنے کا ٹیکس یا اس کی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔
٭نیلا لباس۔۔۔۔ نیلی پگڑیاں:
ان سب لوگوں کو blue people یا نیلے لوگ کہہ کر پکارا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیلا لباس پہنتے ہیں اور نیلی نقاب سے ہی اپنا چہرہ ڈھکے رہتے ہیں۔ زیادہ گرم علاقوں میں یہ نیلی نقاب اور نیلی پگڑی بھی استعمال کرتے ہیں، تاکہ گرمی سے خود کو بالخصوص اپنے چہرے کو بچاسکیں۔ یہ نقاب اور پگڑی مردوں میں اس بات کی بھی علامت ہے کہ مذکورہ مرد بالغ ہوگیا ہے، کیوں کہ بالغ ہونے کے بعد ہی اسے یہ نقاب اور پگڑی پہننے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ بچے بڑے ہوکر تلوار بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
نیلی نقاب صحت و صفائی کے لیے تو استعمال کی جاتی ہی ہے، مگر اس کے اخلاقی اور طلسماتی معنیٰ بھی ہیں۔ مرد لمبا لبادہ پہنتے ہیں جو اونٹ کے بالوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سخت گرمی اور ریت کے طوفانوں سے بچاتا ہے۔ مگر عورتیں نقاب سے اپنا چہرہ نہیں چھپاتیں، صرف مرد چھپاتے ہیں۔ شروع میں کہا جاتا تھا کہ مرد بدروحوں سے بچنے کے لیے یہ نقاب استعمال کرتے ہیں، مگر بعد میں یہ پتا چلا کہ اس کا مطلب گرمی اور گرم ریت سے بچاؤ ہے۔
شروع میں مرد صرف نیلی پگڑی پہنتے تھے، مگر اب وہ ہر رنگ کی پگڑی پہننے لگے ہیں۔
٭لباس، زیور اور رسوم:
طوارق لوگ چاہے مرد ہوں یا عورتیں، سونے، چاندی اور عنبر کے طرح طرح کے زیورات بھی پہنتے ہیں۔ طوارق خواتین کو اپنی زندگی میں کافی آزادی حاصل ہے۔ شادی سے پہلے انہیں مردوں کے ساتھ ریلیشن شپ کی اجازت ملی ہوئی ہے۔ طوارق خواتین خاص خاص مواقع پر پوستین سے تیار کردہ لمبا لباس پہنتی ہیں جس کے کناروں پر سونے اور چاندی کے تار لگے ہوتے ہیں۔ طوارق لوگوں میں مدرسری نظام رائج ہے، حالاں کہ ان کی خواتین کے ہاتھوں میں کوئی اختیار نہیں ہوتا، مگر پھر بھی یہ ماؤں کی طرف سے پہچانے جاتے ہیں۔
٭خیمے اور گھر:
ان کے خیمے اونٹ کی کھال یا بکروں کی کھال سے تیار کردہ مٹیریل یا پھر اونٹوں کے بالوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کے خیموں کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیوں کی باڑ لگی ہوتی ہے۔ ایک بڑا خیمہ بطور مسجد استعمال ہوتا ہے۔ یہ خیمہ سخت گرم دنوں اور ریت کے طوفانوں کے وقت دن میں گرمی سے بچاتا ہے۔ چوں کہ طوارق خانہ بدوش ہیں، اس لیے یہ لوگ کھیتی باڑی نہیں کرتے، اس کے بجائے یہ جانوروں کی کھالوں کا کام کرتے ہیں، ساتھ ہی دودھ، گوشت ڈیری مصنوعات (پنیر اور مکھن) کا کاروبار بھی کرتے ہیں جو خاص طور سے اناج کے لیے (بہ طور خاص گیہوں) کے لیے کیا جاتا ہے جس سے یہ خمیر سے پاک روٹی تیار کرتے ہیں۔ گیہوں کو پیسنے کے لیے یہ لوگ لکڑی کے ہاون دستے اور موٹی لکڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ چوں کہ ریگستان میں ہر وقت ریت اور گرد اڑتی رہتی ہے، اس لیے ان بربروں کے پسے ہوئے آٹے میں بھی یہ چیزیں مل جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے دانت خراب ہوجاتے ہیں۔ بکریوں کے ریوڑوں کی دیکھ بھال عام طور سے نوجوان لڑکے اور خواتین کرتی ہیں۔ ان کے تجارتی یا کاروباری مراکز کو ''سوق'' کہا جاتا ہے جہاں فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کے درمیان خوب سودے بازی ہوتی ہے جس میں بعض اوقات کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ان کے گھر یعنی ریگستان میں پانی ایک نہایت قیمتی چیز ہے جو دھونے دھلانے کے لیے بہ مشکل ہی استعمال ہوتا ہے۔ طوارق کی بنیادی خوراک کھجور اور اونٹ اور بکری کے دودھ سے تیار کردہ پنیر سے بنائی جاتی ہے۔
٭فرانسیسی نو آبادیاں اور طوارق کے لیے مشکل حالات:
فرانسیسی فوج نے کئی سال تک ریگستان کے ان خانہ بدوشوں کو دبانے کے لیے ان کے خلاف لڑائی اور خوں ریزی کی اور ان کو بے دردی سے قتل کیا، آخر کار 1917میں یہاں فرانس کی نوآبادی قائم ہونے سے پہلے طوارق کو چھے کنفیڈریشنز میں منظم کردیا گیا اور ہر کنفیڈریشن میں ایک درجن یا زیادہ قبیلے شامل تھے۔
1960کے عشرے میں افریقی ملکوں کی آزادی کے بعد طوارق کا علاقہ غیرفطری طور پر درج ذیل جدید اقوام میں تقسیم کردیا گیا:
نائیجر، مالی، الجیریا، لیبیا اور برکینافاسو۔ لیکن طوارق کے تعلقات اپنے پڑوسی افریقی گروپس کے ساتھ اس کے ذرائع کے حوالے سے مسلسل کشیدہ رہے۔ خاص طور سے جب سے یہاں فرانسیسی نوآبادیاں قائم ہوئیں، اس کے بعد ایک تو ان میں سیاسی عدم استحکام رہا، پھر معاشی اور اقتصادی ترقی کی راہوں میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ خانہ بدوشوں پر عائد سخت پابندیوں نے بھی تنازعات پیدا کیے، پھر گلوبل وارمنگ نے بھی اس بہادر اور جری قوم کی ترقی کی راہ میں مشکلات کھڑی کردیں، کیوں کہ انہیں پانی کی کمی کا سامنا تو ہمیشہ رہا، ساتھ ہی زرخیز زمین بھی نہ مل سکی اور نہ ہی ایسا اچھا ماحول ملا جہاں وہ ترقی کرکے پنپ پاتے۔ اس خطے کے ترقی کرتے شہروں میں بطور ایندھن جلائی جانے والی لکڑی کی طلب بھی مسلسل بڑھتی رہی جس نے بہت سے مسائل پیدا کیے۔ آج بعض طوارق کھیتی باڑی کے تجربات کررہے ہیں، بعض گلہ بانی کے پیشے کو چھوڑ کر چھوٹے اور بڑے شہروں میں ملازمتیں تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کے علاقوں میں تیل اور یورینیم کے کنووں کی دریافت کا مطلب یہ تھا کہ یہاں صنعتوں کی ترقی کا راستہ کھل جائے گا، مگر پھر بھی طوارق معاشرہ نہ بدل سکا، کیوں کہ بعض افراد نے اس نئی تبدیلی کو قبول نہیں کیا۔ بعض کیس تو ایسے بھی سامنے آئے جب تیل کے کنووں پر صرف چند ہفتے کام کرنے والے خانہ بدوشوں نے خودکشیاں کرلیں یا ان بربروں نے بھی خود کو ہلاک کرلیا جو صحارا کے ہائی ویز پر کام کررہے تھے۔
٭مشکلات اور غارت گری:
الجیریا کی آزادی فرانسیسی نو آبادی نظام سے بھی بدتر ثابت ہوئی: 200,000 افراد کو نائیجر بھیج دیا گیا اور دیگر 200,000 کو مالی، وہ خشک ترین خطوں میں جہاں پانی نایاب ہے۔ نائیجر اور مالی میں تو طوارق جنگجو ایک آزاد طوارق علاقے کے قیام کے لیے 1960سے سرکاری افواج کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ 1968-1973 اور 1981-1985 کی درمیانی مدت میں متعدد بار طوارق کو شدید ترین قحط سالی اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا جن میں ان کے لاکھوں مویشی (80 %) اور دو ملین طوارق افراد کو شہر کے مضافات یا ہر طرح کی بنیادی ضرورت سے محروم علاقوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس دوران متعدد بچے بھوک اور فاقوں سے مرگئے۔ اس موقع پر جب بین الاقوامی فلاحی تنظیموں نے انہیں خوراک فراہم کرنے کی پیشکش کی تو ان غیور طوارق نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آج لگ بھگ تین لاکھ طوارق درج ذیل علاقوں میں آباد ہیں: الجیریا، تیونس، مالی، لیبیا، نائیجر اور برکینا فاسو اور ان میں سے لگ بھگ 20ہزار ایسے ہیں جنہوں نے اپنے روایتی اور قدیم طرز زندگی کو اب تک نہیں چھوڑا ہے۔