ٹائر جلاکر مال کماتی فیکٹریاں
ناکارہ ٹائروں سے تیل اور تاروں سمیت مختلف اشیاء حاصل کرکے فروخت کی جاتی ہیں
SUKKUR:
پاکستان قدرتی وسائل جغرافیائی اور افرادی قوت سے مالامال ملک ہے، لیکن ہم نے اپنے قومی وسائل سے حتی المقدور بہت بُرا سلوک کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
قدرت کے خزانوں کو جس طرح بے دردی سے ہم استعمال میں لاتے ہیں شاید دنیا بھر میں ہمارے جیسے چند ہی ممالک ہوں جو ایسی معاشی سوچ اور طرز فکر کے حامل ہوں۔ جنگلات کے حد درجہ کٹاؤ، نئی بستیوں کی تعمیر اخلاقی پستیوں پر بستیوں کی تعمیر، ایندھن کا بے دریغ استعمال اور روز بروز بڑھتی آلودگی یہ وہ عناصر ہیں جن کی بدولت آج موسمی تغیرات اپنے غیرمعمولی رد عمل کا اظہار مختلف صورتوں میں کر رہے ہیں۔ معمول سے زیادہ بارشیں بے موسم اور بے قاعدہ بارشیں، گلیشیئروں کا تیزی سے پگھلنا، درجۂ حرارت میں اچانک غیرمعمولی لیکن بتدریج اضافہ اور ہوا میں نمی کے تناسب میں غیریقینی اُتار چڑھاؤ اپنی جگہ پر پریشان کن ہیں، لیکن یہ ہمارے لیے نہ سوچنے کے کام ہیں اور نہ ہی عمل کرنے کے۔ ہم نے ہر اس کام کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے جس کی تباہ کاریاں اور ذیلی اثرات بہت زیادہ ہوں۔
پیسوں کی لالچ نے رہی سہی اخلاقی اقدار کو بری طرح پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں فضائی اور آبی آلودگی، اوزون لیئر اور کثافت پر جس طرح سنجیدہ گفتگو اور پھر ان کا تدارک ہو رہا ہے، اس کا عشر عشیر عمل بھی ہمارے یہاں نہیں ہورہا۔ آئے دن نامعلوم پراسرار بیماریوں اور معلوم پیچیدہ امراض کا جس طرح ہم شکار ہو رہے ہیں لگتا ہے کہ ہم نے حالات کو بدلنے کی بجائے خود کو حالات کی زد میں رکھنے کا مسلسل اور مصمم ارادہ کرلیا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں قدرتی وسائل سے جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ کسی ذی ہوش سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وسائل کو بربادی کی سمت موڑنے کے بعد اجتماعی قدرتی وسائل کا حق بھی ان بے حس لالچی لوگوں نے چھین لینے کی سعی جاری رکھی ہوئی ہے، جو کہ محض دولت کو اپنا ایمان بنائے بیٹھے ہیں۔ اخلاقی اقدار پر عمل کرنا کجا ان اقدار کے بارے میں سوچنا بھی انھیں گوارا نہیں۔ ہمارے آج کے موضوع کی نوعیت اتنی سنگین ہے کہ سوچ کر ہی ہول اٹھتا ہے، اگر ہم سوچیں تو!
ٹائر جلانے والی فیکٹریاں! جی ہاں ٹائر دنیا بھر میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی کثیرالجہت کثیرالعمل شے ہے۔ ہر طرح سے زندگی کی تیز رفتار ترقی کو مزید بڑھاوا دینے والا پہیا اور اس سے جڑا ربڑ کا ٹائر۔ پاکستان کی صاف شفاف فضا ء کو مسموم کرنے کے قبیح عمل میں مبتلا زرپرست مافیا اب ہمت کی اس سطح پر آ گئی ہے کہ اجتماعی انسانی وسائل پر دیگر انسانوں کے حقوق کو یکسر پامال کرتے ہوئے فضا کو آلودہ کرنے پر تل گیا ہے۔ ٹائر کو جلاکر اپنی گاڑی کو رواں رکھنے کی یہ پست سوچ بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ٹائر جلانا دراصل توانائی کے متبادل ذرائع کی کھوج میں نکلے ہوئے منفی اذہان کی اختراع ہے، جو کہ بڑی تیزی سے پنپ رہی ہے۔ توانائی کے موجود ذرائع سے متوقع آمدن سے مایوس ان لوگوں نے ٹائر جلانے کو ذریعہ آمدن کا بڑا سبب گردانا۔ چناں چہ رحیم یارخان اور گردونواح میں باقاعدہ ٹائر جلانے کی فیکٹریاں ایک کے بعد ایک کھمبیوں کی طرح نمودار ہونے لگی ہیں۔
ٹائر بنیادی طور پر جن اشیاء کا مرکب ہے، ان کا ذکر سُن کر ہی سانس رک جاتی ہے۔ اس میں ربڑ، لوہے کی تاریں اور بسا اوقات تانبے کی باریک جال نما تاریں ہوتی ہیں۔ کٹے پھٹے ٹائروں، خصوصاً اسمگل شدہ ٹائروں، کو ٹکڑوں میں کاٹ کر یا ثابت ہی ملک کے مختلف حصوں مثلاً پشاور اور کوئٹہ سے ٹرکوں اور ٹرالیوں میں بھر کر ان فیکٹریوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ انھیں ایک مشینی کڑھاؤ میں ڈال دیا جاتا ہے، یہ بہت بڑا کڑھاؤ ہوتا ہے اور ایک بوائلر سے منسلک ہوتا ہے۔ ٹائر کے جلنے پر اس سے نکلنے والا فرنس آئل بوائلر سے ہوتا ہوا مائع کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جسے چھوٹے چھوٹے کینٹینرز میں جمع کیا جاتا ہے۔
ٹائر کے جلنے پر نکلنے والافرنس آئل ہی درحقیقت ان فیکٹری مالکان کی جیب بھرنے کے لیے کافی ہے۔ تمام اخراجات، جن میں لیبر، بجلی، ایندھن، عمارت کا کرایہ اور مشینوں کی مرمت شامل ہیں، محض تیل ہی سے پورے ہوجاتے ہیں، جب کہ تاریں اور راکھ کاربوئیڈ خام نفع ہے۔ اس کے علاوہ ٹائر سے لوہے کی تاریں اور تانبے کی باریک لچھا نما تاریں بھی نکلتی ہیں، جن کو بیچ کر پیسے کمائے جاتے ہیں۔ ٹائر کے جلنے کے بعد راکھ بھی بیچی جاتی ہے جو کہ سڑکیں بنانے اور تارکول بچھانے سے پہلے ٹھیکے دار کارپٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ راکھ بیٹری سیل میں بھی استعمال ہوتی ہے اور تعمیراتی کاموں خصوصاً سیمنٹ وغیرہ کو مزید پختہ کرنے کے لیے بھی کام آتی ہے۔ اس کے گاہک ہر وقت دست یاب ہیں اور مانگ ہے کہ روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔
فرنس آئل کی فروخت ہی سے سارے خرچ یکمشت نکل آتے ہیں۔ رہ گئی لوہے کی تاریں، تانبے کے گچھے اور کاربن راکھ تو وہ خالص منافع ہے جو کہ انتہائی پر کشش ہے ترکیب بالکل سادہ سی ہے بوائلر کو لکڑی کے ایندھن کی آگ دی جاتی ہے۔ ٹائروں کو کاٹ کر کڑھاؤ کی نذر کیا جاتا ہے۔ بوائلر میں ٹائر جلنے سے فرنس آئل علیحدہ ہوکر الگ پائپوں میں سے ہوتا ہوا ڈرم میں جمع ہوتا رہتا ہے، جب کہ لوہے اور تانبے کی تاریں بچ جاتی ہیں اور راکھ نیچے جمع ہوتی رہتی ہے۔ اس عمل میں لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آگ کی حدت میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔ آگ بہت تیزی سے ٹائروں کو راکھ میں بدل دیتی ہے۔
لوہے کی تاروں اور گچھوں کی باقاعدہ کوٹ کر ان کا سائز چھوٹا کیا جاتا ہے، جب کہ راکھ کے لیے پلاسٹک اور فائبر کے بنے ہوئے مخصوص پولیتھین تھیلے میں راکھ کو بھر کر باقاعدہ تول کر اکٹھا کرلیا جاتا ہے۔ یہ راکھ فی کلو کے حساب سے فروخت کی جاتی ہے۔ ایسی فیکٹریاں نسبتاً ان جگہوں پر بنائی جاتی ہیں جہاں آبادی کم ہو، مگر فیکٹری سے نکلنے والا دھواں نہ صرف ماحول کو انتہائی آلودہ کرتا ہے، بل کہ زہریلے کیمیکلز مثلاً آکسائیڈ،کاربن اور کاربن کے اجزاء ہوا کا حصہ بن کر انسانی و حیوانی تنفس کو شدید متاثر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف امراض مثلاً دمہ، سانس کی دیگر بیماریاں، گلے کی سوزش، جلدی امراض اور آنکھ کے امراض ایسے علاقوں کے گھروں میں مستقل براجمان ہوجاتے ہیں جہاں یہ فیکٹریاں ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ان علاقوں میں جلد کے کینسر کے امکانات خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو عام مزدوروں کی نسبت تین گنا زیادہ تنخواہ پر رکھا جاتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے، وہ اپنی جان کو داؤ پر لگا کر مالکان کے لیے پیسے کماتے ہیں۔ ان کی عمریں ایسی فیکٹریوں میں کام کرنے کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہیں، جہاں کسی بھی قسم کی کوئی احتیاطی تدابیر تو کیا حفاظتی انتظام بھی نہیں ہے۔ ماسک یا کپڑا محض یہی احتیاط کافی سمجھی جاتی ہے۔ فیکٹری سے نکلنے والے فضلے کو جو کہ راکھ ہی کی طرح ہوتا ہے کو بڑی بے دردی سے قریبی آبادیوں اور گندگی کے ڈھیروں کی نذر کر دیا جاتا ہے، جہاں سے یہ کیمیکلز اُڑ اُڑ کر دور دور تک کی آبادیوں کو متاثر کرتے ہیں۔
جن علاقوں میں یہ فیکٹریاں قائم ہیں، وہاں فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک براہ راست اضافے سے ہوا زہریلی رہتی ہے۔ سیاہ بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اپنے جلو میں زہر پاشی کی صلاحیت لیے قریبی آبادیوں پر قہر کی صورت میں نازل ہوتے ہیں اور پیچیدہ بیماریوں کا تحفہ دے کر لوگوں کی سانسوں میں اور ماحول میں جذب ہو جاتے ہیں۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر آکسائیڈز سلفر اور کاربن کے واضح متحرک ذرات کی موجودگی کی وجہ سے انسانی و حیوانی زندگی کو لاحق خطرات کا اندازہ ان زرپرست عناصر کو بالکل نہیں جو کہ اپنے مالی مفادات کے لیے فضا کو بری طرح آلودہ کر رہے ہیں۔
مردہ جانوروں کی انتڑیوں تک سے گھی نکال لینے والے عبقری اب ٹائروں سے تیل نچوڑ رہے ہیں اور حکام ہیں کہ بس! ان زہر اگلتی فیکٹریوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ قدرت کی عطا کردہ فضا کس طرح زہر سے بھری جارہی ہے۔ بھاری بھر کم محکموں اور عہدوں کا بوجھ اٹھائے نااہل اہل کار، جن کا کام ہی عوامی فلاح و بہبود ہے، محض لگژری گاڑیوں اور پروٹوکول کے مزے لے رہے ہیں اور ماحول اور لوگوں کی صحت برباد کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے کر اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہوئے بیٹھے ہیں۔ فضائی اور آبی آلودگی دہشت گردی کی ایک خاموش قسم ہے، جسے ہم پاکستانیوں کو مل کر ہنگامی بنیادوں پر ختم کرنا ہوگا۔
پاکستان قدرتی وسائل جغرافیائی اور افرادی قوت سے مالامال ملک ہے، لیکن ہم نے اپنے قومی وسائل سے حتی المقدور بہت بُرا سلوک کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
قدرت کے خزانوں کو جس طرح بے دردی سے ہم استعمال میں لاتے ہیں شاید دنیا بھر میں ہمارے جیسے چند ہی ممالک ہوں جو ایسی معاشی سوچ اور طرز فکر کے حامل ہوں۔ جنگلات کے حد درجہ کٹاؤ، نئی بستیوں کی تعمیر اخلاقی پستیوں پر بستیوں کی تعمیر، ایندھن کا بے دریغ استعمال اور روز بروز بڑھتی آلودگی یہ وہ عناصر ہیں جن کی بدولت آج موسمی تغیرات اپنے غیرمعمولی رد عمل کا اظہار مختلف صورتوں میں کر رہے ہیں۔ معمول سے زیادہ بارشیں بے موسم اور بے قاعدہ بارشیں، گلیشیئروں کا تیزی سے پگھلنا، درجۂ حرارت میں اچانک غیرمعمولی لیکن بتدریج اضافہ اور ہوا میں نمی کے تناسب میں غیریقینی اُتار چڑھاؤ اپنی جگہ پر پریشان کن ہیں، لیکن یہ ہمارے لیے نہ سوچنے کے کام ہیں اور نہ ہی عمل کرنے کے۔ ہم نے ہر اس کام کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے جس کی تباہ کاریاں اور ذیلی اثرات بہت زیادہ ہوں۔
پیسوں کی لالچ نے رہی سہی اخلاقی اقدار کو بری طرح پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں فضائی اور آبی آلودگی، اوزون لیئر اور کثافت پر جس طرح سنجیدہ گفتگو اور پھر ان کا تدارک ہو رہا ہے، اس کا عشر عشیر عمل بھی ہمارے یہاں نہیں ہورہا۔ آئے دن نامعلوم پراسرار بیماریوں اور معلوم پیچیدہ امراض کا جس طرح ہم شکار ہو رہے ہیں لگتا ہے کہ ہم نے حالات کو بدلنے کی بجائے خود کو حالات کی زد میں رکھنے کا مسلسل اور مصمم ارادہ کرلیا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں قدرتی وسائل سے جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ کسی ذی ہوش سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وسائل کو بربادی کی سمت موڑنے کے بعد اجتماعی قدرتی وسائل کا حق بھی ان بے حس لالچی لوگوں نے چھین لینے کی سعی جاری رکھی ہوئی ہے، جو کہ محض دولت کو اپنا ایمان بنائے بیٹھے ہیں۔ اخلاقی اقدار پر عمل کرنا کجا ان اقدار کے بارے میں سوچنا بھی انھیں گوارا نہیں۔ ہمارے آج کے موضوع کی نوعیت اتنی سنگین ہے کہ سوچ کر ہی ہول اٹھتا ہے، اگر ہم سوچیں تو!
ٹائر جلانے والی فیکٹریاں! جی ہاں ٹائر دنیا بھر میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی کثیرالجہت کثیرالعمل شے ہے۔ ہر طرح سے زندگی کی تیز رفتار ترقی کو مزید بڑھاوا دینے والا پہیا اور اس سے جڑا ربڑ کا ٹائر۔ پاکستان کی صاف شفاف فضا ء کو مسموم کرنے کے قبیح عمل میں مبتلا زرپرست مافیا اب ہمت کی اس سطح پر آ گئی ہے کہ اجتماعی انسانی وسائل پر دیگر انسانوں کے حقوق کو یکسر پامال کرتے ہوئے فضا کو آلودہ کرنے پر تل گیا ہے۔ ٹائر کو جلاکر اپنی گاڑی کو رواں رکھنے کی یہ پست سوچ بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ٹائر جلانا دراصل توانائی کے متبادل ذرائع کی کھوج میں نکلے ہوئے منفی اذہان کی اختراع ہے، جو کہ بڑی تیزی سے پنپ رہی ہے۔ توانائی کے موجود ذرائع سے متوقع آمدن سے مایوس ان لوگوں نے ٹائر جلانے کو ذریعہ آمدن کا بڑا سبب گردانا۔ چناں چہ رحیم یارخان اور گردونواح میں باقاعدہ ٹائر جلانے کی فیکٹریاں ایک کے بعد ایک کھمبیوں کی طرح نمودار ہونے لگی ہیں۔
ٹائر بنیادی طور پر جن اشیاء کا مرکب ہے، ان کا ذکر سُن کر ہی سانس رک جاتی ہے۔ اس میں ربڑ، لوہے کی تاریں اور بسا اوقات تانبے کی باریک جال نما تاریں ہوتی ہیں۔ کٹے پھٹے ٹائروں، خصوصاً اسمگل شدہ ٹائروں، کو ٹکڑوں میں کاٹ کر یا ثابت ہی ملک کے مختلف حصوں مثلاً پشاور اور کوئٹہ سے ٹرکوں اور ٹرالیوں میں بھر کر ان فیکٹریوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ انھیں ایک مشینی کڑھاؤ میں ڈال دیا جاتا ہے، یہ بہت بڑا کڑھاؤ ہوتا ہے اور ایک بوائلر سے منسلک ہوتا ہے۔ ٹائر کے جلنے پر اس سے نکلنے والا فرنس آئل بوائلر سے ہوتا ہوا مائع کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جسے چھوٹے چھوٹے کینٹینرز میں جمع کیا جاتا ہے۔
ٹائر کے جلنے پر نکلنے والافرنس آئل ہی درحقیقت ان فیکٹری مالکان کی جیب بھرنے کے لیے کافی ہے۔ تمام اخراجات، جن میں لیبر، بجلی، ایندھن، عمارت کا کرایہ اور مشینوں کی مرمت شامل ہیں، محض تیل ہی سے پورے ہوجاتے ہیں، جب کہ تاریں اور راکھ کاربوئیڈ خام نفع ہے۔ اس کے علاوہ ٹائر سے لوہے کی تاریں اور تانبے کی باریک لچھا نما تاریں بھی نکلتی ہیں، جن کو بیچ کر پیسے کمائے جاتے ہیں۔ ٹائر کے جلنے کے بعد راکھ بھی بیچی جاتی ہے جو کہ سڑکیں بنانے اور تارکول بچھانے سے پہلے ٹھیکے دار کارپٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ راکھ بیٹری سیل میں بھی استعمال ہوتی ہے اور تعمیراتی کاموں خصوصاً سیمنٹ وغیرہ کو مزید پختہ کرنے کے لیے بھی کام آتی ہے۔ اس کے گاہک ہر وقت دست یاب ہیں اور مانگ ہے کہ روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔
فرنس آئل کی فروخت ہی سے سارے خرچ یکمشت نکل آتے ہیں۔ رہ گئی لوہے کی تاریں، تانبے کے گچھے اور کاربن راکھ تو وہ خالص منافع ہے جو کہ انتہائی پر کشش ہے ترکیب بالکل سادہ سی ہے بوائلر کو لکڑی کے ایندھن کی آگ دی جاتی ہے۔ ٹائروں کو کاٹ کر کڑھاؤ کی نذر کیا جاتا ہے۔ بوائلر میں ٹائر جلنے سے فرنس آئل علیحدہ ہوکر الگ پائپوں میں سے ہوتا ہوا ڈرم میں جمع ہوتا رہتا ہے، جب کہ لوہے اور تانبے کی تاریں بچ جاتی ہیں اور راکھ نیچے جمع ہوتی رہتی ہے۔ اس عمل میں لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آگ کی حدت میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔ آگ بہت تیزی سے ٹائروں کو راکھ میں بدل دیتی ہے۔
لوہے کی تاروں اور گچھوں کی باقاعدہ کوٹ کر ان کا سائز چھوٹا کیا جاتا ہے، جب کہ راکھ کے لیے پلاسٹک اور فائبر کے بنے ہوئے مخصوص پولیتھین تھیلے میں راکھ کو بھر کر باقاعدہ تول کر اکٹھا کرلیا جاتا ہے۔ یہ راکھ فی کلو کے حساب سے فروخت کی جاتی ہے۔ ایسی فیکٹریاں نسبتاً ان جگہوں پر بنائی جاتی ہیں جہاں آبادی کم ہو، مگر فیکٹری سے نکلنے والا دھواں نہ صرف ماحول کو انتہائی آلودہ کرتا ہے، بل کہ زہریلے کیمیکلز مثلاً آکسائیڈ،کاربن اور کاربن کے اجزاء ہوا کا حصہ بن کر انسانی و حیوانی تنفس کو شدید متاثر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف امراض مثلاً دمہ، سانس کی دیگر بیماریاں، گلے کی سوزش، جلدی امراض اور آنکھ کے امراض ایسے علاقوں کے گھروں میں مستقل براجمان ہوجاتے ہیں جہاں یہ فیکٹریاں ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ان علاقوں میں جلد کے کینسر کے امکانات خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو عام مزدوروں کی نسبت تین گنا زیادہ تنخواہ پر رکھا جاتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے، وہ اپنی جان کو داؤ پر لگا کر مالکان کے لیے پیسے کماتے ہیں۔ ان کی عمریں ایسی فیکٹریوں میں کام کرنے کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہیں، جہاں کسی بھی قسم کی کوئی احتیاطی تدابیر تو کیا حفاظتی انتظام بھی نہیں ہے۔ ماسک یا کپڑا محض یہی احتیاط کافی سمجھی جاتی ہے۔ فیکٹری سے نکلنے والے فضلے کو جو کہ راکھ ہی کی طرح ہوتا ہے کو بڑی بے دردی سے قریبی آبادیوں اور گندگی کے ڈھیروں کی نذر کر دیا جاتا ہے، جہاں سے یہ کیمیکلز اُڑ اُڑ کر دور دور تک کی آبادیوں کو متاثر کرتے ہیں۔
جن علاقوں میں یہ فیکٹریاں قائم ہیں، وہاں فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک براہ راست اضافے سے ہوا زہریلی رہتی ہے۔ سیاہ بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اپنے جلو میں زہر پاشی کی صلاحیت لیے قریبی آبادیوں پر قہر کی صورت میں نازل ہوتے ہیں اور پیچیدہ بیماریوں کا تحفہ دے کر لوگوں کی سانسوں میں اور ماحول میں جذب ہو جاتے ہیں۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر آکسائیڈز سلفر اور کاربن کے واضح متحرک ذرات کی موجودگی کی وجہ سے انسانی و حیوانی زندگی کو لاحق خطرات کا اندازہ ان زرپرست عناصر کو بالکل نہیں جو کہ اپنے مالی مفادات کے لیے فضا کو بری طرح آلودہ کر رہے ہیں۔
مردہ جانوروں کی انتڑیوں تک سے گھی نکال لینے والے عبقری اب ٹائروں سے تیل نچوڑ رہے ہیں اور حکام ہیں کہ بس! ان زہر اگلتی فیکٹریوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ قدرت کی عطا کردہ فضا کس طرح زہر سے بھری جارہی ہے۔ بھاری بھر کم محکموں اور عہدوں کا بوجھ اٹھائے نااہل اہل کار، جن کا کام ہی عوامی فلاح و بہبود ہے، محض لگژری گاڑیوں اور پروٹوکول کے مزے لے رہے ہیں اور ماحول اور لوگوں کی صحت برباد کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے کر اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہوئے بیٹھے ہیں۔ فضائی اور آبی آلودگی دہشت گردی کی ایک خاموش قسم ہے، جسے ہم پاکستانیوں کو مل کر ہنگامی بنیادوں پر ختم کرنا ہوگا۔