ماضی کے کچھ مناظر

ٹھیک سے کہنا مشکل ہے کہ گزشتہ رات وہ خواب کے مناظر تھے یا میرا تخیل

h.sethi@hotmail.com

ٹھیک سے کہنا مشکل ہے کہ گزشتہ رات وہ خواب کے مناظر تھے یا میرا تخیل جس میں ماضی کی چند یادیں جو فلم نما تصویریں بن کر میرے ذہن کی اسکرین پر یکے بعد دیگرے جلوہ نما ہو کر بنتی، مٹتی اور چلتی رہیں جنھیں میں اب بیٹھا قلم لے کر کاغذ پر اتارنے جا رہا ہوں۔ یہ بے ترتیب مناظر البتہ مبنی بر حقیقت ہیں اور اب وہ مناظر مختصراً بصورت تحریر میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔

گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر چوہدری اختر سعید بڑے دبنگ افسر تھے۔ وزیر اعظم جناب زیڈ اے بھٹو نے گوجرانوالہ آنا تھا۔ مجھے بلا کر ڈی سی صاحب نے کہا وزیراعظم شام کو آئینگے لیکن ڈی جی FSF مسعود محمود صاحب صبح آ کر کینال ریسٹ ہاؤس کے کمرے میں اشنان اور آرام کرنے کے بعد اس پنڈال میں جائینگے جہاں بھٹو صاحب معززین شہر سے خطاب کرینگے اس لیے تم جا کر چیک کر لو بیڈ روم ٹھیک ہے، باتھ روم میں بالٹی ڈبہ، ٹوتھ پیسٹ، برش، صابن، تیل تولیہ اعلیٰ کوالٹی موجود ہیں اور صفائی معقول ہے۔ میں نے تحصیلدار کو حکم دیا جس نے آدھے گھنٹے بعد سب اچھا کی رپورٹ دے دی۔

ڈپٹی کمشنر نے مجھے دوبارہ بلا کر پوچھا کہ تم نے مسعود محمود کے کمرے کا معائنہ کر لیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ تحصیلدار نے OK رپورٹ دی ہے۔ اس پر اختر سعید سیخ پا ہو کر بولے میں نے تمہیں خود جا کر کمرہ اور باتھ روم چیک کرنے کا بولا تھا تم ابھی جاؤ اور خود چیک کر کے رپورٹ دو۔ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور کہا ''سر مجھے معلوم ہے مسعود محمود نے چند روز قبل ڈپٹی کمشنر ملتان سے ناراض ہو کر اسے تھپڑ مارا تھا۔'' اس پر میرے ڈی سی صاحب کا پارہ مزید چڑھ گیا اور وہ بولے ''میں عظمت اللہ نہیں ہوں۔'' بھٹو صاحب کے دورے کے پیش نظر میں نے بات بڑھانی مناسب نہ سمجھی اور ریسٹ ہاؤس کا تیل تولیہ چیک کرنے چلا گیا۔

ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے کمیٹی روم میں ماہانہ پولیس مجسٹریسی میٹنگ ہو رہی تھی، ڈی سی صاحب بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صدارت کر رہے تھے۔ ایس پی اور ڈی ایس پی صاحبان کے علاوہ اسسٹنٹ کمشنرز اور مجسٹریٹ بھی موجود تھے۔ یہ ان بھلے وقتوں کا ذکر ہے جب قتل کے کیس بھی پہلے ایک نامزد سینئر مجسٹریٹ کے پاس بطور Commitment Magistrate ٹرائل کے لیے پیش ہوتے تھے اور مثبت شہادتیں ہونے کی بناء پر کیس سیشن سپرد کر دیا جاتا تھا۔ میٹنگ کے دوران ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ حاجی محمد اکرام صاحب نے اچانک کہا کہ مجسٹریٹ صاحبان اپنے اسٹاف پر نظر رکھیں ان کے ریڈرز کے بارے میں شکایات آ رہی ہیں کہ وہ رشوت لے کر ملزموں یا مدعیان کی خواہش کے مطابق مقدموں کے التوا کی تاریخ دیتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے پوچھا ''سر کیا اس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ریڈر بھی شامل ہے۔'' حاجی اکرم صاحب نے قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن چپ رہ کر میرا سوال پی گئے البتہ ان کی آبزرویشن صحیح تھی اور یہ آج بھی ہر عدالتی سطح پر لاگو ہوتی ہے کیا چھوٹی اور کیا بڑی عدالت۔


ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت وزیر اعظم بہت سی انڈسٹریز اور ادارے نیشنلائز کر لیے۔ اس پروسیس کی زد میں بعض سیاسی مخالفین اور دوست بھی آ گئے۔ سندھ کے سومرو خاندان کی انڈسٹری بھی اس میں شامل تھی۔ بعد میں معافی تلافی ہوئی اور ان کی انڈسٹری کی واپسی کا حکم ہوا۔ میں اس وقت کیبنٹ ڈویژن میں تھا اور فائل میری میز پر آ گئی۔ ابھی میں نے اس پر عملدرآمد شروع کیا ہی تھا کہ اسی روز مولا بخش سومرو میرے پاس تشریف لے آئے اور واپسی احکام مانگے۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے اس کام میں چند گھنٹے لگیں گے۔ وہ بولے کہ وہ آرڈر لے کر ہی جائینگے۔ میں نے کہا دو تین گھنٹے بعد آ جائیں۔ کہنے لگے وہ میرے کمرے ہی میں بیٹھ کر انتظار کریں گے۔ اس دوران اخبار پڑھیں گے اور چائے پئیں گے۔ میں نے اخبار اور چائے کا انتظام کر دیا۔ میں ڈرافٹ تیار کرنے اور منظوری لینے میں لگ گیا، باتیں بھی ہوتی رہیں۔ حکم نامہ انھیں دیتے ہوئے میں نے کہا کہ سنا ہے کہ آپ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ انھوں نے جواب دیا ''وہ تو میں آج بھی ہوں۔''

ایک معروف بزنس مین میرے دفتر میں تشریف لائے۔ ایک پلاٹ نمبر بتا کر مجھ سے مدد چاہی کہ وہ اس الاٹڈ پلاٹ کو خرید کر اس پر مکان بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں لہٰذا میں اس کی فائل منگوا کر ان کی تسلی کروا دوں کہ اس میں کوئی سقم تو نہیں۔ میں نے متعلقہ ڈائریکٹوریٹ سے فائل منگوائی۔ فائل میں پہلا صفحہ چیف منسٹر کے نام درخواست تھی کہ سائل غریب اور بے گھر آدمی ہے۔ بچوں کے سر پر چھت نہیں۔ اگر اسے گارڈن ٹاؤن میں دو کنال کا پلاٹ الاٹ کر دیا جائے تو بیوی بچوں کے لیے مکان بنا لے گا اور دعا دے گا۔ دو ہی دن میں چیف منسٹر اسے گارڈن ٹاؤن میں دو کنال کا پلاٹ ریزرو قیمت پر الاٹ کر دیتے ہیں۔ وہ شخص اس کا نقشہ پاس کروا کے پندرہ بیس دن میں مکان کی تکمیل کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کے ایک مہینے کے اندر اس کی اپنے نام رجسٹری کروا لیتا ہے۔

میں نے اس بزنس مین دوست سے کہا کہ پلاٹ کے الاٹی نے اسے ریزرو قیمت پر حاصل کیا ہے اور اب وہ اپنے بچوں کو چھت دینے کی بجائے پلاٹ مارکیٹ پرائس پر آپ کو فروخت کر کے ایک مہینے میں ناجائز کمائی کر رہا ہے۔ وہ ہوشیار آدمی ہے کیونکہ اس نے مکان کی رجسٹری تک کرا لی ہے اس لیے آپ بے خطر پلاٹ خرید لو جس پر صرف ایک کچے کمرے کی کوٹھی بنی ہے۔ میرے پاس بیٹھے ایک وکیل نے پوری بات سنی تھی۔ وہ بولا کہ میں الاٹی کو جانتا ہوں وہ ایک کروڑ پتی بزنس مین ہے۔ فائل لانے والے کلرک نے کہا ''سر یہ چھٹے کا پلاٹ ہے۔'' پوچھا وہ کیا ہوتا ہے۔ کہنے لگا جس طرح کسان کھیت میں بیج بونے کے لیے انھیں مٹھی میں بھر کر کھیت میں پھینکتا ہے اور اسے ''چھٹے کی بجائی'' کہتے ہیں، بہت سے پلاٹ بھی CM صاحب نے مصاحبوں کو ایسی ہی فراخدلی سے الاٹ کیے ہیں۔

صدر جنرل ضیاء الحق ملٹری کالج سرائے عالمگیر آئے، فنکشن اختتام پذیر ہوا تو ضیاء الحق ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ سول اور آرمی افسران بھی پیچھے پیچھے چلے۔ صدر صاحب ہیلی کاپٹر میں سوار ہو گئے تو ہیلی کاپٹر کے پنکھوں نے گردش شروع کی۔ پنکھوں نے گھومنا شروع کرتے ہی دھول اڑانا شروع ہو گئی اور ہم دوڑے۔ ہمارے ساتھ ڈپٹی کمشنر گجرات عظمت اللہ خاں اور DMLA جنرل صغیر حسین شاہ بھی تھے۔ ان کی موٹرکار نزیک تھی۔ ہم اسی میں گھس گئے۔ پنکھوں کی ہوا سے لوگوں پر گرد بھی پڑی اور ان کے بدن کے کپڑے بھی اڑنے لگے۔ جنرل صغیر حسین یہ دیکھ کر ہنسے اور بولے ''ایک بار جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ ہیلی کاپٹر پر ایک دیہی علاقے میں گیا۔ بہت سے دیہاتی لینڈ کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کو دیکھنے گرد اور تیز ہوا کی زد میں آ گئے۔ ان کے کپڑنے اڑنے لگے۔ اکثر نے دھوتیاں پہن رکھی تھیں وہ بھی بے قابو ہو کر اوپر کو اٹھنے لگیں۔ جنرل ضیاء الحق شیشے میں سے یہ نظارہ دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں بھی نیچے اسی طرف دیکھ رہا تھا۔ ضیاء صاحب مجھے اسی طرف دیکھتا پا کر نظریں چار ہونے پر جھینپ سے گئے تو میں نے کہا Sir, they are not doing so intentionally it is due to wind۔
Load Next Story