اُس کا بیٹا آزاد ہوگیا

ہمارے معاشرے کے اندر موجود برائیاں اتنی جڑ پکڑ چکی ہیں کہ وہ کسی بہت بڑے آپریشن کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی


انیس منصوری August 16, 2015
[email protected]

یہ لوگ کبھی نہیں ٹھیک ہو سکتے۔اس ملک میں جمہوریت کا جھنڈا لگا کر حکومت کرنے والے ہوں یا پھر آمروں کی بادشاہت ہو۔ نا انھیں سدھرنا ہے اور نا ہی یہ کبھی ٹھیک راستے پر جانے کی کوشش کرینگے ۔ صاحب اقتدار ہوں یا پھر یہاں کہ لوگ ہوں، یہ ہر سانحے کو انجوائے کرتے ہیں اور پھر اپنی مستی میں مگن ہو جاتے ہیں ۔اس ملک کے قیام سے لے کر آج تک ہونے والے واقعات پر غور کیجیے آپ کو محسوس ہو گا کہ کوئی بھی سانحہ یہاں نیا نہیں ہے ۔ یہ جو کرپشن کا راگ بجتا ہے یہ کیا نیا ہے؟ آپ خود مجھے بتا دیں کہ اگر میں غلط ہوں تو کیا قائد اعظم کے بعد یہاں جو ہر مہینے ہمارے حکمران بدلتے تھے اُن پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات نہیں تھے ؟ یہ جو سیاسی پنڈت بنے بیٹھیں ہیں ان سے پوچھ لیجیے کہ یہ لوگ مختلف فرقوں ، لسانی اکائیوں اور اپنے مخالفین کے سر تن سے جدا کرنے میں شامل نہیں رہے ؟ اور یہ عوام جو خود کو معصوم اور مظلوم ثابت کرتی رہتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ تو دودھ میں نہائیں ہوئے ہیں،یہ کیا سب فرشتے ہیں ۔؟

ہمارے معاشرے کے اندر موجود برائیاں اتنی جڑ پکڑ چکی ہیں کہ وہ کسی بہت بڑے آپریشن کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی۔ کراچی میںاتنے لوگ دہشت گردی سے نہیں مرے جتنے لوگ ٹریفک حادثے میں مر جاتے ہیں۔ اس کی ذمے دار حکومت ہے یا ہم لوگ ہیں ؟ ہماری سرحدوں پر دشمن کی فائرنگ سے اتنے لوگ شہید نہیں ہوئے جتنے لوگ پنجاب میں ذاتی دشمنیوں پر قتل ہو چکے ہیں ۔خیبر پختوانخوا میں اتنے بم دھماکے نہیں ہوئے جتنے بچے ہمارے یہاں ہوس کے پجاریوں کا نشانہ بنے ہیں ۔لیکن میں نے اور آپ نے آج تک کیا سیکھا ہے ۔ اور ہم نے اپنے معاشرے کے ناسوروں کو ختم کرنے کے لیے کون سا حقیقی کردار ادا کیا ہے؟

بہت شور مچا رہا ، بہت لوگوں نے بددعا دی ، بہت سے چینلز نے معرکہ سر کر لیا ، ہر ایک یہ دعوی کرتا رہا کہ اُس نے حکومت کو جگا کر یا ہلا کر رکھ دیا ۔ تین دن تک ہر چینل قصور سانحے پر پل پل کی خبر دینے کا اعزاز حاصل کر رہا تھا ۔ لیکن جیسے ہی متحدہ کے استعفے میدان میں آئے ایسا لگا کہ جیسے پاکستان کا مسئلہ اب قصور نہیں ہے ۔ یوں لگا کہ جیسے قصور کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے ۔ جس وقت پورے ملک کے کیمروں کی نگاہیں قصور میں پھنسی ہوئی تھی اُسی وقت ایک اور جگہ ہمارے چہرے کو مزید کالا کرنے کی رسم نبھائی جارہی تھی ۔ یہاں ہر روز ماتم ہوتا ہے اور روز ایک دکھ بھری کہانی لکھی جاتی ہے لیکن جس کے دل پر گزرتی ہے وہی اسے عمر بھر کے لیے سینے سے لگائے رکھتا ہے ۔ اور جس کو ہر روز ایک نئی خبر کا تڑکا چاہیے ہوتا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ کل کی رات کتنی خطرناک تھی۔ مگر کوئی پوچھے ملک اقبال سے جس نے دوزخ جیسی دو راتیں کیسے گزاری ہے ۔

ملک اقبال شاید اتنا طاقت ور نہیں کہ اُس کی خبر جگہ پا سکے اور نہ ہی وہ کسی کا رشتہ دار ہے کہ سارے تھانیدار صبح اور شام اُس کے گھر کے چکر کاٹیں ۔ جب قصور والا واقعہ ہر وقت کی خبر تھا عین اُسی روز 10 اگست کو ملک اقبال کے بیٹے کو اغواء کر لیا گیا ۔ 14 سال کا نوجوان بیٹا ، جس نے ابھی ابھی اپنی نوجوانی میں قدم رکھا تھا ۔ ایک دم غائب ہو گیا ۔ رات دیر تک جب وہ گھر نہیں آیا تو سب کو تشویش ہونے لگی ۔ ہر جگہ اُس کی کھوج میں لوگ دوڑنے لگے لیکن اُس کا کوئی پتہ نا چلا ۔ ملک اقبال ، کراچی ، لاہور یا پھر کسی بڑے شہر کا باسی نہیں تھا جہاں لوگ ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے بہت فاصلے رکھتے ہوں۔ یہ بات رحیم یار خان سے 60کلو میٹر دور خان پور تحصیل کی ہے ۔ جہاں زندگی بہت آہستہ آہستہ چلتی ہے اور شہروں جیسے ہنگامے بھی نہیںہوتے۔ جہاں رہنے والے باسی ایک دوسرے کو صدیوں سے جانتے ہیں ۔ ایسے میں بیٹے کا غائب ہو جانا خطرے کی گھنٹی تھا ۔ بہت تلاش کے بعد جب ہیڈ تالے والا چیک پوسٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو حسب معمول پولیس نے انھیں ٹہلا دیا۔ کہا یہی ہو گا آجائے گا ۔ گھر والوں نے کہا کہ ہم نے سب جگہ ڈھونڈ لیا وہ نہیں ہے۔ تو پولیس نے کہا کہ دوستوں کے ساتھ گیا ہو گا ۔ گھر والوں نے کہا کہ تمام دوستوں کو چیک کر لیا سب اپنے اپنے گھروں میں ہیں وہ کسی کے ساتھ نہیں گیا۔

لاکھ بحث کے بعد بھی پولیس نے نہ تو کیس رجسٹرڈ کیا اور نہ ہی اُن کی مدد کی ۔ اب بیچاروں کی اتنی پہنچ تو ہے نہیں کہ سیکڑوں کلو میٹر کا سفر کر کے خادم اعلی کی خدمت میں حاضری دیں ۔ دو راتیں ایسے ہی گزر گئی ۔ ماں کے دل پر قیامت گزر چکی تھی اور بیٹے کا کوئی علم نہیں تھا ۔اگر ہمارے طاقت ور لوگوں کے بچوں کو دودھ نا ملے تو جہاز اڑ کر آجاتا ہے لیکن اس ملک میں غریب کا تو بس ایک خدا ہے۔ دو دن بعد ملزمان ملک اقبال کے بیٹے کو گھر کے باہر پھینک کر چلے گئے ۔ بیٹے کی طبیعت انتہائی خراب تھی اُسے اسپتال منتقل کیا گیا ۔ بیٹا ہوش میں آیا تو اُس نے بتایا کہ ملزمان اُسے اغواء کر کے لے گئے تھے۔ دو دن تک وہ اُس پر تشدد کرتے رہے اور نشہ آور چیزیں پلاتے رہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ایک نوجوان کو دو دن تک جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ملک اقبال کے بیٹے نے بتایا کہ اُسے بری طرح ریپ کیا گیا۔ اسپتال کی رپورٹ سب کچھ واضح کر رہی تھی اور اُس کے بیان کو ثابت کر رہی تھی ۔ لیکن پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی ۔ بیٹا مکمل طور پر ٹراما میں جاچکا تھا ۔ باپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر ایک بار پھر تھانے گیا لیکن اُس کی بات نہیں سنی گئی ۔ بیٹا اس حادثے کے بعد اپنے ہواس کھو بیٹھا تھا ۔ ایسے میں پولیس نے ملک اقبال سے کہا کہ اپنے بیٹے کو تھانے میں لے کر آؤ اُس کے بعد مقدمہ درج ہوگا۔ مجبور باپ اپنے بیٹے کو لے کر تھانے آتا ہے۔

ایسا بیٹا جو جسمانی اور روحانی طور پر زخمی تھا ۔ پولیس اُس کی بات سُننے کے بعد مقدمہ درج نہیں کرتی بلکہ الٹا اُس سے سوال پوچھتی ہے کہ کہیں تم اپنی مرضی سے تو جسم فروشی کا کاروبار نہیں کرتے ۔ آپ خود بتائیں اُس بیٹے اور باپ پر کیا گزری ہو گئی ؟ ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ اُس کی جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے ؟ یقینا آپ اُس کا منہ نوچ لیتے ۔لیکن یہ تو غریب لوگ ہیں ۔ یہ تو اصل پاکستان ہے ۔ ایک مجبور اور لاچار باپ اور اُس کا بیٹا۔ دو دن وہ ظالموں کے نرغے میں رہا جس نے اُس کے جسم کو نوچ لیا اور پھر دو دن وہ ہمارے معاشرے کے ناسوروں کے ہاتھ میں رہا جو وہ برداشت نہ کر سکا ۔اور جمعہ کے دن یعنی ہماری آزادی کے دن 14 اگست کو اُس نے دنیا سے آزاد ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔جب مال بردار ٹرین وہاں سے گزری تو اُس نے پٹری پر کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھا اور دنیا کو شرمندہ کر کے خود اس دنیا سے چلا گیا۔

چار دن میں اُس کی زندگی ختم ہو گئی ۔ رشتہ داروں نے لاش کو رکھ کر دو گھنٹے تک رحیم یار خان بہاولپور روڈ کو بند رکھا تو پولیس کے افسران جاگے ۔ پولیس اس قتل کے بعد بھی مقدمہ درج کرنے کے لیے 50 ہزار روپے مانگ رہی تھی۔ سُنا ہے کہ پولیس افسران نے ایک اہلکار کو معطل کر دیا ہے ۔ لیکن آپ خود سوچیں کہ جس ریپ کا چرچہ ہم قصور سانحے سے کر رہے تھے کیا وہ رک گیا ؟ دلی ریپ کیس کے بعد انڈیا میں قانون سازی ہو گئی لیکن ہم ایک مقدمہ درج کرنے کے لیے لاش گرنے کا انتظار کرتے ہیں ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ملک اقبال اپنے بیٹے کی جان دینے کے بعد یہ سوچ رہا ہو گا کہ اچھا ہوا وہ اُس دنیا سے آزاد ہو گیا ورنہ یہ ظالم دنیا اُسے کیسے جینے دیتی ۔ خیر آپ کیوں دل پر لیتے ہیں یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا وہ ہی سازش ، وہ ہی ریپ اور وہی 10 روپے کی دوا نا ملنے پر ماں کی موت۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں