اردو ہماری شناخت اور ثقافت کی امین …

’قومی زبان کے ذریعے قوم کا ہر فرد اپنی آواز ساری قوم تک پہنچا سکتا ہے، بابائے اردو


صابر عدنانی August 16, 2015

قائداعظم محمدعلی جناح کی خواہش نے جس طرح واضح طور پر بطور قومی زبان ''اردو'' کے نفاذ کا اظہار کیا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد ہی تمام بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کو اپنے خطاب سے دفن کردیا تھا، اسی طرح علامہ اقبال کی فکر نے برصغیر کے مسلمانوں میں اپنی اردو شاعری کے ذریعے جو انقلابی پیغام دیا، اُس نے اس ملت کو بیدار کرنے میں ایک اہم تحریک کا کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال کی ''علم الاقتصاد'' 1903 میں شایع ہوئی جو اقتصادیات پر اردو میں پہلی کتاب تھی۔ علامہ اقبال کی فکر تو یہی تھی کہ ملتِ اسلامیہ اور برصغیر کے لوگوں میں اردو کے نفاذ کے لیے تحریک شروع کریں۔ بلاشبہ علامہ اقبال انگریزی اور فارسی میں مہارت رکھتے تھے اور آپ چاہتے تو انگریزی میں یہ کتاب لکھ سکتے تھے مگر اردو میں لکھنا اس لیے ضروری سمجھا کہ عوام الناس اس سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب اپنی اہمیت اور اولیت کی وجہ سے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔

بابائے اردو کی اردو کے نفاذ کے لیے جو خدمات ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اپنے خطبہ صدارت پنجاب یونیورسٹی اردو کانفرنس، لاہور میں فرماتے ہیں کہ ''قومی زبان کے ذریعے قوم کا ہر فرد اپنی آواز ساری قوم تک پہنچا سکتا ہے۔ مقامی بولی میں یہ قوت اور دم کہاں۔ قومی زبان پوری قوم کے خصائص اور اس کی روایت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ مقامی بولی صرف ایک جزکی نمائندگی کرتی ہے اور بس۔ قومی زبان قوم کے شیرازے کو مضبوط کرتی ہے اور اُسے منتشر ہونے سے بچاتی ہے اور قومیت کے ولولے کو زندہ اور تازہ رکھتی ہے۔'' اسی طرح خطبۂ صدارت شعبہ اردو ہندوستانی اکیڈمی 1936 میں بابائے اردونے کہا کہ ''زبان کا کوئی رنگ روپ (وزن) نہیں۔ اس کی کوئی ذات نہیں۔ اس کی کوئی قومیت نہیں۔ اس کا کوئی مذہب اور وطن نہیں، جو اسے بولے، لکھے، پڑھے اور استعمال کرے گا، اسی کی وہ زبان ہوگی۔'' انھوں نے اردو کی لڑائی ہر سطح پر لڑی۔ اس کی تفصیل بابائے اردو کی کتاب ''پاکستان میں اردو کا المیہ'' نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

عدالت عالیہ، وزیراعظم پاکستان اور صدرمملکت نے بابائے اردو کے اس خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنا کرملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اہم فیصلہ کیا اور اردو کے فوری نفاذ کی بابت اہم فیصلے کیے۔ جن میں وزیراعظم اور وفاقی وزرا اردو میں تقاریر کریں گے، سائن بورڈ اور یوٹیلٹی بلوں پر اردو زبان میں ہدایات جاری کی جائیں گی۔ مقابلے کے امتحانات اور این ٹی ایس ٹیسٹ بھی اردو میں لیے جانے کی ہدایات ہیں۔ پورے ملک کے اسکول، کالج میں اردو زبان اور ایک نصاب تعلیم کی بھی سفارش ہے۔ تمام وزارتوں، سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں اردو میں کام شروع کرنے کی ہدایت کہ ساتھ ساتھ سرکاری پالیسیوں کا ترجمہ بھی اردو زبان میں کیے جانے کو عملی طور پر نافذالعمل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ تمام فارمز، پاسپورٹ، انکم ٹیکس، اے جی پی آر، واپڈا اور جتنے قومی، سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہیں انھیں کہا گیا ہے کہ عملی طور پر اردو کو اپنے اداروں میں رائج کریں۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات میں بھی اردو میں تقاریر اور بیرون ملک وفود سے ملاقات میں بھی اردو کو اختیار کیا جائے۔ واقعی یہ عملی اقدامات انتہائی مستحسن ہیں، جن پر عمل کرنے سے یقیناً ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت اختیار کرسکیں گے۔

اٹھانوے فیصد پاکستانی علاقائی یا لسانی عصبیت سے بالاتر ہوکر قومی دھارے میں آنے کے لیے اور ایک لڑی میں پروئے رہنے کے لیے ''اردو'' کے نفاذ میں اہم کردار ادا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا عدالت عالیہ اور اعلیٰ اربابِ اختیار کا تعلق ہے تو انھوں نے اس اہم قومی فریضے کو ترجیحی بنیاد پر حل کردیا ہے۔ اب عوام الناس کا فرض ہے کہ اس کے لیے خود سے کوششیں کریں اور اردو کے نفاذ کی تحریک میں عدلیہ اور حکومت کا ساتھ دیں تاکہ ان مشکل معاملات کو بخیروخوبی نمٹا کر ہم دنیا کی ان قوموں کی صفوں میں کھڑے ہوسکیں جہاں ''قومی زبان'' کو فخریہ اختیار کیا جاتا ہے۔

1906 میں جب مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس تحریک کو جو قوت ملی وہ صرف اور صرف اردو ہی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اردو نے پورے برصغیر میں ایک نظریاتی جنگ لڑتے ہوئے اپنی قوت کے ذریعے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو یکجا کردیا۔ جو لوگ انگریزی سے نابلد تھے انھوں نے اردو کے پیغام سے ایسی قوت حاصل کی جو ان کے اندر آزادی کی لہر پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی اور ایک آزاد مملکت کی صورت میں سامنے آئی۔ بلاشبہ اب پاکستان کے قیام کو 68برس ہوچکے ہیں مگر اب تک اردو کے نفاذ کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا تھا مگر حکومت وقت نے دیرسے ہی سہی مگر خوش آئند اقدام اٹھایا ہے اور اس اہم فیصلے پر عدالت عالیہ اور حکومت پاکستان مبارک باد کی مستحق ہیں۔

حیدرآباد دکن کے نواب میر عثمان علی خان نے آج سے تقریباً 97 سال قبل 1918 میں جامعہ عثمانیہ قائم کی، اس جامعہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بنیادی تعلیم اردو میں دی جاتی تھی جب کہ ثانوی طور پر انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ اس ادارے کے شعبے تصنیف وتالیف و ترجمہ نے آج سے برسوں قبل ہی اردو میں جدید تعلیم کا انتظام کردیا تھا، جو سائنس، طب، قانون، عمرانیات وغیرہ پر مبنی تھیں۔ موجودہ دور میں وفاقی جامعہ اردو نے بھی اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے درسی کتب کے تراجم شایع کیے ہیں جن میں سائنس، طب، حیوانیات، عمرانیات، ارضیات وغیرہ شامل ہیں۔ اب ہمارے ملک کے تمام اداروں کا فرض ہے کہ وہ اردو کی ترقی کے لیے عملی کردار ادا کرتے ہوئے اس کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں