یہ ستم آخر کب تلک
سرکاری عمارتوں پر سرکاری خرچ پر چراغاں کیا گیا۔
گئے جمعہ کو پاکستانیوں نے اپنے گھروں اور گاڑیوں پر جھنڈے اور جھنڈیاں لہرا کر جشن آزادی منایا۔ سرکاری عمارتوں پر سرکاری خرچ پر چراغاں کیا گیا۔ مجاز اتھارٹیز نے اس بہانے ایک کے دس بنائے۔ لیکن بقول شخصے نہ جھنڈے لہرانے والوں کو آزادی کے مفہوم کی آگہی تھی اور نہ ریاستی مقتدرہ کو سرکاری عمارتوں پر چراغاں کے نام پر لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے خوردبرد کیے جانے پر کوئی ملال تھا۔ جشن منانا کوئی بری بات نہیں، لیکن جب تک آزادی کا تصور واضح نہ ہو، جشن منانے یا نہ منانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک سمت کا تعین نہ ہو، آزادی بے معنی ہوتی ہے۔ جب مستقبل کے اہداف متعین نہ ہوں، سارا جشن ایک ڈھکوسلہ لگتا ہے۔
اگر ہماری قیادتوں میں ویژن ہوتا تو اولین ترجیح تعلیم ہوتی۔ کیونکہ تعلیم ہی جدید دنیا کا وہ ہتھیار ہے، جس کی مدد سے ستاروں پر کمند ڈالی جاسکتی ہے، دنیا کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اپنے عوام کو خوشحالی دی جاسکتی ہے۔ اگر 68 برسوں میں تعلیم کو بنیادی ہدف اور ترجیح بنالیا گیا ہوتا، تو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج یہ ملک ترقی کی دوسری نہیں تو تیسری سیڑھی پر ضرور ہوتا۔ مگر افسوس ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں دانشور منافق اور کوتاہ بین ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے کے بجائے گِدھوں کی طرح اقتدار کی بوٹیاں نوچنے میں مصروف رہتی ہیں۔ انتظامی ادارے کرپٹ، بدعنوان اور نااہل ہیں۔ علما عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے انھیں تقسیم در تقسیم کرنے کا باعث بنے ہوئے ہوں۔ ایسی صورتحال میں عوام کی حالتِ زار میں کسی بہتری کی تو قع تو دور کی بات، قصور جیسے اندوہناک واقعات ہمارا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔
ملائیشیا ہم سے ٹھیک 10 برس بعد 31 اگست 1957 کو آزاد ہوا۔ تن رزاق کے دور میں کئی اہم فیصلے ہوئے، جن میں سنگارپور کو آزادی دینے کے علاوہ تعلیم کو ملکی استحکام کی کلید قرار دیا جانا شامل تھا۔ 1990 میں سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے ویژن 2020 کے عنوان سے ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ آج ملائیشیا کا شمار ایشیا کی ترقی کرتی معیشتوں میں ہوتا ہے، جب کہ دنیا کی مستحکم معیشتوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ ملائیشیا میں تعلیم کی شرح 96.5 فیصد ہے۔ انڈونیشیا اس وقت ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ 1998 میں سوہارتو کی 42 سالہ آمریت کے خاتمہ کے بعد منتخب جمہوری حکومت نے اولین ترجیح تعلیم کو دی۔ منتخب حکومتوں کے اقدامات کے باعث نہ صرف انڈونیشیا میں شرح خواندگی میں تیز رفتار اضافہ ہوا، بلکہ ہر شعبہ حیات میں ترقی کی نمایاں مثالیں قائم کیں۔
بھارت صرف ہمارا پڑوسی نہیں بلکہ اس کے ساتھ 7 سو برس کا سماجی اور ثقافتی تعلق بھی ہے۔ ہم نے کئی صدیاں ایک ساتھ گزاری ہیں۔ ان کے کئی مقدس مقامات ہماری دھرتی پر ہیں، جب کہ ہماری ان گنت خانقاہیں، مزارات اور فقیدالمثال عمارتیں ان کی دھرتی پر ہیں۔ جب تقسیم ہوئی، تو زیادہ تر وسائل ان کے حصہ میں آئے۔ صنعتی انفرااسٹرکچر بھی وہیں رہ گیا۔ مگر اس کے باوجود تقسیم کے پہلے 20 برس ہم ترقی میں ان سے آگے تھے۔ ہماری کرنسی کی قدر ان کی کرنسی سے زیادہ تھی۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ ہم فکری نرگسیت میں مبتلا ہوکر ایڈونچرازم کا شکار ہوگئے۔ ہم نے تعلیم کو اولین ترجیح بنانا تو دور کی بات، اسے تباہی کے دہانے تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ جب کہ انھوں نے تعلیم کو نامساعد حالات کے باوجود اپنی اولین ترجیحات کا حصہ بنایا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ 1965 وہ سال ہے، جہاں سے ہماری تنزلی اور ان کی ترقی کا سفر شروع ہوا۔
آج پاکستان میں چار مختلف تعلیمی نظام چل رہے ہیں۔ ایک طرف مدارس کا نظام ہے، جہاں ملا نظام الدین کا ترتیب دیا ساڑھے تین سو برس پرانا نصاب پڑھایا جارہا ہے۔ لیکن ان مدارس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ مذہب کے بجائے مسلکی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مسلکی عصبیتیں گہری ہوکر متشدد شکل اختیار کررہی ہیں۔ دوسرا نقص یہ سامنے آتا ہے کہ ان مدارس کے فارغ التحصیل نوجوان سوائے مسجد ومدرسہ کسی اور شعبہ کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہورہے۔ دوسری قسم سرکاری تعلیمی اداروں کی ہے، جہاں ملک کی آبادی کے سب سے بڑے حصہ کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان کبھی اس ملک کے منصوبہ ساز ہوا کرتے تھے۔ مگر حکمران اشرافیہ کی منظم سازشوں نے ان اداروں کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا۔ ان اداروں کی تباہی میں سیاسی جماعتوں کے منافقانہ کردار اور بیوروکریسی کی کرپشن، بدعنوانی اور نااہلی کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سرکاری تعلیمی اداروں کو دانستہ نقصان پہنچاکر انھیں صرف بابو پیدا کرنے تک محدود کردیا گیا ہے۔
تیسرا نظام ان نام نہاد انگریزی میڈیم نجی تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے، جو اربن مڈل کلاس کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ ان اداروں میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں بچوں کی ذہنی نشوونما کے بجائے صرف انگریزی رواں کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جیسے غلامانہ ذہنیت رکھنے والے معاشروں میں انگریزی پر عبور ہی کو قابلیت کی سند تصور کیا جاتا ہے۔ تیسرے وہ تعلیمی ادارے ہیں، جو کیمبرج سسٹم سے منسلک ہیں اور سنگارپور میں رائج نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں بالائی متوسط طبقہ کے بچے خطیر فیسیں دے کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان بھی انگریزی اور مغرب کی کلچر روایات پر تو خاصا عبور رکھتے ہیں، مگر اپنی دھرتی کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی خدمات کے بارے میں رتی برابر بھی علم نہیں رکھتے۔ میر تقی میر، غالب، اقبال اور فیض سمیت اردو کے دیگر شعرا کے اشعار اجنبیوں کی طرح سنتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ حضرت داتا گنج بخش کی کشف المحجوب اور شیخ سعدیؒ کی حکایات میں حکمت و دانائی کے کیسے کیسے موتی بکھرے ہوئے ہیں؟ انھیں نہیں معلوم کہ شاہ لطیفؒ نے انسانیت کو کیا درس دیا ہے؟ بابا بلھے شاہ اور میاں محمد بخش کے کلام میں کیا گہرائی ہے۔ ہیر وارث شاہ میں درد کے کیا ساز پنہاں ہیں۔
چوتھا نظام ان تعلیمی اداروں کا ہے، جن میں مقتدر اشرافیہ کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جنھیں ان اداروں میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرون ملک جانا ہوتا ہے، تاکہ وہاں سے واپسی پر ملک کی باگ ڈور سنبھالیں۔ یہ خالصتاً اشرافیائی نظام ہے، جو گو کہ انگریز دور میں متعارف کرایا گیا تھا، مگر گزشتہ 40 برس سے یہ نظام جس انداز میں نافذ ہے، وہ طبقاتی تقسیم کی بدترین مثال ہے۔ انگریز نے کبھی ذہین و فطین نوجوانوں کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ICS سمیت خدمات کے دیگر اعلیٰ شعبہ جات میں منتخب ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت سرکاری اسکولوں اور کالجوںکی پڑھی ہوئی ہوتی تھی۔ جوکہ اب ممکن نہیں رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں سے اتر کر ائیر کنڈیشن کلاس روموں میں تعلیم حاصل کرنے والے ان بچوں کو اپنے ملک کی دیہی معاشرت تو دور کی بات اپنے ہی شہر کی غریب بستیوں میں زندگی کی مشکلات کو کھلی آنکھوں دیکھنے اور سمجھنے کی فرصت نہیں ہے۔ لہٰذا غربت، افلاس اور معاشی وسماجی مسائل جیسی اصطلاحات کے بارے میں ان کی معلومات محض کتابی ہوتی ہیں۔
آج ہماری چوتھی نسل جو شیر خوارگی سے بچپن کی وادیوں میں داخل ہورہی ہے، 100 فیصد نہ سہی کم از کم 90 فیصد درسگاہوں میں داخل ہوجانا چاہیے تھی، مگر حکمرانوں کی بے حسی، نااہلی اور غلط منصوبہ بندی کے باعث ہر سال 60 لاکھ بچے ابتدائی درجات میں داخل ہونے سے رہ جاتے ہیں، جو داخل ہوتے ہیں، ان کا نصف ہائی اسکول پہنچنے سے پہلے اسکول چھوڑ جاتی ہے۔ جب کہ کالجوں میں صرف 10-15 فیصد نوجوان پہنچ پاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اس تعداد کا بھی نصف پہنچتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت زار 1980 کے بعد سے بالخصوص انتہائی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ ان اسکولوں میں سفارش اور رشوت کے عوض مقرر کیے گئے اساتذہ میں نہ اہلیت ہے اور نہ کمٹمنٹ۔ یہ بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے وڈیروں کی اوطاق میں خدمات سر انجام دیتے ہیں اور سرکاری خزانے سے مفت کی تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ صرف یہ اساتذہ ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور علاقائی بااثر شخصیات سبھی ذمے دار ہیں، جو تعلیمی اداروں کو برباد کرکے قوم کے مستقبل کے ساتھ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے وہ تمام افسران اور اہلکار بھی مجرم ہیں، جو تعلیم کے فروغ کے لیے مختص رقم میں خوردبرد کرکے تعلیمی اداروں کی ابتری کے عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔