افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات

پاکستان سے ہمارے تعلقات کی بنیاد قومی مفادات پر ہے جس میں شہریوں کی سلامتی اور تحفظ سب سے مقدم ہے۔

www.facebook.com/shah Naqvi

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے ملک میں تشدد کی حالیہ لہر کے بعد پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کو امن کی امید تھی مگر پاکستان سے کابل کو جنگ کے پیغامات آرہے ہیں۔ الزام لگاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں خودکش حملہ آوروں کے تربیتی کیمپس اور بم ساز فیکٹریاں پہلے کی طرح سرگرم ہیں۔ افغان شہریوں کی سلامتی اور تحفظ ہی اسلام آباد سے تعلقات کی بنیاد ہے کہ طالبان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ افغان صدر نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان سے گلہ کیا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی ہمیں توقع تھی حالانکہ اشرف غنی کی بات اس حوالے سے غلط ثابت ہوئی ہے کہ یہ پاکستان ہی ہے جس کی کوششوں سے مری میں افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان سے ہمارے تعلقات کی بنیاد قومی مفادات پر ہے جس میں شہریوں کی سلامتی اور تحفظ سب سے مقدم ہے۔ اگر ہمارے لوگوں کو اسی طرح قتل کیا جاتا رہا تو باہمی تعلقات اپنی معنویت کھودیں گے اور مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ افغان صدر نے طالبان سے دوبارہ مذاکرات کی بحالی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف انھی لوگوں سے مذاکرات کریں گے جو انسانیت مسلمان اور افغان کا مطلب سمجھتے ہوں اور اپنے غیر ملکی آقاؤں کے احکامات پر اپنے ہی ملک کے شہریوں کو قتل نہ کریں۔ اشرف غنی نے الزام لگایا کہ اگر پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے افغانستان میں ہوں تو اسلام آباد کا کیا ردعمل ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے گزشتہ روز پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے بات کی اور انھیں بتایا کہ جیسے وہ دہشت گردی کو اپنے ملک کے لیے دیکھتے ہیں۔ ایسے ہی افغانستان کے لیے بھی دیکھیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان صدر کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کے حوالے سے بدستور پر عزم ہے۔ دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے افغانستان سے مکمل تعاون کریں گے۔ پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی وجہ سے خود بہت زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرچکا ہے۔ پاکستان ان حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ ہم دکھ کی اس گھڑی میں افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ وزیراعظم پاکستان نے مئی کو دورہ کابل کے موقعہ پر کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پاکستان افغانستان سے مکمل تعاون کرے گا۔ امید ہے کہ اس مہینے کے آخر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہوجائے گا۔

ادھر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو متاثر نہیں کریں گے۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ افغان حکومت کی زیر قیادت طالبان سے مفاہمت کا عمل جاری رکھا جائے۔ بات چیت کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے کہ وہ مل کر اپنی سرحدوں کے دونوں اطراف موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کو شکست دینے کا مشترکہ مقصد حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ ترجمان جان کربی نے کہا کہ حالیہ حملوں سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغانستان بدستور ایک خطرناک جگہ ہے اور دوسری یہ کہ طالبان نے تشدد کا استعمال ترک نہیں کیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا حالیہ حملے اس بات کا ثبوت نہیں کہ طالبان میں بھی ایسے حلقے موجود ہیں جو امن مذاکرات کے حامی نہیں۔


ترجمان نے کہا کہ فی الوقت ایسا کہنا مشکل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ چند ہفتے قبل ہونے والی بات چیت میں طالبان کی شرکت ایک حوصلہ افزا نشانی تھی لیکن ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ہم بات کو آگے بڑھتی دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے کامیابی قراردینا قبل از وقت ہوگا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ ان حملوں کے مفاہمتی عمل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے لیکن ہم پر امید ہیں کہ یہ اس عمل کو متاثر نہیں کرے گا۔ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ملک میں تشدد کی حالیہ لہر پر پاکستان پر شدید تنقید کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ اس معاملے پر وزیر خارجہ جان کیری نے افغان صدر سے بات کی ہے جس میں محفوظ پناہ گاہوں اور ان کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کے مل کر کام کرنے کے معاملات زیر بحث آئے۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ابھی مذاکرات کا دوسرا دور ہونا تھا کہ اچانک ملا عمر کی موت کی خبر آگئی۔ ملا عمر ایک طویل عرصے سے منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی ذات افواہوں کا سبب بن گئی۔ اب تصدیق ہوئی ہے کہ ملا عمر دو سال پہلے ہی فوت ہوگئے لیکن ان کی موت کی خبر کو اس لیے چھپایا گیا کہ کہیں افغان طالبان میں پھوٹ نہ پڑجائے۔ نائن الیون کے بعد ملا عمر منظرعام پر نہیں آئے۔ مخالفین تو باتیں بناتے ہی تھے۔ افغان طالبان میں بھی ان کی زندگی کے بارے میں شک و شبہات پیدا ہونے لگے جس کے نتیجے میں وہ داعش میں شامل ہونے لگے۔ داعش افغان طالبان کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ افغانستان میں ایک نیا کھیل شروع ہوگیا ہے۔ ستمبر کے آخر میں داعش کے حوالے سے واشنگٹن میں خصوصی کانفرنس ہورہی ہے۔ چند ماہ پہلے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے یہ حیرت انگیز خبر شایع کی کہ ایران افغان طالبان کی مدد کررہا ہے۔ ملا عمر کی زندگی میں ہی افغان طالبان کے ایران سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں افغان طالبان نے ایران کا ورہ بھی کیا۔

...افغانستان اور بھارت کے حوالے سے اس سال کا آخر احتیاط طلب وہ ہے۔

سیل فون:0346-4527997
Load Next Story