زباں فہمی باورچی خانہ یا Kitchen

افسوس ہوتا ہے اُس وقت جب کسی کو کوئی آسان اردولفظ، ترکیب یا محاورہ بتا کرساتھ ہی اس کا انگریزی متبادل بھی بتاناپڑتاہے

نجی گفتگو میں سب سے زیادہ نظر انداز ہونے والا لفظ ہے باورچی خانہ،فوٹو: فائل

گزشتہ کالم میں اردو کے آسان اور ایک مدت تک گھروں میں رائج الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ کے غیر ضروری استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خاکسار بھول گیا کہ اس سے قبل نجی گفتگو میں اسی موضوع کا آغاز ہوا تھا، باورچی خانہ سے ..... یعنی سب سے زیادہ نظر انداز ہونے والا لفظ ہے باورچی خانہ، جس کی جگہ پچھلے کوئی بیس برس سے کچن نے لے لی ہے۔

میرے اپنے گھرانے میں میرے ایک چھوٹے بھائی کے سوا، ہر ایک کی زبان پر کچن رہتا ہے۔اس لفظ سے ہماری روایات جڑی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ اسے آج بھی استعمال نہ کیا جائے۔ جب پکوان کی تراکیب سکھانے والے رسالوں کا اجراء شروع ہوا تو ایک رسالہ بھی اسی نام سے جاری ہوا تھا، جو آج بھی جاری ہے جبکہ اسی نوعیت کے ٹیلی وژن پروگراموں میں بھی ایک کمپنی کا پروگرام ہوا کرتا تھا :..........کا باورچی خانہ۔

طویل عرصے تک ٹیلی وژن سے تحریرو تحقیق (اور پھر ایک منفرد پروگرام کی میزبانی)کی ذمہ داری انجام دینے کے سبب، اس شعبے سے راقم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ اس سے پیشتر معلومات عامہ کے پروگراموں میں کامیابی کا حصول ایک الگ باب ہے۔ میری تلخ نوائی سے اکثرلوگ بہت جِزبِز ہوا کرتے ہیں، سو ایک مرتبہ دو خواتین پروڈیوسرز کی موجودگی میں (پیش کار دیگر معنی میں مستعمل نہ ہوتا تو یہی لفظ اُن کے لیے مناسب تھا) جب یہ کہا کہ '' اَب بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذمہ ، ماں باپ کی جگہ ٹیلی وژن نے اٹھالیا ہے'' تو اُنہیں بہت ناگوار گزرا۔ اس سے قطعِ نظر یہ بھی بارہا کہا کہ ٹیلی وژن نے ایک کام تو اچھا کیا کہ کھانا پکانے کی تراکیب پر مشتمل پروگرامز شروع کرکے (خصوصاً متوسط طبقے کی ) لڑکیوں کو ایک مرتبہ پھر باورچی خانے کی طرف راغب کیا ورنہ بگاڑ اس حد تک بڑھ گیاتھا کہ نودولتیہ امراء کی طرح متوسط طبقے کی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کو امورخانہ داری (خاص طور پرکھانا پکانا) سکھانا غیر ضروری سمجھنے لگی تھیں۔ بہرحال اعتراض اس بات پر ہے کہ ایسے پروگراموں میں بھی بہت کم ، آسان اردو استعمال کی جاتی ہے۔ جو ماہرین ''آدھا تیتر ، آدھا بٹیر'' ہوتے ہیں ، ایسی مخلوط زبان (Minglish) بول بول کرناظرین کو مرعوب کرتے ہیں، انہیں احسا س نہیں ہوتا کہ اُن کی بتائی ہوئی تراکیب (Recipes) کم خواندہ افراد کی سمجھ میں پوری طرح نہیں آتیں۔


انگریزی کا غیر ضروری استعمال کرنے والے ہمارے درمیان ہر جگہ ، ہر شعبے اور ہر ادارے میں بہ کثرت موجود ہیں۔ نہایت افسوس ہوتا ہے اُس وقت، جب کسی کو کوئی آسان اردو لفظ، ترکیب یا محاورہ بتا کر ساتھ ہی اس کا انگریزی متبادل بھی بتانا پڑتا ہے۔ صورت حال اُس وقت مزید دل چسپ ہوجاتی ہے جب آپ پوری بات ہی انگریزی میں کررہے ہوں اور آپ کے مقابل ایک ایسی مخلوق ہو جسے انگریزی محاوروں کا علم ہی نہ ہو اور وہ احتجاج کرے کہ آپ تو بہت مشکل انگلش بول رہے ہیں۔یہ المیہ ارد و کے دو محاوروں میں بیان کیا جاسکتا ہے:

۱۔کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا

۲۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال ِ صنم، نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ۔

ایسی ہی ایک تازہ مثال پیش کرتا ہوں۔ ریڈیو پر یوم آزادی کی مناسبت سے براہ راست مقابلہ تقریر منعقد ہورہا تھا، جس میں اس خاکسار کو بطور مہمان خصوصی و مُنصِف (Judge) مدعوکیا گیا تھا۔ میزبان (RJ) باربا رکہ رہی تھیں:Speech competition اور پھر تمام متعلق الفاظ بھی انگریزی میں .....حد تک اُس وقت ہوئی جب اُس نوجوان لڑکی نے ایک موقع پر اپنی گفتگو روکتے ہوئے کسی کا پیغام پڑھ کر کہا : ..... ..... .....میں آپ کا Message ابھی Read out کرتی ہوں۔ اس طرح کی مخلوط زبان برداشت کرنا ہم ایسے دیوانوں کے لیے بہت مشکل ہے لہٰذا اپنی مختصر تقریر میں اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ قیام پاکستان کی تحریک میں اردو کا بھی نمایا ں کردار ہے، کچھ تو خیال اس کا بھی! آخر میں ایک اور اہم بات: ہمارے ایک گزشتہ کالم میں بھوپال کے ساکنوں سے منسوب اس طرز گفتگو کا ذکر تھا کہ آپ یوں کرلو، یہ کھاؤ ، وہاں جاؤ وغیرہ اور اس کی صحت پر شک کا اظہار بھی تھا۔ دوروز قبل ٹیلی وژن اسکرین پر ہمارے نہایت لائق فائق سابق سفیر اور موجودہ صدر نشین پاکستان کرکٹ بورڈ، محترم شہریار محمد خان کو اسی طرح اظہار خیا ل کرتے ہوئے دیکھا تو یقین آیا کہ اچھا تو پرانے بھوپالی اسی طرح بولا کرتے ہوں گے۔
Load Next Story