خوف ِالٰہی
اﷲ سے ڈرنے والے کو کسی اور سے ڈرنے کی ضرورت نہیں رہتی.
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے:
''قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر (اﷲ کے قہر و جلال اور روز حشر کے قیامت خیز واقعات کا لرزہ خیز احوال) تمہیں وہ سب معلوم ہوجائے جو میں جانتا ہوں تو تمہارا ہنسنا بہت کم ہوجائے اور رونا بہت بڑ ھ جائے۔'' (بخاری)
اﷲ کا خوف کیا ہے؟ اﷲ کا خوف تو ایک ایسی عظیم نعمت ہے جو انسان میں بندگی پیدا کرتی ہے۔ خدا سے ڈرنے والے کو کسی اور سے ڈرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن جو خدا سے نہیں ڈرتا، اسے نہ جانے کس کس سے ڈرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو خوف الٰہی بہت بڑی نعمت ہے اور جس دل میں اﷲ کا خوف ہو، وہ دل نہ کبھی مردہ ہوگا اور نہ کبھی نامراد ہوگا۔ اﷲ کے خوف کا وصف خصوصی اسے ایک منفرد اور کام یاب انسان بنادے گا۔ وہ دنیا میں کام یاب رہے گا اور آخرت میں بھی اﷲ کی رضا اور خوش نودی اسے حاصل ہوگی۔
ایمان کے بعد انسان کی زندگی سنوارنے اور اسے فلاح و کام یابی کے مقام اعلیٰ تک پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ اﷲ کے خوف اور اس کی خشیت کا ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کے دل میں اﷲ کا خوف ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بالکل سیدھے اور صحیح راستے پر ہے، کیوں کہ جس دل میں اﷲ کا خوف ہوگا، اس دل میں آخرت کی فکر بھی یقینی طور پر ہوگی اور جب آخرت کی فکر اور روز حشر کی جواب دہی کا احساس انسان کی سوچ میں شامل ہوجائے اور وہ دنیا کی رغبت اور لالچ کو چھوڑ کر صرف اﷲ کو راضی کرنے پر لگ جائے تو ایسا انسان ہمیشہ راہ راست پر چلتا ہے۔
وہ ہر برے اور ایسے کام سے بچتا ہے جو اﷲ کو پسند نہ ہو اور یہی وہ احساس ہے جس کے نتیجے میں مومن بندے پر کام یابی کے راستے کھل جاتے ہیں۔ اﷲ کا خوف او ر آخرت کی جواب دہی کی فکر وہ چیزیں ہیں جو انسان کی توجہ کی سب سے زیادہ متقاضی ہیں۔ تاج دار انبیاءﷺ نے بھی اپنی تمام تعلیمات میں سب سے زیادہ توجہ خوف خدا، خشیت الٰہی اور فکر آخرت پر مرکوز کی ہے۔
نبی برحقﷺ نے اکثر مقامات پر خوف خدا کے فوائد اور فضائل بیان کیے ہیں اور ان کے نتیجے میں ملنے والی نعمتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اﷲ سے ڈرنے اور اس کے نتیجے میں راہ راست پر چلنے والوں کے لیے انعامات الٰہیہ کی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ اﷲ کے محبوب اور فرماں بردار بندے ہی کام یاب ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اﷲ کے نبیﷺ نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب اﷲ کی نافرمانی کی جائے، اس کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے جلال اور اس کے غضب کو دعوت دے رہا ہے۔ رسول کریمؐ نے متعدد مقامات پر اﷲ کی ناراضی اور اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے لوگوں کو وعظ و نصیحت کی ہے اور انہیں راہ راست پر چلنے کی تلقین کی ہے۔ انہیں ہدایت کی ہے کہ خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے کیا فوائد ہیں اور اس راستے سے ہٹنے کے کیا نقصان ہیں۔
خوف خدا اور خشیت الٰہی نبی کریم ﷺ کے خاص موضوعات تھے۔ صحابۂ کرام بھی آپؐ سے اسی حوالے زیادہ گفت گو فرماتے تھے اور اپنے علم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتے تھے۔ نبی کریمؐ کے ساتھی آخرت کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے اور روز حشر کی جواب دہی کے بارے میں بھی جاننے کے خواہش مند تھے۔ چناں چہ نبی پاکؐ نے ہر موقع اور ہر لمحے انھیں رشد و ہدایت دی اور مکمل راہ نمائی فرمائی۔
اﷲ کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کے بارے میں نبی کریمؐ جو ارشاد فرماتے تھے، انہیں سن کر صحابۂ کرام کے چہرے خوف سے زرد پڑجاتے تھے۔ ان کی حالت متغیر ہوجاتی تھی۔
لیکن پھر بھی رسول پاک ؐ کو جو کچھ معلوم تھا، وہ سب صحابہ کرام کے علم میں نہیں تھا اور نہ اﷲ کے حبیبؐ نے سب کچھ انہیں بتایا تھا، بلکہ حدیث کے یہ الفاظ کہ ''اگر (اﷲ کے قہر و جلال اور روز حشر کے قیامت خیز واقعات کا لرزہ خیز احوال) تمہیں وہ سب معلوم ہوجائے جو میں جانتا ہوں تو تمہارا ہنسنا بہت کم ہوجائے اور رونا بہت بڑھ جائے'' یہ الفاظ خود اس بات کا اظہار ہیں کہ تم وہ کچھ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں، اگر تم اس بارے میں سب کچھ جان جائو تو زندگی سے تمہاری دل چسپی اور رغبت بالکل ختم ہوجائے اور تم اس رنگ برنگ زندگی کو سب کچھ سمجھنے کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھو اور اسی کو یاد کرکے روتے رہو، کیوں کہ وہ جگہ نہایت ہول ناک ہے اور اس جگہ سے اﷲ کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں بچاسکتا۔ اگر وہ رحمان اور رحیم چاہے تو اس جگہ سے پناہ میں رکھ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں بالکل اس طرح زندگی گزارے جس طرح اﷲ نے اور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے اور تمام دنیاوی امور کی انجام دہی میں قرآنی تعلیمات اور احادیث نبوی کی تعلیمات کا خیال رکھے۔
ہم سب الحمدﷲ مسلمان ہیں اور اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں، اس پر، اس کے رسولوں پر، اس کے فرشتوں پر اور اس کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام اہل ایمان کا یہ ایمان ہے کہ ہماری موت زندگی، ہماری خوشی غمی، ہماری ترقی تنزلی سب اس خدا کے ہاتھ میں ہے اور بلاشبہہ وہی سب سے بڑا بادشاہ ہے اور اس کل کائنات کا مالک حقیقی ہے۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''وہ خدا جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے، بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے، اسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔'' (سورۃ الملک، آیات 1تا3)
معلوم ہوا کہ ہمیں ایک روز اسی پروردگار عالم کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اسے دنیا میں کیے گئے اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ چناں چہ اس سے ڈرنا تو ایک فطری عمل ہے اور جب یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اس کا ڈر اور اس کا خوف ہمارے لیے نجات کا پروانہ بنے گا تو ہمارا خوف اور بھی دوچند ہوجانا چاہیے۔
ایک بار کسی صحابی نے خدمت اقدسؐ میں عرض کیا:''اے اﷲ کے نبیؐ! وہ کون سا انسان ہے جو بہت دانش مند اور ہوشیار ہے؟''
ارشاد ہوا:''وہ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے اور اس کے لیے زیادہ تیاری کرتا ہے۔''
مسلمان کا ایمان ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور اس زندگی کو کبھی فنا نہیں، دنیاوی زندگی تو چند روزہ ہے، اسے تو ایک نہ ایک دن فنا ہوجانا ہے۔
خود اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:''ہر انسان کو (ایک نہ ایک دن) موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔''
تو جو لوگ ہوشیار اور سمجھ دار ہیں، وہ آخرت کی زندگی کو جانتے اور سمجھتے ہیں، اس کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہیں اور اس بات سے کماحقہ واقف ہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر انسان کو اس اصل زندگی کی طرف ہی لوٹنا ہے، لہٰذا وہ اسی زندگی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور ساری زندگی اسی کی تیاری میں گزار دیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ دنیا کو پسند کرتے ہیں اور نہ دنیاوی آرام اور آسائشیں انہیں اپنی طرف راغب کرنے میں کام یاب ہوتی ہیں۔ ان کے پیش نظر تو اپنے رب العزت کی رضا ہوتی ہے، اس کا خوف ہوتا ہے، اس کے احکام ہوتے ہیں اور آخرت کی جواب دہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہی دراصل کام یاب ہوتے ہیں۔
غافل اور گم راہ لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ تو انھیں اﷲ کا کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت کی جواب دہی کا کوئی احساس ہے۔ وہ اس دنیاوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور اسی کی کام یابی کو اصل کام یابی سمجھتے ہیں۔ اس دنیاوی کام یابی کے حصول کے لیے وہ ہر ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ دولت، شان و شوکت، جائیداد اور دنیاوی مرتبے کی خواہش انہیں اندھا کردیتی ہے جس کے بعد ان میں سے ہر جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ یہی اصل امتحان ہوتا ہے۔ اگر انسان میں اﷲ کے ڈر ہی باقی نہ رہے اور اسے آخرت کی جواب دہی کی فکر نہ ہو تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں جو کام بھی کرے، یہ سوچتے ہوئے کرے کہ یہاں کے اس کے ہر عمل کا جواب ایک دن خدا کے سامنے دینا ہے۔ ان تمام سوال و جواب کے بعد ہی اسے رہائی ملے گی اور وہ جنت کا حق دار قرار پائے گا۔
''قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر (اﷲ کے قہر و جلال اور روز حشر کے قیامت خیز واقعات کا لرزہ خیز احوال) تمہیں وہ سب معلوم ہوجائے جو میں جانتا ہوں تو تمہارا ہنسنا بہت کم ہوجائے اور رونا بہت بڑ ھ جائے۔'' (بخاری)
اﷲ کا خوف کیا ہے؟ اﷲ کا خوف تو ایک ایسی عظیم نعمت ہے جو انسان میں بندگی پیدا کرتی ہے۔ خدا سے ڈرنے والے کو کسی اور سے ڈرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن جو خدا سے نہیں ڈرتا، اسے نہ جانے کس کس سے ڈرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو خوف الٰہی بہت بڑی نعمت ہے اور جس دل میں اﷲ کا خوف ہو، وہ دل نہ کبھی مردہ ہوگا اور نہ کبھی نامراد ہوگا۔ اﷲ کے خوف کا وصف خصوصی اسے ایک منفرد اور کام یاب انسان بنادے گا۔ وہ دنیا میں کام یاب رہے گا اور آخرت میں بھی اﷲ کی رضا اور خوش نودی اسے حاصل ہوگی۔
ایمان کے بعد انسان کی زندگی سنوارنے اور اسے فلاح و کام یابی کے مقام اعلیٰ تک پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ اﷲ کے خوف اور اس کی خشیت کا ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کے دل میں اﷲ کا خوف ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بالکل سیدھے اور صحیح راستے پر ہے، کیوں کہ جس دل میں اﷲ کا خوف ہوگا، اس دل میں آخرت کی فکر بھی یقینی طور پر ہوگی اور جب آخرت کی فکر اور روز حشر کی جواب دہی کا احساس انسان کی سوچ میں شامل ہوجائے اور وہ دنیا کی رغبت اور لالچ کو چھوڑ کر صرف اﷲ کو راضی کرنے پر لگ جائے تو ایسا انسان ہمیشہ راہ راست پر چلتا ہے۔
وہ ہر برے اور ایسے کام سے بچتا ہے جو اﷲ کو پسند نہ ہو اور یہی وہ احساس ہے جس کے نتیجے میں مومن بندے پر کام یابی کے راستے کھل جاتے ہیں۔ اﷲ کا خوف او ر آخرت کی جواب دہی کی فکر وہ چیزیں ہیں جو انسان کی توجہ کی سب سے زیادہ متقاضی ہیں۔ تاج دار انبیاءﷺ نے بھی اپنی تمام تعلیمات میں سب سے زیادہ توجہ خوف خدا، خشیت الٰہی اور فکر آخرت پر مرکوز کی ہے۔
نبی برحقﷺ نے اکثر مقامات پر خوف خدا کے فوائد اور فضائل بیان کیے ہیں اور ان کے نتیجے میں ملنے والی نعمتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اﷲ سے ڈرنے اور اس کے نتیجے میں راہ راست پر چلنے والوں کے لیے انعامات الٰہیہ کی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ اﷲ کے محبوب اور فرماں بردار بندے ہی کام یاب ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اﷲ کے نبیﷺ نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب اﷲ کی نافرمانی کی جائے، اس کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے جلال اور اس کے غضب کو دعوت دے رہا ہے۔ رسول کریمؐ نے متعدد مقامات پر اﷲ کی ناراضی اور اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے لوگوں کو وعظ و نصیحت کی ہے اور انہیں راہ راست پر چلنے کی تلقین کی ہے۔ انہیں ہدایت کی ہے کہ خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے کیا فوائد ہیں اور اس راستے سے ہٹنے کے کیا نقصان ہیں۔
خوف خدا اور خشیت الٰہی نبی کریم ﷺ کے خاص موضوعات تھے۔ صحابۂ کرام بھی آپؐ سے اسی حوالے زیادہ گفت گو فرماتے تھے اور اپنے علم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتے تھے۔ نبی کریمؐ کے ساتھی آخرت کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے اور روز حشر کی جواب دہی کے بارے میں بھی جاننے کے خواہش مند تھے۔ چناں چہ نبی پاکؐ نے ہر موقع اور ہر لمحے انھیں رشد و ہدایت دی اور مکمل راہ نمائی فرمائی۔
اﷲ کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کے بارے میں نبی کریمؐ جو ارشاد فرماتے تھے، انہیں سن کر صحابۂ کرام کے چہرے خوف سے زرد پڑجاتے تھے۔ ان کی حالت متغیر ہوجاتی تھی۔
لیکن پھر بھی رسول پاک ؐ کو جو کچھ معلوم تھا، وہ سب صحابہ کرام کے علم میں نہیں تھا اور نہ اﷲ کے حبیبؐ نے سب کچھ انہیں بتایا تھا، بلکہ حدیث کے یہ الفاظ کہ ''اگر (اﷲ کے قہر و جلال اور روز حشر کے قیامت خیز واقعات کا لرزہ خیز احوال) تمہیں وہ سب معلوم ہوجائے جو میں جانتا ہوں تو تمہارا ہنسنا بہت کم ہوجائے اور رونا بہت بڑھ جائے'' یہ الفاظ خود اس بات کا اظہار ہیں کہ تم وہ کچھ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں، اگر تم اس بارے میں سب کچھ جان جائو تو زندگی سے تمہاری دل چسپی اور رغبت بالکل ختم ہوجائے اور تم اس رنگ برنگ زندگی کو سب کچھ سمجھنے کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھو اور اسی کو یاد کرکے روتے رہو، کیوں کہ وہ جگہ نہایت ہول ناک ہے اور اس جگہ سے اﷲ کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں بچاسکتا۔ اگر وہ رحمان اور رحیم چاہے تو اس جگہ سے پناہ میں رکھ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں بالکل اس طرح زندگی گزارے جس طرح اﷲ نے اور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے اور تمام دنیاوی امور کی انجام دہی میں قرآنی تعلیمات اور احادیث نبوی کی تعلیمات کا خیال رکھے۔
ہم سب الحمدﷲ مسلمان ہیں اور اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں، اس پر، اس کے رسولوں پر، اس کے فرشتوں پر اور اس کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام اہل ایمان کا یہ ایمان ہے کہ ہماری موت زندگی، ہماری خوشی غمی، ہماری ترقی تنزلی سب اس خدا کے ہاتھ میں ہے اور بلاشبہہ وہی سب سے بڑا بادشاہ ہے اور اس کل کائنات کا مالک حقیقی ہے۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''وہ خدا جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے، بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے، اسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔'' (سورۃ الملک، آیات 1تا3)
معلوم ہوا کہ ہمیں ایک روز اسی پروردگار عالم کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اسے دنیا میں کیے گئے اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ چناں چہ اس سے ڈرنا تو ایک فطری عمل ہے اور جب یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اس کا ڈر اور اس کا خوف ہمارے لیے نجات کا پروانہ بنے گا تو ہمارا خوف اور بھی دوچند ہوجانا چاہیے۔
ایک بار کسی صحابی نے خدمت اقدسؐ میں عرض کیا:''اے اﷲ کے نبیؐ! وہ کون سا انسان ہے جو بہت دانش مند اور ہوشیار ہے؟''
ارشاد ہوا:''وہ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے اور اس کے لیے زیادہ تیاری کرتا ہے۔''
مسلمان کا ایمان ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور اس زندگی کو کبھی فنا نہیں، دنیاوی زندگی تو چند روزہ ہے، اسے تو ایک نہ ایک دن فنا ہوجانا ہے۔
خود اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:''ہر انسان کو (ایک نہ ایک دن) موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔''
تو جو لوگ ہوشیار اور سمجھ دار ہیں، وہ آخرت کی زندگی کو جانتے اور سمجھتے ہیں، اس کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہیں اور اس بات سے کماحقہ واقف ہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر انسان کو اس اصل زندگی کی طرف ہی لوٹنا ہے، لہٰذا وہ اسی زندگی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور ساری زندگی اسی کی تیاری میں گزار دیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ دنیا کو پسند کرتے ہیں اور نہ دنیاوی آرام اور آسائشیں انہیں اپنی طرف راغب کرنے میں کام یاب ہوتی ہیں۔ ان کے پیش نظر تو اپنے رب العزت کی رضا ہوتی ہے، اس کا خوف ہوتا ہے، اس کے احکام ہوتے ہیں اور آخرت کی جواب دہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہی دراصل کام یاب ہوتے ہیں۔
غافل اور گم راہ لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ تو انھیں اﷲ کا کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت کی جواب دہی کا کوئی احساس ہے۔ وہ اس دنیاوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور اسی کی کام یابی کو اصل کام یابی سمجھتے ہیں۔ اس دنیاوی کام یابی کے حصول کے لیے وہ ہر ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ دولت، شان و شوکت، جائیداد اور دنیاوی مرتبے کی خواہش انہیں اندھا کردیتی ہے جس کے بعد ان میں سے ہر جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ یہی اصل امتحان ہوتا ہے۔ اگر انسان میں اﷲ کے ڈر ہی باقی نہ رہے اور اسے آخرت کی جواب دہی کی فکر نہ ہو تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں جو کام بھی کرے، یہ سوچتے ہوئے کرے کہ یہاں کے اس کے ہر عمل کا جواب ایک دن خدا کے سامنے دینا ہے۔ ان تمام سوال و جواب کے بعد ہی اسے رہائی ملے گی اور وہ جنت کا حق دار قرار پائے گا۔