ابراہیم خلیل اﷲ کا مہینہ
خلیل اﷲ نے توحید کا علم بلند رکھنے کے لیے بڑے دکھ اٹھائے اور ایک طویل صبر آزما دور سے گزر کر پوری قوت و جلال۔۔۔
ذی الحج کا مہینہ نہایت عظمت اور مرتبے والا ہے۔ اس مہینے کا چاند نظر آتے ہی ہر مسلمان کے دل میں اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس کی مثال روز آخرت تک نہیں مل سکے گی۔
یہ ماہ مبارک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے جن کی پوری زندگی قربانی کی بے مثال تصویر ہے۔ وہ کون سا امتحان تھا جو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل سے نہیں لیا۔ مگر کروڑوں سلام آپ کی ذات والا صفات پر کہ کسی بھی موقع پر آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ اﷲ جل شانہ کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم رکھا اور عشق الٰہی میں توحید کے پرچم کی سربلندی کے لیے بڑے سے بڑے مصائب و آلام ثابت قدمی سے برداشت کیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت و عظمت اور آپ کے تقدس و احترام کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب کے ماننے والے مسلمان، عیسائی اور یہودی بھی آپ کو اﷲ تعالیٰ کا عظیم المرتبت پیغمبر مانتے ہیں۔ یہ وہ جلیل القدر نبی ہیں جن کے وجود پاک سے نہ صرف دنیا کو ٹھنڈک نصیب ہوئی، بلکہ آتش کدۂ نمرود بھی ٹھنڈا ہوگیا۔
کسی بھی انسان کے لیے دنیا میں دو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں: ایک اپنی جان اور دوسری اپنی اولاد۔
جب حضرت ابراہیم نے توحید کا علم بلند رکھنے کے لیے اپنی جان کو رب کریم کی محبت میں سرشار ہوکر آتش نمرود کے حوالے کرنے کی کوشش کی تو آسمانوں میں ہلچل مچ گئی اور رحمت خداوندی جوش میں آگئی۔
باری تعالیٰ کا حکم ہوا:''اے آگ! میرے ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔''
وہ خوف ناک اور شعلہ بار آگ جو ہر شے کو جلا کر بھسم کرسکتی ہے، اﷲ تعالیٰ کے حکم پر خلیل رب کائنات کو ایذا نہیں پہنچاتی، بلکہ راحت اور سلامتی والی ہوجاتی ہے۔ سچے رب نے اپنے برگزیدہ اور محبوب نبی کو کفار پر فوقیت اور برتری عطا فرمائی، یہ وہ قابل دید ساعتیں اور گھڑیاں ہیں جب نمرود اور آذر اور ان کے حواری بھی کھلی آنکھوں سے خلیل اﷲ پر نصرت الٰہی کو اترتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور دل میں تسلیم بھی کررہے تھے کہ بے شک! ابراہیم سچے نبی ہیں، مگر ان کی بدبختی انہیں حق سے دور لے گئی۔
خلیل اﷲ نے توحید کا علم بلند رکھنے کے لیے بڑے دکھ اٹھائے اور ایک طویل صبر آزما دور سے گزر کر پوری قوت و جلال کے ساتھ عقیدہ توحید کو پھیلایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک اور بت پرستی کے ماحول میں آنکھ کھولی، مگر اﷲ کے اس نڈر سپاہی نے نمرود جیسے طاقت ور کو دعوت حق دیتے ہوئے فرمایا:''عبادت خالق کا حق ہے۔ مخلوق کا نہیں۔''
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:''اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ آذر سے کہا:کیا تو بتوںکو خدا بناتا ہے؟''
حضرت ابراہیم نے پدری رشتہ کی بزرگی اور تقدس کے پیش نظر بارہ گاہ الٰہی میں اپنے والد آذر کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی، مگر ذلت اور رسوائی اس بت پرست کا مقدر رہی۔
جان کے بعد اولاد کا مقام آتا ہے ۔ بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ سبزے کا نام و نشان تک نہیں، اﷲ تبارک و تعالیٰ کا خلیل اپنے لخت جگر اسماعیل کو جو ابھی ماں (ہاجرہ) کی گود میں ہے، اس وادی میں چھوڑے جا رہا ہے۔
ہاجرہ نے عرض کیا:''اے اﷲ کے خلیل! آپ ہمیں اس وادی میں تنہا کس وجہ سے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟''
آپؑ نے خاموشی اختیار کی۔ بی بی ہاجرہ نے دوبارہ پوچھا:''کیا یہ رب کریم کا حکم ہے؟''
آپؑ نے فرمایا:''ہاں۔''
تب بی بی ہاجرہ نے کہا:''اب ہمیں کچھ غم نہیں، اﷲ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔''
کچھ دور جا کر سیدنا ابراہیم نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی:''یا اﷲ! انہیں نمازی رکھ، لوگوں کے دل ان کی طرف پھیر دے، انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔''
اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور ایسی ویران اور بنجر وادی میں پینے کے لیے زم زم کا چشمہ بھی جاری کردیا اور کھانے کے لیے نایاب پھل مہیا فرمائے۔
پھر وہ وقت آگیا جب سیدنا اسماعیل سن بلوغت کو پہنچ گئے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان کی عظیم الشان قربانی کو اپنے خلیل پر خواب کے ذریعے منکشف کیا۔ آپؑ انہیں اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے لے گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے باپ بیٹے کی فرماں برداری کو سند قبولیت عطا فرمائی۔ جنت سے ایک مینڈھا بھیج گیا جو اسماعیل کی جگہ قربان ہوا۔
اﷲ پاک نے اپنے خلیل اور ان کے فرماں بردار بیٹے کی قربانی کو مقبول فرمایا اور اسے یادگار کے طور پر قیامت تک باقی رکھا۔ ہر سال اہل ایمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر اسی عظیم الشان قربانی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ رب العزت تمام فرزندان توحید کو قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
یہ ماہ مبارک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے جن کی پوری زندگی قربانی کی بے مثال تصویر ہے۔ وہ کون سا امتحان تھا جو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل سے نہیں لیا۔ مگر کروڑوں سلام آپ کی ذات والا صفات پر کہ کسی بھی موقع پر آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ اﷲ جل شانہ کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم رکھا اور عشق الٰہی میں توحید کے پرچم کی سربلندی کے لیے بڑے سے بڑے مصائب و آلام ثابت قدمی سے برداشت کیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت و عظمت اور آپ کے تقدس و احترام کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب کے ماننے والے مسلمان، عیسائی اور یہودی بھی آپ کو اﷲ تعالیٰ کا عظیم المرتبت پیغمبر مانتے ہیں۔ یہ وہ جلیل القدر نبی ہیں جن کے وجود پاک سے نہ صرف دنیا کو ٹھنڈک نصیب ہوئی، بلکہ آتش کدۂ نمرود بھی ٹھنڈا ہوگیا۔
کسی بھی انسان کے لیے دنیا میں دو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں: ایک اپنی جان اور دوسری اپنی اولاد۔
جب حضرت ابراہیم نے توحید کا علم بلند رکھنے کے لیے اپنی جان کو رب کریم کی محبت میں سرشار ہوکر آتش نمرود کے حوالے کرنے کی کوشش کی تو آسمانوں میں ہلچل مچ گئی اور رحمت خداوندی جوش میں آگئی۔
باری تعالیٰ کا حکم ہوا:''اے آگ! میرے ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔''
وہ خوف ناک اور شعلہ بار آگ جو ہر شے کو جلا کر بھسم کرسکتی ہے، اﷲ تعالیٰ کے حکم پر خلیل رب کائنات کو ایذا نہیں پہنچاتی، بلکہ راحت اور سلامتی والی ہوجاتی ہے۔ سچے رب نے اپنے برگزیدہ اور محبوب نبی کو کفار پر فوقیت اور برتری عطا فرمائی، یہ وہ قابل دید ساعتیں اور گھڑیاں ہیں جب نمرود اور آذر اور ان کے حواری بھی کھلی آنکھوں سے خلیل اﷲ پر نصرت الٰہی کو اترتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور دل میں تسلیم بھی کررہے تھے کہ بے شک! ابراہیم سچے نبی ہیں، مگر ان کی بدبختی انہیں حق سے دور لے گئی۔
خلیل اﷲ نے توحید کا علم بلند رکھنے کے لیے بڑے دکھ اٹھائے اور ایک طویل صبر آزما دور سے گزر کر پوری قوت و جلال کے ساتھ عقیدہ توحید کو پھیلایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک اور بت پرستی کے ماحول میں آنکھ کھولی، مگر اﷲ کے اس نڈر سپاہی نے نمرود جیسے طاقت ور کو دعوت حق دیتے ہوئے فرمایا:''عبادت خالق کا حق ہے۔ مخلوق کا نہیں۔''
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:''اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ آذر سے کہا:کیا تو بتوںکو خدا بناتا ہے؟''
حضرت ابراہیم نے پدری رشتہ کی بزرگی اور تقدس کے پیش نظر بارہ گاہ الٰہی میں اپنے والد آذر کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی، مگر ذلت اور رسوائی اس بت پرست کا مقدر رہی۔
جان کے بعد اولاد کا مقام آتا ہے ۔ بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ سبزے کا نام و نشان تک نہیں، اﷲ تبارک و تعالیٰ کا خلیل اپنے لخت جگر اسماعیل کو جو ابھی ماں (ہاجرہ) کی گود میں ہے، اس وادی میں چھوڑے جا رہا ہے۔
ہاجرہ نے عرض کیا:''اے اﷲ کے خلیل! آپ ہمیں اس وادی میں تنہا کس وجہ سے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟''
آپؑ نے خاموشی اختیار کی۔ بی بی ہاجرہ نے دوبارہ پوچھا:''کیا یہ رب کریم کا حکم ہے؟''
آپؑ نے فرمایا:''ہاں۔''
تب بی بی ہاجرہ نے کہا:''اب ہمیں کچھ غم نہیں، اﷲ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔''
کچھ دور جا کر سیدنا ابراہیم نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی:''یا اﷲ! انہیں نمازی رکھ، لوگوں کے دل ان کی طرف پھیر دے، انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔''
اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور ایسی ویران اور بنجر وادی میں پینے کے لیے زم زم کا چشمہ بھی جاری کردیا اور کھانے کے لیے نایاب پھل مہیا فرمائے۔
پھر وہ وقت آگیا جب سیدنا اسماعیل سن بلوغت کو پہنچ گئے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان کی عظیم الشان قربانی کو اپنے خلیل پر خواب کے ذریعے منکشف کیا۔ آپؑ انہیں اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے لے گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے باپ بیٹے کی فرماں برداری کو سند قبولیت عطا فرمائی۔ جنت سے ایک مینڈھا بھیج گیا جو اسماعیل کی جگہ قربان ہوا۔
اﷲ پاک نے اپنے خلیل اور ان کے فرماں بردار بیٹے کی قربانی کو مقبول فرمایا اور اسے یادگار کے طور پر قیامت تک باقی رکھا۔ ہر سال اہل ایمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر اسی عظیم الشان قربانی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ رب العزت تمام فرزندان توحید کو قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین