احساس زیاں جاتا رہا

پاکستانی قوم نے اپنا یوم آزادی پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا۔


Shakeel Farooqi August 18, 2015
[email protected]

KARACHI: پاکستانی قوم نے اپنا یوم آزادی پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا۔ ملک کے گوشے گوشے میں اس جشن کو منانے کے لیے خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا گیا جس میں وطن عزیز کے ہر شہری نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا۔ حسن اتفاق سے اس مرتبہ ہمارا یوم آزادی جمعے کے مبارک دن پر پڑا۔ چنانچہ ملک بھرکی مساجد میں جمعے کی نماز کے موقعے پر ملک کی سلامتی اور ترقی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس مبارک دن کا آغاز 31 توپوں کی سلامی سے ہوا جب کہ صوبائی دارالحکومت میں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پرچم کشائی کی تقریب کنونشن سینٹر میں منعقد ہوئی، جہاں صدر مملکت ممنون حسین نے قومی پرچم لہرایا۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اس خصوصی مرکزی تقریب کو رونق بخشی۔ تاہم اس اہم اور مبارک موقعے پر سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کی عدم موجودگی کو شدت سے محسوس کیا گیا۔

پرچم کشائی کی تقریب میں جنرل راحیل شریف تمام حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ ان کی آمد پر لوگوں کا جوش اور جذبہ دیدنی تھا اور پورا ہال تالیوں کی آواز سے بہت دیر تک گونجتا رہا۔ تقریب کے اختتام پر وہ شرکا خصوصاً بچوں میں گھل مل گئے۔ صدر مملکت ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تقریب میں ایک ساتھ آئے تو ان کا بگل بجا کر پرتپاک استقبال کیا گیا۔ صدر اور وزیر اعظم نے مل کر پرچم کشائی کی جب کہ پاک فوج کے خوبصورت جوانوں نے قومی پرچم کو سلامی دی۔

صدر پاکستان نے اس موقعے پر اپنے خطاب میں پاکستان کو درپیش چیلنجوں کا خاص طور پر تذکرہ کیا جس میں دہشت گردی کے خاتمے کا عزم سرفہرست تھا۔ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہونے والا آپریشن حتمی کامیابی کے حصول تک پورے زور و شور سے جاری رہے گا۔ صدر ممنون حسین نے تحریک پاکستان کے زمانے میں بچوں کے جوش و جذبے کے حوالے سے حاضرین کو آگاہ کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے گئے تین خطوط بھی پڑھ کر سنائے۔ ایک خط صوبہ بہار کے چھوٹے سے علاقے بانکی پورا راما، ضلع پٹنہ سے 22 اپریل 1942 کو مسلم ایچ ای اسکول کے نویں جماعت کے طالب علم نے قائد اعظم کو ارسال کیا تھا جس میں لکھا تھا ''نہایت ہی محترم قائد اعظم! میں بہت ہی محدود وسائل کا حامل درس گاہ کا ایک طالب علم ہوں مگر اپنی محدود آمدنی کو اپنے فرض کے درمیان آنے کی اجازت نہیں دوں گا جوکہ مسلمانان ہند اور آپ کی تابعداری کی وجہ سے مجھ پر عائد ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر مہینے سات دن تک بغیر ناشتے کے مدرسے جاؤں گا۔

دوسرا خط نویں جماعت کے ایک طالب علم نے قائد اعظم کو 17 جون 1942 کو ارسال کیا تھا۔ خط کا متن یہ تھا ''بخدمت جناب قائد اعظم صاحب! السلام علیکم! آپ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کے قومی فنڈ کے لیے آٹھ آنے کا پوسٹل آرڈر نمبر A034272 بھیج رہا ہوں۔ یہ میں نے اپنے جیب خرچ سے جمع کیے ہیں۔ آپ کا خادم اختر (جماعت نہم) معرفت سید گوہر علی، لیکچرر ایمرسن کالج، ملتان۔ تیسرا خط پانچویں جماعت کے ایک طالب علم نے 29 فروری، 1942 کو امرتسر سے قائد اعظم کو تحریر کیا تھا جس میں لکھا تھا ''جناب بابا جی صاحب! حضور جناح صاحب! بعد آداب غلامانہ عرض ہے کہ پھوپا جان بیس دن ہوئے، دوستوں سے کہتے تھے کہ حضور جناح صاحب نے مسلمانوں کے کام (کے) واسطے ہر ایک مسلمان سے چندا مانگا ہے۔ آگے نہیں مانگا تھا۔ آٹھ آنے جمع ہوگئے ہیں۔ ٹکٹ لے کر اس لفافے میں بند کرکے بھیجے ہیں۔ خدا کرے آپ کو مل جائیں۔ اور بھی پیسے جمع کروں گا۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آداب۔ راقم۔ آپ کا غلام عزیز الرحمن، طالب علم، جماعت پنجم، چشتیہ ہائی اسکول امرتسر۔ صدر مملکت نے بجا طور پر کہا کہ آج ہمیں ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے وطن کی تعمیر نو اپنے بزرگوں کے خوابوں کے مطابق کرسکیں۔

13 اور 14 اگست کی درمیانی شب جب ہم کراچی کی سب سے اہم گزرگاہ شاہراہ فیصل سے ایئرپورٹ جا رہے تھے تو بے ہنگم ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے ہمیں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ہماری پریشانی کا عالم ناقابل بیان تھا کیونکہ گھر سے وقت سے کافی پہلے روانہ ہوتے وقت ہمیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح کی غیر متوقع صورتحال بھی پیش آسکتی ہے۔ موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان بالکل بے لگام تھے اور ٹریفک پولیس ان کے آگے بے بس و لاچار نظر آرہی تھی۔ بابائے قوم کا ڈسپلن اور نظم و ضبط کا دیا ہوا درس بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا جس پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

ہمارا تعلق اس نسل سے ہے جس نے اس مملکت خداداد کو اپنی آنکھوں سے معرض وجود میں آتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمارے کانوں میں پاکستان کے حق میں بلند ہونے والے نعروں کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ ''لے کے رہیں گے پاکستان۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان۔''۔۔۔۔۔ ''آنکھ کا نور پاکستان۔ دل کا سرور پاکستان۔'' یہ وطن عزیز کسی نے یوں ہی ہماری جھولی میں نہیں ڈال دیا۔ یہ ہمیں بے شمار اور ناقابل بیان قربانیاں دینے کے بعد میسر آیا ہے۔

آزادی کے وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے فسادات کو بھلا کیونکر فراموش کیا جاسکتا ہے۔ ان فسادات میں بلوائیوں نے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح سے کاٹا تھا۔ مشرقی پنجاب دلی اور ہندوستان کے بعض دیگر علاقوں میں تو 1947 میں قیامت کا سا سماں تھا۔ دلی کے حالات کے تو ہم عینی شاہد ہیں۔اگرچہ وہ ہمارا بچپن کا زمانہ تھا مگر اس وقت کی تلخ یادیں ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ دلی شہر کے بعض علاقوں بشمول قرول باغ، سبزی منڈی اور پہاڑ گنج میں ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مسلمانوں کے خون سے خوب ہولی کھیلی تھی۔ رات کے پرہول سناٹے میں فسادیوں کے نعروں 'بجرنگ بلی کی جے'' اور ''ست سری اکال'' کی گونج ہمارے کانوں میں آج بھی سنائی دے رہی ہے۔

ہمیں وہ مناظر بھی یاد ہیں جب لوگ اپنے بسے بسائے ہوئے گھروں کو چھوڑ کر دلی کے نواحی علاقوں میں واقع ہمایوں کے مقبرے اور پرانے قلعے میں قائم کیے گئے پناہ گزینوں کے کیمپوں کا رخ کر رہے تھے۔ ہم نے بھی پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ پرانے قلعے میں قائم پناہ گزین کیمپ کا رخ کیا تھا۔ اس کے لیے ہمیں ہندوؤں کے علاقوں سے بھی گزرنا پڑا تھا جہاں کی فضا پر شدید خوف وہراس طاری تھا۔ اس کیفیت کو یاد کرکے آج بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جان پر کھیل کر جب ہمارا خاندان کسی نہ کسی طرح پرانے قلعے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تو وہاں کے حالات انتہائی نامساعد تھے۔ قلعے کے اندر تل دھرنے کے لیے جگہ باقی نہ بچی تھی اور جو لوگ قلعے کے اندر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے تھے ان کی حالت بھی بے حد خراب تھی۔ خستہ اور شکستہ ہندو راجاؤں کے تعمیر کردہ اس قلعے میں پناہ گزین بھوک، پیاس اور حبس کا شکار تھے۔

اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی اسے معرض وجود میں آئے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ بابائے قوم وفات پاگئے اور پاکستانی قوم کے سر سے اس کے باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھ گیا۔اس کے بعد لامتناہی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ایک ناپاک سلسلہ شروع ہوگیا اور اقتدار کے بھوکے حکمراں باری باری مسند اقتدار پر قابض ہوتے چلے گئے۔ بقول شاعر:

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

نوبت بہ ایں جا رسید کہ 16 دسمبر 1971 کو سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے نتیجے میں وطن عزیز دولخت ہوکر اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگیا۔ افسوس صد افسوس کہ اس عظیم سانحے سے بھی کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور عالم یہ ہے کہ:

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

جمہوریت کے ایک پانچ سالہ دور کے اختتام کے بعد اگرچہ دوسرا دور شروع ہوچکا ہے لیکن عام آدمی کی حالت میں بہتری کے آثار تو کجا غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور متوسط طبقے کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔