تفہیم المسائل

فتویٰ آئمہ خوارزم کے قول پر ہی ہے کہ زوال کا وقت نصف النہار شرعی یعنی ضحوۂ کبری سے زوال تک ہے۔


Mufti Muneeburrehman October 18, 2012
فتویٰ آئمہ خوارزم کے قول پر ہی ہے کہ زوال کا وقت نصف النہار شرعی یعنی ضحوۂ کبری سے زوال تک ہے, مفتی منیب الرحمان فوٹو: فائل

GILGIT: زوال کا وقت
سوال: نصف النہار کے وقت میں کوئی بھی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اس وقت کی مقدار کتنی ہے اور اس کا اندازہ کیسے لگایا جائے گا؟
(محمد احمد رضا، نارتھ کراچی)

جواب: زوال در حقیقت سورج ڈھلنے کا نام ہے اور یہ وہ وقت ہے جب ممانعت کا وقت نکل گیا اور جواز کا آیا۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
''شرح نقایہ'' میں برجندی سے منقول ہے:''فقہائے کرام کی عبارات میں ہے کہ مکروہ وقت نصف النہار سے لے کر سورج کے زوال تک ہے اور یہ امر مخفی نہیں ہے کہ سورج کا زوال نصف النہار کے متصل بعد ہوتا ہے (اور اگر مراد عرفی دن کا نصف ہو تو) وقت کی اتنی قلیل مقدار میں کوئی نماز ادا کرنا ممکن نہیں، شاید اس سے مراد یہ ہوکہ اگر اس وقت میں نماز کا کوئی جزو آجائے تو پھر یہ نماز جائز نہیں ہے یا پھر دن سے مراد نصف النہار شرعی ہے جو صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک (کے مجموعی وقت کا نصف) ہے اس صورت میں نصف النہار زوال سے اتنا وقت پہلے آئے گا جو قابل اعتبار ہو۔

''قنیہ'' میں ہے: زوال کے قریب مکروہ وقت کی مقدار میں اختلاف ہے۔

بعض علما نے فرمایا:''نصف النہار سے زوال تک ہے، کیوں کہ ابو سعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے نصف النہار سے زوال تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔''
رکن الدین الصباغی نے کہا:''یہ کتنا اچھا استدلال ہے، کیوں کہ ایسے وقت میں نماز سے منع کیاگیا ہے جس کی مقدار میں نماز کی ادائیگی کا تصور کیا جاسکتا ہے۔''

''قہستانی'' میں اس قول کو ماوراء النہر کے ائمہ کی طرف منسوب کیا ہے کہ اس سے مراد نصف النہار عرفی ہے اور نصف النہار شرعی مراد لینے کے قول کو آئمہ خوارزم سے منسوب کیا ہے اور اس سے مراد ہے ضحوۂ کبریٰ سے زوال تک کا وقت۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد2،ص:29،داراحیاء التراث العربی ،بیروت)

فتویٰ آئمہ خوارزم کے قول پر ہی ہے کہ زوال کا وقت نصف النہار شرعی یعنی ضحوۂ کبری سے زوال تک ہے۔ نصف النہار شرعی سے مراد یہ ہے کہ طلوعِ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک وقت کی جو کل مقدار بنتی ہے، اس کا نصف نکال کر اسے صبح صادق کے وقت میں جمع کیا جائے، جو جواب آئے گا، وہ نصف النہار شرعی یا ضحوۂ کبریٰ کہلائے گا اور نصف النہار شرعی سے زوال تک کے وقت میں نماز کا ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اس وقت کی مقدار موسم سرما اور موسم گرما میں بدلتی رہتی ہے۔ پاکستان میں سال کے مختلف ایام میں اندازاً یہ وقت تقریباً 35تا45منٹ بنتا ہے۔

عصر کی نماز کا وقت
سوال: شافعی اور حنفی مسلک کے مطابق عصر کی نماز کے اوقات میں تقریباً ایک گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔ میں جس ملک میں رہتا ہوں، وہاں شوافع کی اکثریت ہے اور وہاں زوال کے بعد جب سایہ ایک مثل ہوجائے تو عصر کی جماعت ہوجاتی ہے۔جب کہ فقۂ حنفی کے مطابق اس وقت تک ظہر قضا نہیں ہوئی ہوتی اور جو بھی حنفی مسلک اس وقت نماز پڑھتا ہے، وہ قضا نہیں بلکہ ادا ہوتی ہے، لیکن جب یہاں عصر کی جماعت ہورہی ہوتی ہے تو اگر بالفرض میں نے ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو تو میں اس وقت ظہر پڑھ رہا ہوتا ہوں، جب کہ مسجد سے عصر کی جماعت کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں میری ظہر کی اس نماز کا کیا ہوگا جو میں نے 4-15پر یہ سوچ کر ادا کی کہ ابھی ظہر کا وقت باقی ہے، جب کہ اس وقت یہاں عصر کی جماعت ہوچکی تھی۔

دوسری بات یہ کہ عصر کی جو نمازیں جماعت کا ثواب پانے کے لیے اول وقت میں پڑھی جاتی ہیں وہ کہاں شمار ہوں گی؟ (فیصل اکبر، دبئی)

جواب: امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک سایہ ظلِ اصلی کے علاوہ دو مثل نہ ہوجائے، وقت عصر شروع نہیں ہوتا اور صاحبین کے نزدیک ایک ہی مثل کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔ آئمۂ ثلاثہ کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہوگا اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک دو مثل سائے سے شروع ہوگا۔ علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر المرغینانی حنفی لکھتے ہیں:''نمازِ عصر کا اول وقت جب ظہر کا وقت ختم ہوجائے، دونوں قولوں پر اور عصر کا آخر وقت جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہو۔''

امام اعظم ابو حنیفہ کا ایک قول ظہر کے وقت آخر اور عصر کے وقت اول کے بارے میں مثل اول کا ہے یعنی مثلِ اول کے اختتام پر ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا البتہ عصر کا وقت مثلِ ثانی کے دخول سے پہلے شروع نہیں ہوگا۔ مثل اول کے اختتام اور مثل ثانی کے دخول کے درمیان کا وقت مہمل ہے۔ اگر نماز عصر کو مثلِ ثانی تک مؤخر کرنے سے نماز عصر کی جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ جماعت کو ترک کردے اور نمازِ عصر مثلین کے دخول پر پڑھے۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:''اور اگر مثلین تک نماز عصر کی تاخیر سے جماعت کا فوت ہونا لازم آتا ہو تو دیکھا جائے گا کہ تاخیر اولیٰ ہے یا نہیں؟ اور بہتر پہلی صورت ہے (یعنی جماعت ترک کردے اور تنہا اپنی نماز مثلین کے بعد پڑھے) ''

عبارات فقہا میں چوں کہ مفہوم مخالف حجت ہوتا ہے لہٰذا علامہ شامی کے کلام کا مفاد یہ ہوگا کہ اگر نمازِ عصر جماعت کے ساتھ مثلِ اول کے اختتام پر پڑھی جائے تو نماز ہوجائے گی، البتہ ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے، لہٰذا آپ نے جو نمازیں شافعی امام کے ساتھ مثل اول کے اختتام پر پڑھی ہیں، وہ صحیح ہیں، ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسرا عمرہ اور حلق کا مسئلہ
سوال: اگر کوئی شخص عمرے کے لیے جاتے وقت سر پر (ہلکی موٹی سی) مشین چلواکر گیا۔ دوسرے دن وہاں پہنچ کر عمرہ ادا کرنے کے بعد سر پر باریک مشین چلوائی، بلیڈ نہیں لگوایا توکیا دم واجب ہوگا؟
(محمد عمران عطاری، بفرزون، کراچی)

جواب: حج یا عمرے کے بعد حلق یا قصر کرنا واجب ہے۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص کے سر پر بال نہ ہوں، اسے بھی استرا پھروانا واجب ہے۔ کسی سبب سے اگر سر منڈوا نہیں سکتا اور سر پر اتنے بال نہیں کہ جنہیں تقصیر (کم) کروالے تو عذر کے سبب سر منڈوانا اور کتروانا دونوں ساقط ہوگئے۔

علامہ نظام الدین لکھتے ہیں:''جب حلق کرانے کا وقت آگیا لیکن پہلے منڈوانے کے سبب یا کسی اور وجہ سے اس کے سر پر بال نہیں، وہ اپنے سر پر استرا چلائے گا، اس لیے کہ اس سے اس کے سر پر جو بال ہوں گے، وہ انہیں لے لے گا اور جو بال دور کرنے سے عاجز ہو تو اس سے ساقط ہوجائے گا اور جو عاجز نہ ہو، اس سے ساقط نہیں ہوگا۔ پس مشائخ کا اس امر میں اختلاف ہے کہ (آیا سر پر بال نہ ہونے کی صورت میں) استرے کا چلانا واجب ہے یا مستحب اور صحیح یہی ہے کہ واجب ہے۔''

تاہم شرعی مسئلہ یوں بھی ہے کہ استرے سے منڈوانے یا کتروانے کے علاوہ اگر کسی اور چیز سے بال دور کردیے تو بھی جائز ہے۔

علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں کہ حلق ہر ایک کے لیے افضل ہے، اگرچہ (بالوں کو) دور کرنا کسی طریقے سے ہو مثلاً چونے سے جب بھی جائز ہے۔'' پس مذکورہ صورت میں کوئی دم لازم نہیں ہوگا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں