چائے کے دو گھونٹ

ہمارے ایک باس تھے ان کا تو بس ایک یہی کام تھا کہ پیون(peon)کو آواز لگاتے بشیر چائے

fnakvi@yahoo.com

کچھ لوگ چائے نہیں پیتے بلکہ لگتا ہے کہ اسٹاک کرتے ہیں کچھ لوگوں کو پانی کی پیاس کی طرح چائے کی پیاس لگتی ہے تو کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ نہ ذائقے سے مطلب نہ دودھ پتی کی کوالٹی مدنظر، مگر گرم پانی کی طرح چائے ملتی رہنی چاہیے اکثر تو اتنے پیاسے ہوتے ہیں کہ کھانا پانی نہ ملے مگر چائے ہونی چاہیے، ہمارے ایک باس تھے ان کا تو بس ایک یہی کام تھا کہ پیون(peon)کو آواز لگاتے بشیر چائے۔ بشیر بوتل کے جن کی طرح چائے حاضر کردیتا مگر ہوتا یہ کہ چائے پڑے پڑے اپنی ناقدری پر آنسو بہاتی ٹھنڈی ہوجاتی مگر صاحب کو چائے پینے کا خیال بھی دل میں نہ آتا کافی دیر گزرنے کے بعد کچھ احساس ہوتا تو پھر آواز لگتی بشیر چائے یہ تو ٹھنڈی ہوگئی دوسری لاؤ ۔ بشیر بھی کچھ ایسے ترنت جاتے چائے کا کپ لے آتے تو حیرت ہوتی مگر اس کپ کا بھی وہی حشر ہوتا جو پہلے کا ہوا تھا۔

ہماری ناقص عقل میں تو کچھ نہ آتا سوائے یہ سوچنے کے کہ سر چائے پیتے کیوں نہیں اور بشیر چائے فوراً لے آتا ہے اس میں کیا ماجرا ہے؟ آخر ایک دن بشیر سے یہ راز اگلوا ہی لیا کہ بھائی! آخر یہ ماجرا کیا ہے دن رات ہم تو اس فکر میں گھلے جا رہے ہیں تو اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں گھمائیں ادھر ادھر دیکھا کچھ مسکرائے تو کچھ گھبرائے مگر ہمیں اپنے قیمتی راز سے آگاہ کردیا کہ صاحب چائے وائے کہاں پیتے ہیں اس لیے ہم وہی کپ دوبارہ لے آتے ہیں صاحب بھی خوش اور ہم بھی خوش۔ لو جی کھودا پہاڑ نکلا وہی ''چائے کا کپ'' اس لیے ہمیں اندازہ ہوا کہ صاحب چائے کے کپ کو تکتے تکتے بیٹھ کر ہی مختلف آئیڈیاز پر کام کرتے ہیں چائے کا کپ نہ ہوا ہمراز دمساز ہوگیا کہ جسے دیکھ کر دل میں اترتے ہیں غیب سے مضامین کیا کیا۔

مگر ہمارا تو یہ حال ہے کہ چائے ہو مگر بہت بہت اچھی ہو ورنہ نہ ہو، مگر ظالم زمانہ کیا جانے اس نے تو درد ہی دینا ہے تو اسی لیے پچھلے دو ہفتے سے ہم نے چائے کو صرف نظر بھر کے دیکھا۔ ہوا یہ کہ ہمارے آفس کی آنٹی جوکہ پورے آفس کو اپنی چائے دانی یعنی اپنی چائے بنانے کی وجہ سے عزیز ہیں وہ چھٹیوں پر اپنے شہر خپلو چلی گئیں اب یہ دنیا تو ویسے ہی دو دلوں کے درمیان فاصلے بڑھانے میں کمربستہ رہی ہے ہمارے اور آنٹی کے درمیان ویسے ہی زمینی فاصلہ تو بڑھا ہی مگر کچھ قدرت نے بھی دنیا والوں کا ساتھ دیا اور بارشوں بلکہ طوفانی بارشوں نے وہ سماں باندھا کہ الامان۔

ادھر گلیشیئر پگھلنے کو بے تاب ہوگئے کہ اب تو آنٹی اور ہمارے درمیان مزید دوریاں پیدا کرکے ہی رہیں گے انھوں نے ایسی کارروائی ڈالی کہ پیوشے اور خپلو کا زمینی رابطہ جو اسکردو گلگت سے جڑا ہوا تھا وہ پل ہی بہہ گیا اب بیچ میں ایک دریا ہے جسے پار کرکے انھیں آنا ہے مگر پُل پل میں تو نہیں بن سکتا اسی لیے اب دیکھیں کب بنتا ہے اس لیے وہ جو صرف پندرہ دن کی چھٹیوں پر گئی تھیں وہ جناب تین مہینے سے وہاں محصور ہیں اور ادھر ہم اور دو آنٹیاں رہ گئیں۔ اور ہم ہیں کہ اس آس پر جی رہے ہیں کہ کبھی تو دل زار انھیں بھی چائے بنانا آئے گی وہی دودھ وہی پتی مگر خدا کی قدرت ہر روز ایک نئی شکل نیا ذائقہ ہمارا منتظر ہوتا ہے مگر ہم بھی وہ ڈھیٹ کہ نئے کو تو دن بھی نہ دیکھا پرانے کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں ایک دن ہم نے سوچا کہ یہ روز روز کی نصیحتوں فصیحتوں سے بہتر ہے کہ ایک دن ان کو اپنے عملی تجربے سے روشناس کرایا جائے اور ایک اچھی چائے کیا ہوتی ہے بتا کر داد سمیٹی جائے کیونکہ نصیحتوں سے آنٹیوں اور ہمارے درمیان تعلقات ذرا خراب سے ہو رہے تھے تو جناب آخر ہم نے کوکب خواجہ کے اسٹائل میں اپنی کارروائی کا آغاز کیا اور خود سے تمام ادارے کے لیے چائے بنانی شروع کی دونوں آنٹیوں کو اپنے دائیں اور بائیں کھڑا کیا اور کسی ماہر شیف کی طرح ہر چیز کا تناسب اور طریقہ بتایا اور ایک بہترین چائے بقول مس ثمینہ کہ آج زندگی کی بہترین چائے پی رہی ہوں بنا ڈالی۔


دوسرے دن بھی ہمارا خیال تھا کہ ہم پھر اپنے ہنر کے جوہر دکھائیں بقول راشد کے اگر ہم کبھی بے روزگار ہوئے تو اپنا چائے کا ہوٹل باآسانی کھول سکتے ہیں واثق امید ہے کہ زیادہ پیسہ بنالیں گے مگر حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے اور ہماری دوسری کوشش پر آنٹیوں نے پانی پھیر دیا کیونکہ ان کو لگا کہ کہیں ہم ان کی روزی پر لات نہ ماردیں اسی لیے ہم پر پابندی لگادی گئی کہ ہم آفس کچن کے پاس سے بھی نہ گزریں بحالت مجبوری ہم نے یہ بات مان لی مگر پھر ہماری زندگی میں وہی دن لوٹ آئے جن کے لیے شاعر نے کہا ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔ ان دنوں ہم نے چائے کے اتنے رنگ اور ذائقے دیکھے جو تا زندگی نہ دیکھے اور نہ تمنا ہے کہ دیکھیں۔

بڑی عزت و احترام سے ایک درخواست لکھی جس پر آفس کے تمام متاثرین چائے کے دستخط کروانے کے بعد ان کی خدمت میں پیش کی کہ جو کچھ آپ لوگ کر رہے ہیں مختلف ذرائع ہماری خدمت میں دن بدن پیش ہو رہے ہیں سو بسم اللہ مگر اس کا نقصان ہو رہا ہے کہ اس سے بھلا کسی ایک کا نہیں ہورہا بلکہ الٹا نقصان اکاؤنٹ سیکشن کا ہو رہا ہے اس لیے اس چائے کے جھنجھٹ کو ہی آفس کی دنیا سے نکال دیا جائے مگر جس طرح ہماری حکومت پر عوام کی رائے کا اثر نہیں ہوتا اسی طرح ہماری عزت مآب آنٹیوں کے کان پر بھی جوں نہ رینگی الٹا ہمارے خلاف ایڈمن میں مقدمہ درج ہوگیا کہ ہم نے دھاندلی کی ہے اور غلط طریقے سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا ہے اب جناب ہم ایڈمنسٹریٹر کی خدمت میں بلا لیے گئے ہم بھی عمران خان کی طرح اپنے رفقا کی معیت میں داخل دفتر ہوئے ہونٹوں پر ہنسی اور ہاتھ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے بھرپور اعتماد مگر لرزتی ٹانگوں سے ہم نے ایڈمنسٹریٹر کا سامنا کیا۔

انھوں نے ہم سے پوچھا یہ کیا چکر ہے آپ نے اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کاموں میں دخل اندازی کب سے شروع کردی؟ ہم نے کہا جناب مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا مگر ہمارا قصور تو بتائیں؟ خیر انھوں نے بتایا کہ ماجرا کیا ہے، ہم نے کہا جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کریں کہنے لگے اجازت ہے۔ ہم نے کہا آپ صرف ایک گھونٹ آنٹی کی بنائی ہوئی چائے پی کر دیکھ لیں تاکہ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوجائے۔ کہنے لگے ہم نے ساری زندگی جو کام نہ کیا اب کیسے کریں۔ ہم نے کہا انصاف کا تقاضا تو یہی ہے ورنہ آپ کو اصل بات کا علم کیسے ہوگا؟

آنٹی صاحبہ چائے بناکر لائیں اور خدمت میں پیش کی گئی۔ صاحب نے دو گھونٹ بھرے پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ دو گھونٹ کس طرح باہر نکلے سر کی شکل دیکھنے اور دکھانے والی تھی ہم اپنا مقدمہ مگر جیت گئے اسی وقت فرمان جاری ہوا کہ اگر آیندہ آنٹی نمبر1 چائے بناتے ہوئے پائی گئیں تو جو چور کی سزا وہ ان کی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اس نعمت عظمی سے محروم ہیں اب دن رات اسی امید پر کٹ رہے ہیں کہ جانے والے کو آخر لوٹ کے آنا ہی ہے 'خپلو' کا راستہ کبھی تو کلیئر ہوگا اور آنٹی فاطمہ کبھی تو جلوہ افروز ہوں گی تو پھر وہی دن آجائیں گے کہ

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
Load Next Story