اور اب سانحہ قصور

یہ جشن آزادی کا مہینہ ہماری آزادی کی یاد منانے کا مہینہ ہے لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

قصور کے بے قصوروں کا بھلا کیا قصور تھا کہ ان کے معصوم پھولوں کو اس قدر درندگی اور سفاکیت کے ساتھ اس گھناؤنے اور ہوش ربا انتہائی مذمت نیز ناقابل معافی انداز میں مسئلہ اور کچلا گیا۔ 280 معصوموں سے 25 سے زائد وحشی درندوں نے ان کی معصومیت چھین لی اور قابل اعتراض فحش فلمیں جوکہ بچوں کے ساتھ زیادتی پر مبنی ہیں فلمائی گئیں اور انھیں مختلف فحش ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیا گیا، نیز بچوں کے والدین کو ان ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کرکے ان سے خاطر خواہ رقم بھی بٹوری گئی۔

اب تک 480 انتہائی قابل اعتراض فحش ویڈیوز برآمد ہوچکی ہیں، ایک متاثرہ بچے کی ماں کا بیان ہے کہ گاؤں میں ہر بچہ ان لوگوں کی زیادتی کا شکار ہوچکا ہے، بہرحال قصور کا واقعہ تو میڈیا کی نگاہوں میں آگیا، روزانہ ہی نہ جانے کتنے ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو درحقیقت ہمارے معاشرے میں وحشت و بربریت کی علامت اور کلنک کا ٹیکہ ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرتی کرداروں کی ذہنی سطح کی شرمناک عکاسی کرتے ہیں تاہم ہمارے شہروں اور دیہاتوں کی یہ روز کی کہانی، اکثر ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے اور یہ ہولناک واقعات اکثر رات کے اندھیروں ہی میں کہیں کھو جاتے اور بند گلیوں ہی میں دفن ہوجاتے ہیں کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوپاتی، کوئی روکنے والا ہے نہ ٹوکنے والا، خود پولیس کہتی ہے کہ ایسا تو یہاں ہوتا ہی رہتا ہے۔

بس اللہ کی پناہ مانگنے کا مقام ہے، قصور کے دل خراش، وحشت ناک و ہولناک قابل گرفت و قابل مذمت واقعے پر تو سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا سانحہ پہلے کبھی رونما نہیں ہوا، یہ جنسی اسکینڈل بچوں کے ساتھ زیادتی کا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا جا رہا ہے اور دیکھیے یہ داغ لگا بھی کس شہر کو، میرے بابا بلھے شاہؒ کے شہر کو، ہائے یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ عظیم صوفی بزرگ و عظیم المرتبت شاعر جن کی شاعری میں اسلام اور انسانیت سے محبت کا درس ہے جن کی زندگی قصور میں روشنی پھیلانے میں صرف ہوئی آج اسی عظیم ہستی سے منسوب اس شہر کا چرچا ہر چہار سو کیسے بدنام زمانہ واقعے سے منظر عام پر آیا ہے، ہم نے اپنے بزرگوں سے کبھی کچھ نہیں سیکھا، ان کی زبانیں گھس گئیں، عمریں بیت گئیں ہمیں سمجھاتے سمجھاتے، انسان بناتے بناتے، تبلیغ کرتے کرتے لیکن سوائے چند ایک سلیم الفطرت انسانوں کے ہمیشہ گمراہی میں ہی گم رہے۔ قصور کا واقعہ بھی یہی کچھ بیان کرتا اور نوحہ کناں نظر آتا ہے، بربریت کے اعتبار سے یہ سانحہ کسی طور سانحہ پشاور سے کم نظر نہیں آتا۔

خبر ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی میں دس شہر بہت بدنام ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود حکومت ایسے عجیب و غریب اور ناقابل معافی جرم کی روک تھام اور عوام الناس کے تحفظ کے ضمن میں کیا کر رہی ہے؟ اور اگر کچھ کر رہی ہے تو پھر ایسے گھناؤنے واقعات کیسے جنم لے رہے ہیں کیوں ان پر قابو نہیں پایا جا رہا؟ یہ تو سب سے ہولناک دہشت گردی ہے ایسے واقعات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلنے چاہئیں اور مجرموں کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئیں جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک ہمارا معاشرہ ایسی غلاظتوں سے پاک نہیں ہوپائے گا۔


آپ کو شاید یاد ہو اس سے قبل ایک جاوید اقبال نامی مجرم نے بھی 100 بچوں کو قتل کرنے کا اعتراف کرکے پورے ملک کا دل دہلا دیا تھا جس دردناک انداز میں اس نے سو بچوں کو یکے بعد دیگرے قتل کیا وہ ہولناک داستان بھی کبھی بھلائی نہیں جاسکتی تاہم حکومتی سطح پر تدارک اور روک تھام ندارد ہے۔ ورنہ قصور کا سانحہ سارے جہاں میں جگ ہنسائی اور پاکستان کی بدنامی کا باعث نہ بنتا، ایسے ناقابل معافی جرم نہ صرف حکومت بلکہ پوری قوم کے منہ پر طمانچہ ہیں، یہ ہماری بے حسی کا شاخسانہ ہیں۔ اب دیکھیے 25 سے زائد افراد پر مشتمل یہ گینگ جس کو اعلیٰ سطح کے لوگوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی گزشتہ 10 برس سے اس شرمناک فعل میں مبتلا و مصروف تھا لیکن اوپر سے نیچے تک سب ملے ہوئے تھے اور کوئی روکنے ٹوکنے کی بجائے اس شرمناک عمل کو تحفظ اور بڑھاوا دینے میں سرگرم عمل رہے، کیا یہ انکشاف ہوش ربا اور قابل مذمت نہیں کہ اس ناقابل معافی جرم میں خود پولیس اور سیاستدانوں کا بھی ہاتھ تھا۔

یہ جشن آزادی کا مہینہ ہماری آزادی کی یاد منانے کا مہینہ ہے لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ آزادی کا سب سے بڑا تقاضا تحفظ ہے، خوف سے نجات ہے، شاد و آباد اور خوشحالی ہے، قصور جیسے واقعات ہماری آزادی نہیں یرغمالی کا ثبوت ہیں، یہ حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے کہ دائمی اور دوررس بنیادوں پر عوام کے تحفظ و بقا اور خوشحالی کے لیے حقیقی اقدام اٹھائے جوکہ پوری قوم میں حقیقی آزادی کے احساس کو مستحکم کرے، اور اس کا درست وقت یہی ہے ہم اگر اپنی آزادی کے 68 برس بعد بھی ان بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقین نہیں بنائیں گے تو پھر بھلا کب بنائیں گے؟ ہمیں سوچنا ہوگا اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے، غرض پوری ملک قوم کے لیے ، ہم نے پاکستان ایسے ناقابل ذکر اور ناقابل برداشت حادثوں کے لیے نہیں بنایا تھا۔

آنکھیں بند کرلینے سے حالات نہیں بدلا کرتے، قوموں کی تقدیر عملی اور حقیقی اقدام اٹھانے سے بدلا کرتی ہے حکومت کی جانب سے سانحہ قصور کی جوڈیشل انکوائری اور جے آئی ٹی کی تشکیل کا اعلان احسن اقدام ہے تاہم اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ حکومت کو ہر معاملے میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی عادت ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک میں اگر قانون کی حقیقی بالادستی ہو اور انصاف پر مبنی نظام کا قیام ہو تو ایسے واقعات ہی رونما نہ ہوں جن کے لیے جوڈیشل کمیشن یا جے آئی ٹی کی زحمتیں اٹھانی پڑیں، مسائل جنم لیں یا مسائل کے حل میں اس قدر وقت ضایع ہو۔ بہرحال سانحہ قصور تو خود ہمارے عدالتی نظام پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے، پولیس، سیاستدان اور ہمارا عدالتی نظام یہ تینوں درست ہوجائیں تو ہمارا ملک خودبخود گل و گلزار ہوجائے، اگرچہ یہ کام مشکل ہے تاہم ناممکن ہرگز نہیں۔

بدفعلی اور وہ بھی معصوم بچوں کے ساتھ، پھر اس کی ویڈیوز بنانا، بلیک میلنگ کرنا، اہل خانہ اور لواحقین کو ستانا، بھاری مالیت ان سے وصول کرنا، ایسی فلموں کو پوری دنیا میں پھیلانا اور وطن عزیز کو بدنام کرنا ایسے بدترین گناہ کی اسلام میں کوئی معافی نہیں، پاکستانی معاشرہ آج جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی، اخلاقیات کا پورا باب ہے جسے امت نے بھلا دیا فراموش کردیا ہے، ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں اس اسلام کے قلعے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام کے لیے بھی رسوائی کا باعث ہے، یہ حکومتی اولین ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کے قلعے میں اسلام کی پاسداری اور عملداری کو یقینی بنائے ہر قیمت پر۔
Load Next Story