قصہ ایک شہر کا…

ہم اسی شہر کو زیر بحث لے آتے ہیں کہ جس کا ذکر ساری دنیا میں ہے

WENTWORTH:
اس کالم کے آغاز سے پیشتر ہم یہ عرض کردیں کہ ہماری تمام تر ہمدردیاں اور اخلاص ملک اور قوم کے ساتھ ہیں اور ملک اور قوم کی ہم وہی تعریف درست جانتے ہیں جو ساری دنیا میں مروج ہے۔ پاکستان کے اکثر شہروں میں حالات کسی نہ کسی وجہ سے بہتر نہیں ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہاں حالات بہتر نہیں ہوسکتے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حالات اسی طرح رکھنے کی تمام تر کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ خصوصاً سیاسی مقاصد کی بار آوری کے لیے ہوتا ہے اسے بڑے پس منظر میں انڈوپاک کی سیاست اور چھوٹے پس منظر اور پیش منظر میں پاکستان کی سیاست کہا جانا چاہیے۔

ہم اسی شہر کو زیر بحث لے آتے ہیں کہ جس کا ذکر ساری دنیا میں ہے اور ساری دنیا میں اسے یہ شہرت دینے والے اور کوئی نہیں ہم سب ہیں اور الا ماشا اللہ ہم نے حسب توفیق اس میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے اور بعض کالم نگاروں کے مطابق ''اپنا اپنا حصہ ڈالا ہوا ہے۔''اپنے حالات اور بدامنی کی وجہ سے ابھی تک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے شاید توجہ نہیں دی ہے یا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ چند سال میں یہ ریکارڈ قائم ہونے والا ہو اور پرانا ریکارڈ ٹوٹنے والا ہو۔ ہر دور میں، ہر حکومت میں اور ہر حکومت نے اس شہر سے بے اعتنائی کی انتہا کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جس صوبے کا یہ شہر ہے اس کی صوبائی حکومت نے بھی ہر دور میں اس کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا ہے خوبی یہ ہے کہ یہ شہر ہر آنے والے کے لیے تین چوتھائی صدی سے بازو کھولے موجود ہے ہر آنے والا اپنا پرایا، آپ جس طرح جس کی تعریف کرنا چاہیں کرلیں ہمارے پاس تو اب وہ بینائی نہیں کہ ہم لفظوں کے وہ معنی ہی پہچان سکیں جو لغت میں درج ہیں۔ اس شہر نے لغت میں درج لفظوں کے معنوں کو بھی انتہائی درجے تک پہنچا دیا ہے کہ اخلاص کے سارے معنی بدل دیے، مروت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، مہمان داری کے سارے تقاضے بام عروج سے بھی کہیں اور آگے پہنچا دیے۔ یہ شہر صرف اپنے ملک کے لوگوں کا کفیل نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کا مہماندار ہے اور تھا اور رہے گا۔

حیرت یہ ہے کہ ایک وزیر صاحب نے فرمایا کہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا وژن اختیار کرنا چاہیے تاکہ صوبے ترقی کریں۔ کمال ہے آپ بجلی کا بحران پیدا کریں تو اس قسم کی گفتگو پاکستان میں آپ ہی کرسکتے ہیں، ہم تو یہ جرأت بھی نہیں کرسکتے۔ تو اگر دوسرے وزرائے اعلیٰ کے بڑے بھائی وزیر اعظم ہوتے، ان کو فنڈز کی کھلی چھوٹ ہوتی جو گزشتہ 25 سال سے تھے تو ہر صوبہ اور شہر اسی طرح ترقی کرتا جس کی طرف انھوں نے انگلی اٹھائی ہے۔ دوسرے صوبے تو اپنے حصے کے ترقیاتی فنڈز کا مطالبہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں۔ جس صوبے سے آپ کا تعلق ہے وہاں تو فنڈز کی ''فراوانی'' ہے شاید ''فراہم'' پہلے کردیے جاتے ہیں اور ''منظوری'' بعد میں لی جاتی ہے یہ ''افہام و تفہیم'' ۔۔۔۔۔ وہ سیاسی سکھا رہے تھے آپ نے ''معاشی'' بھی سیکھ لی اور اس لفظ سے پہلے کچھ لکھا جاسکتا ہے وہ بھی کیونکہ وہ تو پرانا طریقہ کار ہے صرف اس کو ''لیگل فریم ورک'' میں آپ لے آئے ۔


بات کہیں اور نکل جائے گی کیونکہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہ موضوع جماعت اور حکومت وہ ہیں کہ اس پر انسائیکلوپیڈیا لکھے جاسکتے ہیں۔ تو اس حکومت کے بجلی یافتہ وزیر نے کہا تھا کہ دوسرے وزرائے اعلیٰ ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے وژن کو اختیار کریں، تو وہ ''وژن'' تو ہم نے تفصیل سے بتادیا اب آپ ملک کے بیک وقت چار وزیر اعظم کا سسٹم لے آئیں تو سارے صوبے ترقی کر جائیں گے ملک کا چپہ چپہ ترقی یافتہ اور روشن نظر آئے گا ایسا نہیں جیسا آپ کرتے ہیں ''روشن!'' ویسا جیسا دنیا بھر میں کیا جاتا ہے ''روشن''۔ خیر چھوڑیں وقت کیوں ضایع کریں اس بے وقوفی کی بات پر۔ ہم بات کر رہے تھے شہر کی جس نے دامن کھول کر دنیا بھر کے لوگوں کو 70 سال کے قریب کر دیا ہے اپنے یہاں ہر قسم کا Root Permit دے رکھا ہے کہ جو چاہو کرو، بس جاؤ مجھ میں۔ جڑیں پکی کرلو اپنی اور جڑیں اکھاڑ دو میری! اور یہی کر رہے ہیں لوگ اس کے ساتھ۔ اس کی زمینیں تو اب بچنی مشکل ہیں۔

آبادی کا ''مارکیٹ ریٹ'' کیا ہے، کیا یہ کراچی کے رہنے والوں جن میں1947 کے آنے والے بھی شامل ہیں کی دسترس میں رہیں گی کیا ان ''آباد'' منصوبوں سے اس شہر کو کوئی فائدہ ہوگا یا صرف ''کسی'' کو یا چند ''کسی'' کو فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اس پر تو خود اس کے اپنے ''ذوالفقار'' کی بھی نظر ہے۔ جھگڑے کی ایک وجہ یہ بھی تو ہوگی دروغ برگردن راوی اور پاکستان پیپلز پارٹی جس میں سے اب ''پیپلز'' غائب ہے۔ وہ بھی تو Own کرنے کادعویٰ کرتی ہے اس شہر کو۔ سارے چینل اب صرف ایک کام پر لگ گئے ہیں وہ سارے ''کسوٹی'' کھیل رہے ہیں کہ ''یہ شہر کس کا ہے'' ۔۔۔۔۔"Hot Issue" بھی ہے اور "Rating" بڑھانے کا ذریعہ بھی۔ اس سارے قصے میں جو تمام لوگ مل کر کہہ رہے ہیں، سن رہے ہیں، کھیل رہے ہیں کیا نہیں ہے؟ اس شہر کے عوام اور ان کی مصیبتیں، ان پر کوئی پارٹی توجہ دینے کوتیار نہیں ہے۔ سیاست نے کیا رنگ دکھایا۔ کون گرگ باراں دیدہ رہا۔۔۔۔ اصل میں ''بھائی'' کون ثابت ہوا؟ اور سمجھ کس کو رہے تھے ''بھائی''۔ بات سمجھ میں آئی، آئی گئی ہوگی مسئلہ دبئی اور لندن کا ہے۔ پس رہا ہے یہ شہر اور اس کے رہنے والے، ظالم لوگ ہیں سیاست کر رہے ہیں پورے شہر کی ''مکانوں و دکانوں، لوگوں'' سمیت۔ شہری بھی گویا اس سیاست میں جماعتوں کی جائیداد ہیں۔

''سیاست میں کوئی دن آخری نہیں اور کوئی ہمیشہ دوست اور دشمن نہیں۔'' یہ بات اس شہر پر صادق آتی ہے کل جہاں کسی کا ''طوطی'' بول رہا تھا وہاں آج ''مرغے'' پکڑے جا رہے ہیں۔ جب پریڈ ہوتی ہے اور فوج کہیں رکتی ہے تو آس پاس کے لوگ ''فوج کے ساتھ کھڑے ہیں'' ہی تو کہا جائے گا۔ آواز نکالتے ہی رائے ونڈ نے سرخ جھنڈی دکھادی (ان کی خود جان پر بنی ہے) تو دبئی جانا پڑا۔ جب کوئی بتا دیتا ہے ''حالات ٹھیک نہیں'' تو وہ دبئی چل دیتے ہیں۔ ''لوچل دیے وہ ہم کو تسلی دیے بغیر۔''

اب تسلی والا سلسلہ بھی خطرے میں ہے اور وہاں سے کہہ دیا گیا ہے کہ ''تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے انھوں نے ہم سے یہ سلوک کرکے'' تو بھائی! آپ دوسرے کے جھگڑے میں پڑے کیوں وہ دونوں ایک ہوگئے مار آپ کو پڑی۔ سیاست بدل رہی ہے اس کا تمام تر انحصار اب ''دھوکے'' پر ہے کون کتنا کامیاب ''دھوکے باز'' ہے وہی بڑا سیاستدان ہے۔ تو یا تو سچی سیاست کریں یا پھرمکمل ''دھوکہ'' آدھا آدھا مشکل ہے۔ یہ ہمارا خیال ہے ایسے ہی جیسے ہمارے دوسرے خیال غلط ہوتے ہیںیہ بھی غلط ہوسکتا ہے چاہا تو یہ تھا کہ اس شہر کے مسائل پر کچھ بات ہوگی، اس کے Over Populated ہوجانے پر بات کریں گے۔ مگر ہم آپ کو جانتے ہیں قارئین قوم آپ شہر بھی جان گئے ہوں گے، بات بھی سمجھ گئے ہوں گے۔ ایک اور کالم ادھار رہا اس شہر پر بشرط زندگی!
Load Next Story