کم عقل نہیں ہوں سمجھے

خام خیال لوگ تصور کرتے ہیں کہ جسمانی کمزوری و فطری ساخت بنتِ حوا کے نقائص ہیں جو اُن کے کم عقل ہونے کی دلیل ہیں۔

خوا تین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا اور صنفی امتیاز برتنا ایک وطیرہ بن چکا ہے۔ فوٹو :فائل

محترمہ آپ نے یہ پھر درست طریقے سے نہیں کیا۔ دیکھئے، گرائمر کی کتنی غلطیاں ہیں۔ آپ کا دماغ حاضر کیوں نہیں ہوتا؟ براہِ مہربانی اپنی گھریلو مصروفیات گھر تک ہی محدود رکھا کریں، اب آپ جائیے اور جلدی سے اس فائل کو درست کرکے واپس لائیں۔ باس نے نیلی جلد والی فائل میز پر میرے سامنے دھرتے ہوئے جانے کا اشارہ کیا تو میں بھی سکون کا سانس بھرتی ہوئی باہر نکلی اور اسکارف تھوڑا سا کھسکا کر ہینڈز فری کان سے باہر نکالے۔ اُف ایک تو باس کے ناقابل برداشت بنتے منہ کے زاویے اور اوپر سے یہ ریڈیو ایف ایم والوں کا بھی دہرا معیار، کہاں کشور کمار کی سریلی آواز اور کہاں یکا یک الطاف حسین کے تم تو ٹھہرے پردیسی پر تان توڑی۔

ایک منٹ، اب آپ یہ مت سوچئے گا کہ جب میں کانوں میں ہینڈز فری ٹھونسے کشور کمار کی آواز سے لطف اندوز ہورہی تھی تو باس کی گفتگو کس طرح سن لی تو جناب یہ تو گزشتہ 2 برس سے مسلسل ہونے والی مشق کا نتیجہ ہے۔ اب تو معاملہ یہ ہے کہ میں ان کے منہ کے اتار چڑھاؤ سے پوری گفتگو اخذ کرلیتی ہوں۔ میری سی وی میں اب اس ایک منفرد خوبی کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ میری ایک دفتر کی کولیگ کا خیال ہے کہ جب باس گھر سے سُن کر آتے ہیں تو سنانا ان کا حق ہے۔ بھئی کہیں تو انہوں نے بھی اپنی بھڑاس نکالنی ہے۔ اپنے مردانہ زعم کو تقویت پہنچانے کا اس سے اچھا موقع کہاں میسر آئے گا کہ اپنی سیکرٹری، ماتحت خاتون پر وہ سارا غصہ، بیزاریت اور جھنجھلاہٹ جو جھیل کر آئے ہیں انڈیل دی جائے، کیونکہ آپ کے شاہی مراتب کے آگے ظاہر ہے سننا ہی پڑے گا۔ البتہ ایسے موقع پر ہم اپنے دونوں کانوں کا بالکل ٹھیک ٹھیک استعمال کرتے ہیں۔ جی ہاں ایک کان سے سنو اور دوسرے سے نکال دو۔

یہ صرف میری کہانی تو نہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ تقریباً ہر ملا زمت پیشہ خاتون خانہ کا روز مرہ کا معمول ہے۔ یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ جب تک آپ کے انداز سے رعونت اور طبیعیت سے سقراطی پن اور گفتگو سے فلسفہ اپنے تئیں، کے پھول نہ جھڑیں آپ باس نہیں لگ سکتے۔ اِس موقع پر اُن آٹے میں نمک کی مانند چند باسسز سے معذرت جو اِس رویے کے حامل نہ ہونے کے باوجود گیہوں کے ساتھ گھن کی مانند پس رہے ہیں۔

ویسے یہ ہرگز دروغ گوئی نہیں، کیونکہ اگر آپ ملازمت پیشہ خواتین سے رائے لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ اکثریت کے تاثرات مجھ سے ملتے جلتے ہیں یا مختلف۔ خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا اور صنفی امتیاز برتنا ایک وطیرہ ہے۔ حاکمیت کا احساس جو گھر سے قائم ہوتا ہے اس کا اثر دفتر تک زائل نہیں ہو پاتا، معمولی غلطیوں پر شدید تنقید کا نشانہ بنانا، بعض جگہ اور بعض افراد تو تہذیب کی حدود پھلانگتے ہوئے تضحیک تک جا پہنچتے ہیں۔


مضمون کا لب لباب یہ ہے جناب کہ یہ دفاتر، اداروں میں آپ کے ماتحت خواتین زمہ داریاں نبھانے والی خواتین بھی برابری کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی عزت اور حوصلہ افزائی آپ پر عین فرض میرا مطلب ہے اخلاقی فریضہ ہے۔ ان خواتین کو آپ کی طرح پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ گھریلو امور بھی اسی طرح نمٹانے ہوتے ہیں۔ آپ کی طرح تھوڑی نہ ہیں کہ گھر پہنچے تو صاف ستھرا گھر، مہکتے گرمام گرم کھانے کی ٹرے پیش ہوجائے۔ اُن کی ذمہ داری دہری ہے۔ یہ درست ہے کہ ملازمت کے اصول اور تقاضے مرد و زن دونوں کیلئے باہم یکساں ہیں لیکن کوشش کیجئے کہ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ طنزیہ انداز اختیار کرکے انہیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کے بجائے معروضی انداز اپنائیں، ورنہ دیکھئے سوچنے کا پہلو تو یہ بھی ہے کہ قابلیت میں کسی طرح بھی صنفِ مخالف کسی سے کم نہیں ہوتیں، بلکہ ابھی گذشتہ چند دن قبل انٹر اور میٹرک کے امتحانات کے نتائج نے ثابت کیا بلکہ صرف اِن نتائج پر ہی کیا موقوف کرنا، آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر جگہ نتائج میں طالبات ہی برتر نظر آئیں گیں لیکن کیا کیا جائے کہ اداروں میں صورتحال اس کے برعکس ہوجاتی ہے، جہاں ہر بڑی کرسی پر آپ کو بڑے صاحب ہی نظر آئیں گے نہ جانے کیوں۔۔۔۔۔۔

اگر مشاہدات کا جائزہ لیا جائے تو بنتِ حوا کے لئےابنِ آدم کا معیار ہمیشہ سے دہرا ہی رہا ہے۔ اگر یہ گھر میں بیٹی کی صورت میں آجائے تو قابل احترام و مقدس اور اگر بیوی کی حیثیت سے داخل ہو تو خدمت گذار، وفا شعار ہونا عین فرض۔ خام خیال لوگ تصور کرتے ہیں کہ جسمانی کمزوری اور فطری ساخت بنتِ حوا کے نقائص ہیں جو ان کے خیال میں میرے کم عقل ہونے کی دلیل ہیں۔ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ جب یہ عقل اور وجود اپنی افادیت اور اہمیت سے آگاہ ہوتا ہے تو پھر محض سائن بورڈز کی تشہیری مہم تک نہیں رہتا بلکہ یہ بے نظیر بھٹو کی مانند وزارت کے اعلیٰ منصب تک لے جاتا ہے۔

تو سمجھو اس لطیف تخلیق کو، اونچے منصب پر فائز ہو کر ان پر حکومت کی جاسکتی ہے، اپنے عہدے کا استعمال کرکے ان کی صلاحتیوں پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے، اپنے وسائل کا استعمال کرکے ان کی ترقی کا راستہ محدود کیا جاسکتا ہے لیکن یاد رکھئے کہ تمام تر سخت حالات کے باوجود یہ اپنا وجود اپنی اہمیت تسلیم کرالیتی ہیں۔ چاہے وہ فاطمہ جناح ہو، رعنا لیاقت، نسیم حمید، ارفع کریم یا پھر پرزور قلم کی مالک حسینہ معین، یا آپ کو آسکر جتوانے والی شرمین چنائے، ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والی بے نظیر بھٹو ہو یا گھر کا منتظم میرے جیسی عام ملازمت پیشہ گھریلو خاتون ہو۔

[poll id="617"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story