دیانتدار جے پرکاش بمقابلہ کرپٹ حکمران خاندان
بھارت کے عوام کو آزادی دلانے کے بعد جے پی اپنی زندگی میں ناکام ہو گئے
KARACHI:
انقلابی لیڈروں کی شہرت کا دور مختصر ہوتا ہے۔ وہ اپنی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے برعکس بہت جلد فراموش کردیئے جاتے ہیں۔
مہاتما گاندھی، جنہوں نے برطانوی حکومت کو برصغیر سے نکلنے پر مجبور کیا تھا محض اس بنا پر یاد رکھے جا رہے ہیں کیونکہ ان کی تصویر کرنسی نوٹوں پر چھپی ہوئی ہے۔ یہی معاملہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے بانیوں قائداعظم محمد علی جناح اور شیخ مجیب الرحمن کا ہے۔ ان کی تصویر بھی ان ممالک کی کرنسیوں پر ہے۔
بیچارے جے پرکاش نرائن (جے پی) کے لیے اس قسم کا کوئی اعزاز نہیں،انھوں نے ایک انقلاب کے ذریعے 1977ء میں ملک کو اندرا گاندھی کی جابرانہ حکمرانی کے چُنگل سے آزاد کرایا۔ جب میں پٹنہ میں پہنچا، جہاں پر جے پی پیدا ہوا تھا، تو میں نے ان کی آبائی ریاست بہار میں بھی ان کے بارے میں یہی بے اعتنائی دیکھی۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ میں 11 اکتوبر کو وہاں پہنچا جو جے پرکاش نرائن کی سالگرہ کا دن تھا لیکن کسی مقامی اخبار میں ان کی تصویر تو درکنار ان کا نام تک نہ تھا۔ اس ریاست کی سربراہی وزیراعلیٰ نتیش کمار کے پاس ہے جسے جے پی کے پیروکاروں میں سب سے اہم سمجھا جاتا تھا مگر اس نے بھی اپنے گرو کے جنم دن کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ ملک بھر کے لیے نہ سہی ریاست بہارمیںبھی جے پرکاش نارائن کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئی چھوٹی موٹی سرکاری تقریب منعقد نہیں کی گئی۔
جس ہوائی اڈے کو جے پی کے نام سے منسوب کیا گیا، اس پر نام کے ہجے تک غلط لکھے ہیں۔Jay (جے) کے بجائے Jai (جائی) لکھا ہے۔ خادم خان کے علاقے میں جہاں جے پی کی رہائش گاہ ہے وہاں بھی لوگوں کا کوئی اجتماع نہیں تھا۔ ہم میں سے چند ایک جے پی کے مجسمے کے سامنے قطار بنا کر کھڑے ہو گئے تا کہ ان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا جا سکے۔ جس چیز نے مجھے دھچکہ پہنچایا کہ بعض تعمیراتی کارکن جے پی کی رہائش گاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ جے پی کا کمرۂ مطالعہ اور خوابگاہ البتہ محفوظ ہے۔
بہر حال جے پی وہ واحد شخص ہے جس نے تنِ تنہا جمہوریت کو دوبارہ پٹری پر چڑھایا۔ انھوں نے 1977ء کے انتخابات میں غیر معمولی اختیارات اور بھر پور طاقت والی اندرا گاندھی کی قوت کو توڑ موڑ کر رکھ دیا جو اس وقت ملک کی وزیراعظم تھیں۔ انھوں نے ثابت کر دیا کہ کس طرح ایک عام آدمی اپنا آزادی اظہار کا حق واپس حاصل کر سکتا ہے اور آزادانہ طور پر لکھ سکتا ہے اور زندگی بسر کر سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ ان تمام مشکلات کے خلاف پُرعزم ہو کر کھڑا ہو جائے۔ جے پی نے آئین بحال کرایا جسے اندرا گاندھی نے معطل کر رکھا تھا اور اخبارات کو آزادی بھی واپس لوٹائی۔
یہ الگ بات ہے کہ بھارت کے عوام کو آزادی دلانے کے بعد جے پی اپنی زندگی میں ناکام ہو گئے ۔ وہ بیمار ہو ئے اور ان لوگوں پر نگاہ نہ رکھ سکے جنہوں نے مرکز میں حکومت کی باگیں سنبھال لی تھیں۔ مسز اندرا گاندھی کی جابرانہ حکمرانی اور غیر فعال جنتا حکومت میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ میں نے اس وقت کے وزیراعظم مرار جی ڈیسائی سے شکایت کی کہ اب جے پی وزراء کے ساتھ رابطہ نہ رکھنے پر خوش نہیں لیکن ڈیسائی نے روکھے پن سے جواب دیا کہ میں تو گاندھی جی سے ملنے کبھی نہیں گیا تھا، جے پی گاندھی سے بڑا تو نہیں۔ میں دہلی واپس پہنچا تو وہاں ایک اور ہی سیاسی ناٹک چل رہا تھا۔
مرکزی حکومت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ وادرا کو بچانے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھی۔ وادرا نے رجسٹرار آف کمپنیز کو جو بیلنس شیٹ جمع کرائی تھی اس میں اور رئیل اسٹیٹ کی کمپنی کے ریکارڈ میں بہت زیادہ فرق تھا۔ موصوف نے مبینہ طور پر 700 کروڑ روپے کا گھپلا کیا ہے۔ لیکن خراج تحسین ہے ہریانہ کے اس افسر کے لیے جس نے وادرا کو الاٹ کی جانے والی اراضی کو غیر قانونی قرار دیدیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حکم کے جواب میں اس غریب افسر کا فوری طور پر تبادلہ کر دیا گیا۔ اور مزے کی بات ہے کہ 20 سال کی ملازمت میں یہ اس کا 40 واں تبادلہ ہے۔ تاہم جب ایسی روشن مثالیں منظر عام پر آتی ہیں تو وہ اس دکھ بھرے ماحول میں امید کی جوت جگا دیتی ہیں۔
مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ نہرو گاندھی کا اونچا خاندان آخر کس وجہ سے اتنی بھاری کرپشن میں ملوث ہو گیا۔ جواہر لعل نہرو 17 سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے مگر ان کی طرف کوئی انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔ حتیٰ کہ ان کے کسی وزیر کے خلاف بھی کرپشن کا کوئی الزام بمشکل ہی لگایا جا سکا۔ اس دور کے وزیر خزانہ ٹی ٹی کرشنا مچاری پر ایک کمپنی کے حصص کسی خاص بیمہ کمپنی کو منتقل کرنے میں مدد دینے کا الزام لگا۔
تحقیقاتی کمیشن نے اسے قصور وار قرار دیدیا چنانچہ اسے فوراً ہی استعفیٰ دینا پڑا۔ لیکن نہرو پر کبھی کسی نے کوئی شبہ ظاہر نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ ایک ایسے دور سے تعلق رکھتے تھے جہاں صرف قربانیاں یاد رکھی جاتی تھیں سکینڈل نہیں، جو ویسے بھی شاذونادر ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا نظام بہت صاف ستھرا تھا اور وہ کوئی گڑ بڑ کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے۔
لیکن جب نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اقتدار میں آئی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔ بے حد بھاری پارٹی فنڈز کے لیے ناجائز دبائو اور سرکاری سیکٹر میں کرپٹ سودے بازیاں، یہ سب اندرا حکمرانی کے تحفے ہیں۔ مرکز اور ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں عوام کی نظروں میں مشتبہ ہو گئیں۔ وہ وزیروں اور پارٹی رہنمائوں کو مورد الزام ٹھہراتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں تعجب ہوتا تھا کہ مسز گاندھی کس حد تک ملوث ہیں۔
ایمرجنسی کے دوران اندرا کی ساکھ تباہ ہو گئی اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی نے اسے ایک ایسی ماں کی حیثیت دیدی جو ہر قیمت پر اپنے بچے کو تحفظ دینا چاہتی تھی۔ سنجے نے جاپانی موٹر کمپنی کے اشتراک سے ماروتی کاریں بنانے کا منصوبہ شروع کیا جس میں بھاری کرپشن کے باعث لوگوں نے اس کا نام ''ماں روتی ہے'' رکھ دیا۔ سنجے گاندھی نے کاریں بنانے کا لائسنس کیسے حاصل کیا اور کار سازی کا کارخانہ لگانے کے لیے گوڑ گائوں کے قریب اراضی کا وسیع رقبہ کیسے الاٹ کرایا اور بغیر کسی ضمانت کے بھاری قرضے کس طرح حاصل کیے اس سے لوگوں کو رابرٹ وادرا کی ہزاروں کروڑوں روپوں کی مالیت کی جائیدادیں بنانا یاد آ جاتا ہے۔
وادرا اس خاندان کا پہلا داماد ہے جس کے معاملات عوام کے سامنے آئے ہیں۔ نہرو کا داماد فیروز گاندھی کرپشن میں ملوث نہیں ہوا تھا۔ وہ اتنا خود دار تھا کہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہتا تھا بلکہ اس نے اپنا علیحدہ بنگلہ لے رکھا تھا جو رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے اس کا استحقاق تھا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ فیروز گاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی کرپشن میں ملوث ہو گیا کیونکہ وزیراعظم کی حیثیت سے اس نے سویڈن کی ایک فرم سے بوفورس توپیں خریدنے کے معاہدے میں بھاری کک بیکس حاصل کیں۔
اس کے علاوہ راجیو نے آرمی کی سیلکشن ٹیم پر بھی دبائو ڈالا۔ اس زمانے میں بو فورس کا مطلب ہی کرپشن ہو گیا تھا۔ اسی سکینڈل کے باعث راجیو گاندھی 1989ء کے انتخابات میں بری طرح ہار گیا۔ اب گاندھی نہرو خاندان کی کرپشن میں قدرے کمی ہو گئی ہے کیونکہ اس خاندان کا کوئی بھی رکن فی الوقت حکومت میں نہیں ہے۔ لیکن وزرا کے معاملے نے بدبو پیدا کر دی ہے۔ کانگریس پارٹی اور منموہن سنگھ کابینہ کے بعض اراکین واردا کو بچانے کے لیے جُت گئے ہیں۔ تاہم اس خاندان کی ساکھ کوجو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ہے۔
یہ سب کچھ جے پی کی تحریک کے کس قدر برخلاف ہے جس نے سیاست اور معاشرے میں اخلاقیات کو متعارف کرانے کی جدوجہد کی تھی۔ ان کی تمام تر توجہ اخلاقیات کی بحالی پر تھی لیکن یہ سب ایک دُور کی آواز لگتی ہے۔ اخلاقیات کو صرف اس صورت بحال کرایا جا سکتا ہے اگر اس کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا جائے اور اس کا اطلاق مرکز اور ریاست کے وزیروں پر سب سے پہلے ہو۔ آج قوم کو پھر وہی چیلنج درپیش ہیں اور بے انصافیوں کا عوام غصے سے کھول رہے ہیں۔ کرپشن تو اس صورتحال کا محض ایک عنصر ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
انقلابی لیڈروں کی شہرت کا دور مختصر ہوتا ہے۔ وہ اپنی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے برعکس بہت جلد فراموش کردیئے جاتے ہیں۔
مہاتما گاندھی، جنہوں نے برطانوی حکومت کو برصغیر سے نکلنے پر مجبور کیا تھا محض اس بنا پر یاد رکھے جا رہے ہیں کیونکہ ان کی تصویر کرنسی نوٹوں پر چھپی ہوئی ہے۔ یہی معاملہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے بانیوں قائداعظم محمد علی جناح اور شیخ مجیب الرحمن کا ہے۔ ان کی تصویر بھی ان ممالک کی کرنسیوں پر ہے۔
بیچارے جے پرکاش نرائن (جے پی) کے لیے اس قسم کا کوئی اعزاز نہیں،انھوں نے ایک انقلاب کے ذریعے 1977ء میں ملک کو اندرا گاندھی کی جابرانہ حکمرانی کے چُنگل سے آزاد کرایا۔ جب میں پٹنہ میں پہنچا، جہاں پر جے پی پیدا ہوا تھا، تو میں نے ان کی آبائی ریاست بہار میں بھی ان کے بارے میں یہی بے اعتنائی دیکھی۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ میں 11 اکتوبر کو وہاں پہنچا جو جے پرکاش نرائن کی سالگرہ کا دن تھا لیکن کسی مقامی اخبار میں ان کی تصویر تو درکنار ان کا نام تک نہ تھا۔ اس ریاست کی سربراہی وزیراعلیٰ نتیش کمار کے پاس ہے جسے جے پی کے پیروکاروں میں سب سے اہم سمجھا جاتا تھا مگر اس نے بھی اپنے گرو کے جنم دن کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ ملک بھر کے لیے نہ سہی ریاست بہارمیںبھی جے پرکاش نارائن کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئی چھوٹی موٹی سرکاری تقریب منعقد نہیں کی گئی۔
جس ہوائی اڈے کو جے پی کے نام سے منسوب کیا گیا، اس پر نام کے ہجے تک غلط لکھے ہیں۔Jay (جے) کے بجائے Jai (جائی) لکھا ہے۔ خادم خان کے علاقے میں جہاں جے پی کی رہائش گاہ ہے وہاں بھی لوگوں کا کوئی اجتماع نہیں تھا۔ ہم میں سے چند ایک جے پی کے مجسمے کے سامنے قطار بنا کر کھڑے ہو گئے تا کہ ان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا جا سکے۔ جس چیز نے مجھے دھچکہ پہنچایا کہ بعض تعمیراتی کارکن جے پی کی رہائش گاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ جے پی کا کمرۂ مطالعہ اور خوابگاہ البتہ محفوظ ہے۔
بہر حال جے پی وہ واحد شخص ہے جس نے تنِ تنہا جمہوریت کو دوبارہ پٹری پر چڑھایا۔ انھوں نے 1977ء کے انتخابات میں غیر معمولی اختیارات اور بھر پور طاقت والی اندرا گاندھی کی قوت کو توڑ موڑ کر رکھ دیا جو اس وقت ملک کی وزیراعظم تھیں۔ انھوں نے ثابت کر دیا کہ کس طرح ایک عام آدمی اپنا آزادی اظہار کا حق واپس حاصل کر سکتا ہے اور آزادانہ طور پر لکھ سکتا ہے اور زندگی بسر کر سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ ان تمام مشکلات کے خلاف پُرعزم ہو کر کھڑا ہو جائے۔ جے پی نے آئین بحال کرایا جسے اندرا گاندھی نے معطل کر رکھا تھا اور اخبارات کو آزادی بھی واپس لوٹائی۔
یہ الگ بات ہے کہ بھارت کے عوام کو آزادی دلانے کے بعد جے پی اپنی زندگی میں ناکام ہو گئے ۔ وہ بیمار ہو ئے اور ان لوگوں پر نگاہ نہ رکھ سکے جنہوں نے مرکز میں حکومت کی باگیں سنبھال لی تھیں۔ مسز اندرا گاندھی کی جابرانہ حکمرانی اور غیر فعال جنتا حکومت میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ میں نے اس وقت کے وزیراعظم مرار جی ڈیسائی سے شکایت کی کہ اب جے پی وزراء کے ساتھ رابطہ نہ رکھنے پر خوش نہیں لیکن ڈیسائی نے روکھے پن سے جواب دیا کہ میں تو گاندھی جی سے ملنے کبھی نہیں گیا تھا، جے پی گاندھی سے بڑا تو نہیں۔ میں دہلی واپس پہنچا تو وہاں ایک اور ہی سیاسی ناٹک چل رہا تھا۔
مرکزی حکومت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ وادرا کو بچانے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھی۔ وادرا نے رجسٹرار آف کمپنیز کو جو بیلنس شیٹ جمع کرائی تھی اس میں اور رئیل اسٹیٹ کی کمپنی کے ریکارڈ میں بہت زیادہ فرق تھا۔ موصوف نے مبینہ طور پر 700 کروڑ روپے کا گھپلا کیا ہے۔ لیکن خراج تحسین ہے ہریانہ کے اس افسر کے لیے جس نے وادرا کو الاٹ کی جانے والی اراضی کو غیر قانونی قرار دیدیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حکم کے جواب میں اس غریب افسر کا فوری طور پر تبادلہ کر دیا گیا۔ اور مزے کی بات ہے کہ 20 سال کی ملازمت میں یہ اس کا 40 واں تبادلہ ہے۔ تاہم جب ایسی روشن مثالیں منظر عام پر آتی ہیں تو وہ اس دکھ بھرے ماحول میں امید کی جوت جگا دیتی ہیں۔
مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ نہرو گاندھی کا اونچا خاندان آخر کس وجہ سے اتنی بھاری کرپشن میں ملوث ہو گیا۔ جواہر لعل نہرو 17 سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے مگر ان کی طرف کوئی انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔ حتیٰ کہ ان کے کسی وزیر کے خلاف بھی کرپشن کا کوئی الزام بمشکل ہی لگایا جا سکا۔ اس دور کے وزیر خزانہ ٹی ٹی کرشنا مچاری پر ایک کمپنی کے حصص کسی خاص بیمہ کمپنی کو منتقل کرنے میں مدد دینے کا الزام لگا۔
تحقیقاتی کمیشن نے اسے قصور وار قرار دیدیا چنانچہ اسے فوراً ہی استعفیٰ دینا پڑا۔ لیکن نہرو پر کبھی کسی نے کوئی شبہ ظاہر نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ ایک ایسے دور سے تعلق رکھتے تھے جہاں صرف قربانیاں یاد رکھی جاتی تھیں سکینڈل نہیں، جو ویسے بھی شاذونادر ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا نظام بہت صاف ستھرا تھا اور وہ کوئی گڑ بڑ کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے۔
لیکن جب نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اقتدار میں آئی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔ بے حد بھاری پارٹی فنڈز کے لیے ناجائز دبائو اور سرکاری سیکٹر میں کرپٹ سودے بازیاں، یہ سب اندرا حکمرانی کے تحفے ہیں۔ مرکز اور ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں عوام کی نظروں میں مشتبہ ہو گئیں۔ وہ وزیروں اور پارٹی رہنمائوں کو مورد الزام ٹھہراتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں تعجب ہوتا تھا کہ مسز گاندھی کس حد تک ملوث ہیں۔
ایمرجنسی کے دوران اندرا کی ساکھ تباہ ہو گئی اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی نے اسے ایک ایسی ماں کی حیثیت دیدی جو ہر قیمت پر اپنے بچے کو تحفظ دینا چاہتی تھی۔ سنجے نے جاپانی موٹر کمپنی کے اشتراک سے ماروتی کاریں بنانے کا منصوبہ شروع کیا جس میں بھاری کرپشن کے باعث لوگوں نے اس کا نام ''ماں روتی ہے'' رکھ دیا۔ سنجے گاندھی نے کاریں بنانے کا لائسنس کیسے حاصل کیا اور کار سازی کا کارخانہ لگانے کے لیے گوڑ گائوں کے قریب اراضی کا وسیع رقبہ کیسے الاٹ کرایا اور بغیر کسی ضمانت کے بھاری قرضے کس طرح حاصل کیے اس سے لوگوں کو رابرٹ وادرا کی ہزاروں کروڑوں روپوں کی مالیت کی جائیدادیں بنانا یاد آ جاتا ہے۔
وادرا اس خاندان کا پہلا داماد ہے جس کے معاملات عوام کے سامنے آئے ہیں۔ نہرو کا داماد فیروز گاندھی کرپشن میں ملوث نہیں ہوا تھا۔ وہ اتنا خود دار تھا کہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہتا تھا بلکہ اس نے اپنا علیحدہ بنگلہ لے رکھا تھا جو رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے اس کا استحقاق تھا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ فیروز گاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی کرپشن میں ملوث ہو گیا کیونکہ وزیراعظم کی حیثیت سے اس نے سویڈن کی ایک فرم سے بوفورس توپیں خریدنے کے معاہدے میں بھاری کک بیکس حاصل کیں۔
اس کے علاوہ راجیو نے آرمی کی سیلکشن ٹیم پر بھی دبائو ڈالا۔ اس زمانے میں بو فورس کا مطلب ہی کرپشن ہو گیا تھا۔ اسی سکینڈل کے باعث راجیو گاندھی 1989ء کے انتخابات میں بری طرح ہار گیا۔ اب گاندھی نہرو خاندان کی کرپشن میں قدرے کمی ہو گئی ہے کیونکہ اس خاندان کا کوئی بھی رکن فی الوقت حکومت میں نہیں ہے۔ لیکن وزرا کے معاملے نے بدبو پیدا کر دی ہے۔ کانگریس پارٹی اور منموہن سنگھ کابینہ کے بعض اراکین واردا کو بچانے کے لیے جُت گئے ہیں۔ تاہم اس خاندان کی ساکھ کوجو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ہے۔
یہ سب کچھ جے پی کی تحریک کے کس قدر برخلاف ہے جس نے سیاست اور معاشرے میں اخلاقیات کو متعارف کرانے کی جدوجہد کی تھی۔ ان کی تمام تر توجہ اخلاقیات کی بحالی پر تھی لیکن یہ سب ایک دُور کی آواز لگتی ہے۔ اخلاقیات کو صرف اس صورت بحال کرایا جا سکتا ہے اگر اس کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا جائے اور اس کا اطلاق مرکز اور ریاست کے وزیروں پر سب سے پہلے ہو۔ آج قوم کو پھر وہی چیلنج درپیش ہیں اور بے انصافیوں کا عوام غصے سے کھول رہے ہیں۔ کرپشن تو اس صورتحال کا محض ایک عنصر ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)