درد کی ایک لہر چلی
انسان بہت ہی سخت جان چیز ہے، زندگی میں ایسا بہت کچھ سہہ لیتا ہے، سہتا رہتا ہے جو بظاہر ناقابل برداشت لگتی ہیں
KARACHI:
انسان بہت ہی سخت جان چیز ہے، زندگی میں ایسا بہت کچھ سہہ لیتا ہے، سہتا رہتا ہے جو بظاہر ناقابل برداشت لگتی ہیں، ایسے ایسے حادثات، سانحے اور خبریں ایسے دکھ ایسے غم کہ
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ کہ پھر نہ تھمتا
جسے ''غم'' سمجھ رہے ہیں وہ اگر ''شرار'' ہوتا
بلکہ کچھ غم کی خبریں ''شرار'' سے بھی زیادہ دلدوز، جان لیوا اور درد ناک ہوتی ہیں لیکن ماننا پڑے گا کہ انسان کا دل سنگ تو کیا فولاد سے بھی زیادہ سخت ہے کہ پھر بھی نہ پھٹتا ہے نہ رکتا ہے اور نہ لہولہان ہو جاتا ہے، اسے آپ کچھ بھی کہہ لیں قوت برداشت، بے شرمی، بے حسی یا سخت جانی، خود پسندی اور خود غرضی کا نام بھی دے سکتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ایک نعمت عظمیٰ ہے کہ جتنے بڑے بڑے غم کے پہاڑ اس پر ٹوٹتے ہیں اتنی ہی اس میں برداشت اور لچک بھی پیدا ہوتی ہے بقول
ہم اپنے دوستوں کی بے وفائی سہہ تو لیتے ہیں
مگر ہم جانتے ہیں دل ہمارے ٹوٹ جاتے ہیں
ورنہ ایک حادثے ایک سانحے اور ایک موت کے بعد جنازے کے ساتھ اور کتنے جنازے اٹھتے، اتنے کہ دنیا ویران ہو جاتی لیکن اس عظیم خالق نے انسان نام کی اس بے مثل تخلیق میں ایسی خوبی ایسی صلاحیت بھری ہوئی ہے کہ اپنے زخموں کا مداوا خود ہی بن جاتی ہیں، خون بہتا ہے تو اس کے رکنے کی صلاحیت بھی اسی خون میں ہوتی ہے، زخم لگتا ہے تو مرہم بھی خود ہی پیدا کر لیتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ کی وفات بھی ایک ایسا سانحہ ہے ان کے اہل خانہ، اولاد اور رشتے داروں پر جو گزری ہو گی اس کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن خود ہم پہ جو گزری ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں، لگ بھگ چالیس سال کا ساتھ یوں ایک دم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے، ایک پشتو ٹپہ ہے کہ راستے اور سفر کا ساتھی بھلانا بھی مشکل ہوتا ہے تو عمر بھر کے ساتھی کو کیسے بھول پاؤں گا، صدمہ صرف ایک دوست ایک بھائی اور ایک ساتھی کے بچھڑنے کا نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑے خسارے کا ہے ایک خزانہ جب بڑی جان جوکھ کے بعد مل جائے۔
ایک لعل بے بہا جو ایک طویل انتظار کے بعد ہاتھ لگ جائے ایک پیڑ جو پھل دار ہو جائے اور اچانک چھن جائے تو ایک طویل محنت، مشقت اور کٹھنائیوں کے بعد اب وہ وقت آیا تھا کہ ہم ان کے علم ان کی خوبیوں اور ان کی سیکھ سے فائدہ اٹھا سکیں جسے کافی انتظار کے بعد کسی کا بچہ تعلیم حاصل کر کے جواں ہوتا ہے اور پھر اچانک اس سے محروم ہو جائے، تعلیم، نوکریوں روزگار اور زندگی کے نشیب و فراز سے اب وہ ایک خزانہ بن چکے تھے یا یوں کہیے کہ ''ہمارے'' ہو چکے تھے کہ
سہ د غم خبر دے راکڑولو وخٹکہ
چہ ژڑا شوہ د خیبر نہ تراٹکہ
سچ تو یہ ہے کہ یہ بات ابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا کہ ایک پیڑ جب بارآور ہونے والا ہو اور لوگ منتظر ہوں کہ اس کا پھل کھائیں گے اور وہ پھر ہاتھ سے جاتا رہے ۔کیوں آخر کیوں ایسا ہوتا ہے؟ لیکن جواب میں ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کائنات اور زماں و مکان کے ''رازوں'' کے مقابل انسان بہت ہی چھوٹا ہے۔
انسان جس کی اپنی عمر تو چھوڑیئے پوری نسل انسانی کی عمر یا انسانی علم و جانکاری کی عمر زیادہ سے زیادہ چار پانچ ہزار یا چلیے آٹھ دس ہزار سال کر دیجیے ہو تو وہ اس کائنات کے بارے میں اس کے رازوں کے بارے میں اس کے خالق کے بارے میں کیا جان پائے گا جس کی نہ کوئی حد ہے نہ پایاں، ہمارے اس موجودہ زمان و مکاں کی ابتداء جس بگ بینگ سے ہوتی ہے، اسے سولہ ارب سال ہو چکے ہیں، نظام شمسی کی عمر آٹھ ارب سال ہو گی اور اس کرہ ارض کی عمر چار ارب سال بتائی جاتی ہے پھر اس میں ''حیات'' کی پیدائش پچاس کروڑ سال پہلے ہوئی اور انسان ارتقا کی منازل طے کرتا ہوا ۔
موجودہ حالت میں آٹھ دس ہزار سال پہلے پہنچا ہے اور اس کائنات کے بارے میں اس کی سوچ کی فکر اس کی کھوج اور اس کی جانکاری کا کل سرمایہ چار پانچ ہزار سال کا ہو گا، پھر کائنات کی وسعت میں انسان کا وجود کیا ہے جس زمین پر ہم رہتے ہیں وہ نظام شمسی کے خاندان کا ایک رکن ہے اور ایسے نظام ہائے شمسی یا خاندان صرف ہماری اس سامنے والی کہکشاں میں سو ارب کے لگ بھگ اور بھی ہیں، پھر ایسی ہی سو ارب اور کہکشائیں بھی ہیں جن میں ہماری اس کہکشاں سے کئی گنا بڑی بھی ہیں اور یہ کوئی حتمی اندازہ پھر بھی نہیں، کائنات کی وسعت پندرہ کھرب نوری سال کے لگ بھگ ہے۔
اس وسیع و عریض اور بے حد و بے پایاں تناطر میں انسان کا علم اس کا وجود اس کی عمر ہے ہی کیا ۔۔۔ اور پھر جس زمان و مکاں یا کائنات میں ہم اس وقت موجود ہیں ایسی نہ جانے کتنی کائناتیں اس سے پہلے بنی ہوں گی اور کتنی اس کے بعد بنیں گی کیوں کہ یہ بگ بینگ یا کائنات نہ پہلی ہے اور نہ آخری، یہ سلسلہ نہ جانے کب سے چل رہا ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا، ایسے میں ہم اس کائنات کے ''رازوں'' کے بارے میں کیا جانتے ہیں یا کیا جان پائیں گے۔
کسی بہت بڑے جنگل کے ایک درخت کی ایک شاخ پر ایک پتے سے چمٹا ہوا کیڑا جنگل کے بارے میں کیا جان پائے گا وہ اگر زیادہ سے زیادہ اس ٹہنی کے بارے میں جان پائے تو یہ بھی بہت ہے کیوں کہ اس کا وجود اور اس کی عمر چند روز یا زیادہ سے زیادہ ایک موسم پر مشتمل ہے، مطلب یہ کہ بہت سارے سر بستہ رازوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آخر کوئی انسان کوئی پیڑ کوئی خزانہ ہاتھ سے چھن کیوں جاتا ہے۔
پروفیسر راج ولی شاہ خٹک نے ابتداء ایڈورڈ کالج کی لیکچر شپ سے کی تھی، پھر پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ایک لمبے عرصے تک رہے اور اس ادارے کو چار چاند لگائے اور آخر میں کلچر اینڈ لینگوئج سینٹر کے ڈین بنے لیکن سیاست وقت نے صرف ایک فرد کی ایک دو سالہ ڈائریکٹری کے لیے اس سینٹر کا جب تیاپانچہ کیا اور پشتو اکیڈمی پھر وہی پرانی اکیڈمی بنی جس نے پچاس سے چند خاندانوں کو پالنے اور پشتو علم و ادب کو بہت سارا نقصان پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا ہے اور نہ کرے گی اور نہ کر پائے گی کیوں کہ ایسے ادارے بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ جو کام ہونا چاہیے وہ نہ ہونے پائے۔
بہرحال جو کچھ بھی تھا یا ہے یا ہو گا وہ تو اپنی جگہ ۔۔۔ لیکن اس سارے دوران میں پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ ایک علمی خزانہ بنتے چلے گئے، ادب، فلسفہ تصوف اور علم کا ایک گوشہ نہیں تھا جو ان کی دسترس سے باہر ہو اور پھر اب کہیں جا کر وہ سرکاری ملازمتوں کی قید سے رہائی پا کر ہمارے کام کے بن گئے تھے۔