ہمارا جواں ہمت سپاہی
ہرنی کا بچہ اگر ایک بار ماں کا دودھ پی لے تو پھر وہ اس دودھ کی طاقت کی وجہ سے کسی انسان سے پکڑا نہیں جا سکتا
ملکہ عالم نور جہاں کی جنت لاہور میں برسوں کے قیام کے باوجود میں خود کو یہاں ایک پردیسی ہی سمجھتا ہوں شاہی خاندان کا نہیں ایک عام سا آدمی ہوں جو کسی بھی وقت بغچہ اٹھا کر اس شہر کے نیم خشک دریا راوی کی یاد میں لاہور کو روتا چھوڑ کر اس کے پار نکل جائے گا اس گاؤں کی طرف جو اپنے سبز پوش پہاڑوں کی آغوش میں میری طرح اپنا بڑھاپا کاٹ رہا ہے اور بہت خوش ہے صرف ایک اداسی ہے کہ اس کے نہ جانے کتنے ہی بیٹے روزی روز گار یا زیادہ پر سہولت زندگی کے لیے اس سے دور جا چکے ہیں اور اب عید بقر عید یا مرنے پرنے پر ہی اس سے ملنے آتے ہیں یا جب انھیں کبھی چھٹی مل جاتی ہے۔
یہ زیادہ تر فوج کی نوکری کرتے ہیں اور چھٹیوں پر اپنے سامان میں ایک مچھر دانی بھی لے کر آتے ہیں جو رات چھت پر اپنے بستر پر تان لیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ فوج میں مچھر سے بخار کی سزا ملتی ہے کہ جب اس سے بچا جا سکتا تھا تو پھر احتیاط کیوں نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ صبح جب کسی چھت پر گہرے سبز رنگ کی مچھر دانی دیکھی جاتی تو پتہ چلتا کہ اس گھر کا ملازم فوجی چھٹی پر آیا ہوا ہے۔ مچھر دانی کے علاوہ وہ عموماً ایک بارہ بور کی بندوق بھی لے آتا جس کا لائسنس اسے غالباً مفت ملتا تھا۔ اس بندوق نے بڑی تباہی مچائی اور جنگلوں کا حسن جو چوکڑیاں بھرتے ہرنوں کے نام سے تھا آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگا۔
کبھی ہرنوں کے غول کے غول ان پہاڑوں پر آزاد زندگی بسر کرتے تھے لیکن اب وہ اپنے ساتھ زندگی بسر کرنے والے چرواہوں سے بھی ڈرنے اور بدکنے لگے ہیں اگر کسی ہرنی کا بچہ بھی ماں کے ساتھ ہو تو وہ ڈری ڈری سی رہنے لگتی ہے کیونکہ اس بندوق کے علاوہ بھی اس کے بچے کو پکڑا جا سکتا ہے۔ کئی بار سنا کہ جب بچہ پکڑا گیا تو اس کی ماں پتھروں سے سر ٹکراتی ہوئی دیوانی ہو گئی مگر کمال ہے انسان کی جو پھر بھی کسی ہرنی کا بچہ دونوں بازؤں میں سمیٹ کر لے آتا تھا اور میرے جیسے صاحبزادوں کو تحفہ میں دے جاتا تھا جس سے ہم کھیلا کرتے تھے۔
ہرنی کا بچہ اگر ایک بار ماں کا دودھ پی لے تو پھر وہ اس دودھ کی طاقت کی وجہ سے کسی انسان سے پکڑا نہیں جا سکتا چنانچہ ہرنی کے بچوں کے شکاری اس ٹوہ میں رہتے کہ ادھر ہرنی نے بچہ پیدا کیا اور وہ اسے اچک کر لے گئے۔ یہ سب میں نے چلتے چلتے گاؤں کی پرانی زندگی کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔ میں ان دنوں لاہور سے بھی ڈرنے لگا ہوں۔ سرگودھا کے جنرل حمید گل کا ساتھ سلامت تھا تو مجھے تنہائی کھلتی نہیں تھی۔
وہ میری فکری اور نظریاتی زندگی کے سرپرست تھے اور اس کے دفاع میں سپاہی کا کردار ادا کرتے تھے لیکن ہماری یہ نالائقی کہ ہم خود مختار نہ ہو سکے۔ سہارے تلاش کرتے رہے کہ قدرت نے ایک دن دھماکا کر دیا۔ سر سے چھت اڑ گئی اور ہم آفات زمانہ کے سامنے ننگے سر رہ گئے جنرل حمید گل کے لیے دعا کرتے ہوئے اور پر نم آنکھوں سے انھیں یاد کرتے ہوئے۔ ایک ٹی وی چینل نے کہا کہ حمید گل پاکستان کی حریت اور دفاع کا استعارہ تھا۔ اس مرحوم کا کمال یہ بھی تھا کہ وہ جس نظریے کو اختیار اور قبول کر لیتے تھے اس پر بلاخوف ڈٹ جاتے تھے۔
وہ پاکستان کے تمام 'روشن خیال' طبقے کے نشانے پر رہے لیکن ایک بہادر سپاہی کی طرح اپنے مورچے میں ڈٹے رہے۔ تربیت تو انھوں نے تیر و تفنگ کے مقابلے کی حاصل کی تھی لیکن فوجی زندگی میں دو جنگوں کے علاوہ انھیں عمر بھر نظریاتی حملوں کا نشانہ بھی بننا پڑا آخری دم تک وہ اپنے محاذ پر ڈٹے رہے۔ دشنام طرازی اور بد زبانی کا نشانہ بنے رہنے کے باوجود انھوں نے ایک مسلمان کی شائستگی ہمیشہ سختی کے ساتھ اختیار کیے رکھی اور اس پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔
جنرل صاحب نے میرے جیسے بزدل سپاہیوں سے بھی معرکے سر کرائے ان کی شاباش نے ہمارے حوصلے برقرار رکھے اور ہم بھی اپنے محاذ پر ڈٹے رہے اب سپہ سالار کے چلے جانے کے بعد کیا ہو گا دیکھا جائے گا لیکن وہ ایک زندہ مثال ہمارے سامنے چھوڑ گئے۔ وہ نہ کسی سیاسی جماعت میں شامل رہے اور نہ ہی کوئی نظریاتی گروہ بنایا لیکن اپنے نظریات کی طاقت کو تن تنہا ہر میدان میں منوایا۔
ان کی سرگرم زندگی کے دور میں افغانستان کا مسئلہ زندہ رہا اور دو سپر طاقتیں یعنی امریکا اور روس اس مسئلے پر الجھے رہے۔ اس 'عالمی جنگ' میں ایک نہتا سپاہی حمید گل بھی تھا جس نے کسی گروہ بندی اور جماعت کے بغیر اپنا نام اور پیغام زندہ رکھا اور جس حد تک ممکن رہا حکومت پاکستان کو بھی اس کے قدموں پر قائم رکھنے کی کوشش کی اور اپنی فراست اور ذہانت سے بھی حکمرانوں کی مدد کی۔ بہر کیف انھوں نے ایک ایسی باعزت نظریاتی زندگی بسر کی جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی۔