شجاع خانزادہ حمید گل اور وطن عزیز

میری حکومت سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو سمجھے، چند تجاویز گوش گزار ہیں۔


علی احمد ڈھلوں August 18, 2015

کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کی شہادت اور جنرل (ر) حمید گُل کی وفات کی خبروں نے خاصا افسردہ کر دیا تھا ۔ طبیعت خاصی بوجھل تھی کہ اچانک میرے ایک قریبی دوست کا فون آگیا وہ کہنے لگا،''علی بھائی میں 6 سال سعودی عرب میں رہا وہاں اس عرصے میں صرف ایک گھنٹے کے لیے اے سی بند ہوا، وہ بھی تکنیکی خرابی کی وجہ سے۔ بجلی کا ماہانہ بل کبھی 70 ریال سے زیادہ نہیں آیا تھا لیکن جب سے پاکستان دوبارہ شفٹ ہوا ہوں خوار ہو گیا ہوں۔ یہاں پانی، بجلی، گیس سبھی کی لوڈ شیڈنگ ہونے کے باوجود ہزاروں کے بل ادا کرنے پڑ تے ہیں۔

ابھی میرے گھر میں صرف ایک اے سی ہے وہ بھی چوبیس گھنٹوں میں 2 سے 3 گھنٹے چلتا ہے، یقین کیجیے مجھے 37 ہزار روپے کا بجلی کا بل آیا ہے۔ میری ماہانہ آمدنی 50 ہزار روپے ہے، اب بتائیں میں کیا کروں؟ بجلی کے بل کو سمجھنے کے لیے بھی آپ کو کسی ''ایکسپرٹ''کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ اس میں پلس مائنس کے ساتھ اتنے سرچارجز ہوتے ہیں کہ سر چکرا جاتا ہے۔ جب میری تنخواہ کا 90 فیصد حصہ یوٹیلیٹی بلوں میں چلا جائے گا تو بتائیں میں کس طرح پورا مہینہ گزارا کروں گا۔''

دوست کو طفل تسلیاں دیں لیکن وہ مطمئن نہ ہوا اور فون بند کر دیا ۔ میرا آدھا ذہن چونکہ حمید گل اور خانزادہ کی طرف تھا اس لیے مجھے گُل صاحب کی وہ غیر رسمی گفتگو یاد آ گئی جو انھوں نے ایک تقریب میں ملاقات کے دوران کی تھی، انھوں نے موجودہ حالات کی کیا خوب منظر کشی کی تھی، ملاحظہ فرمائیں:

''مارشل لاؤں کے بعد مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ عوام کو ریلیف ملے گا اور ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہو گا مگر افسوس ایسا کچھ نہ ہوا اور قوم مزید ذلت و خواری کی دلدل میں دھنستی چلی گئی، چلیں مان لیا کہ نواز شہباز دونوں بھائی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے وزیر اور مشیر کیا کر رہے ہیں؟ کیا وہ جائیدادیں نہیں بنا رہے۔

مہینوں اور چند سالوں میں یہ لوگ ارب پتی کیسے ہو گئے، کیا کسی نے پوچھا کہ دس پندرہ سال قبل جن لوگوں کے پاس دو ایکڑ زمین نہ تھی ، وہ سیکڑوں ایکڑ کے مالک کیسے بن گئے؟ میں نے بہت پہلے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ صاف ستھرے لوگوں کو آگے لائیں جن کے دامن صاف ہوں لیکن یہاں پاک دامنی کا رواج ہی نہیں رہا لہٰذا ملک کے حالات کے بگڑنے کی بنیادی وجہ کرپٹ سیاستدان ہیں۔ اگر وہ ٹھیک ہو جائیں تو ملک کا ہر شعبہ ٹھیک ہو جائے۔''

پھر باتوں سے باتیں نکلتی گئیں اور آخر میں ہماری بات طرز حکمرانی پر ختم ہوئی، انھوں نے دبنگ لہجے میں کہا

''اگر حکمران عادل و مخلص ہوں تو بگڑی سے بگڑی قوم بھی بہترین قوم بن سکتی ہے اور اگر حکمران بددیانت اور کرپٹ ہوں تو بہترین سے بہترین قوم بھی بگڑی ہوئی بددیانت قوم بن جائے گی۔

ہم امریکا کو آئے روز گالیاں دیتے ہیں، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اس جاہل، اُجڈ اور جنگلی قوم کو ان کی قیادت نے کہاں لاکھڑا کیا؟ آج وہ پوری دُنیا پر حکمرانی قائم کیے ہوئے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ دُنیا کی بہترین و باصلاحیت قوم رکھتے ہوئے بھی ذلت و رُسوائی سے دوچار ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت اور نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔''

وہ صحیح کہتے تھے! کیونکہ یہاں دودھ بھی جعلی ہے اور یہاں گھی بھی جعلی، یہاں خوراک بھی جعلی ہے اور یہاں زندگی بچانے والی ادویات بھی جعلی، یہاں ڈھور ڈنگر وں سے بھرا اسکول بھی جعلی ہے اور یہاں تعلیم بھی جعلی، یہاں ایف آئی آر بھی جعلی ہے اور تھانہ اور پٹوار بھی جعلی ہے۔

یہاں الیکشن کی پکار بھی جعلی ہے اور جمہوریت کی پھٹکار بھی جعلی، یہاں انصاف بھی جعلی ہے اور سچ کی آواز بھی جعلی، یہاں افکار بھی جعلی ہیں اور ایوانوں میں کھلتے پھولوں کی مہکار بھی جعلی ہے۔ ایسی جعلسازی میں عام آدمی کو کیا ملے گا... کیمیکل ملا دودھ؟؟ یا چوہوں کتوں اور گدھوں کی چربی سے بنا گھی۔؟ جعلسازوں کو ہری چند کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیے۔

ملے گی شیخ کو جنت،،،،، ہمیں دوزخ عطا ہو گا
بس اتنی بات تھی جس کے لیے محشر بپا ہو گا
ہمیں معلوم ہے! ہم سے سُنو، محشر میں کیا ہو گا
سب اُسکو دیکھتے ہوں گے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا

ہمارے حکمران تو میٹرو بنانے میں مصروف ہیں انھیں عوام کی بنیادی ضروریات سے کیا غرض۔ بنیادی ضرورتوں میں سب سے پہلے روٹی، دوسرے نمبر پر کپڑا، تیسرے نمبر پر مکان، چوتھے نمبر پر علاج معالجہ اور پانچویں نمبر پر تعلیم۔ اب اگر ایک گھر میں کھانے کو روٹی نہیں، تن ڈھاپنے کے لیے کپڑا کم پڑ رہا ہے، چھت ٹپک رہی ہے۔

دوائی کے لیے پیسے نہیں، بچوں کے پاس کتابیں اور کاپیاں نہیں ہیں اور ایسے میں گھر کا سربراہ کہے کہ میں گھر کے لیے اے سی لے آیا ہوں، گاڑی کے ٹائر بدلوا لیے ہیں، نیا ٹی وی لا رہا ہوں اور گھر میں ٹائلوں کا فرش بنوا رہا ہوں، تو یہ ترقی صحیح نکات کی طرف نہیں ہو گی بلکہ غیر ضروری کہلائے گی، حالانکہ یہ کام بھی گھر کی ترقی کے لیے ضروری ہیں لیکن بات ترجیحات کی ہے۔

ہمارے اربابِ اختیار کا تمام زور پلوں اور میٹرو بسوں پر ہے جب کہ اسپتالوں میں ایک بستر پر دو دو تین تین مریض لیٹے ہوئے ہیں۔ شاید اسپتال بنانے میں وہ فائدہ نہیں ہوتا جو میٹرو بسیں بنانے میں ہوتا ہے یا جو نندی پور کا ناکام پراجیکٹ بنانے میں ہوا۔

ذرا غور کریں اگر ایک مزدور کا گھرانہ 4افراد پر مشتمل ہو تو ان کے روزانہ گھر کے خرچہ کا اندازاََ تخمینہ کیا ہو گا۔ گھی، آٹا، دال، سبزی، صابن سرف، چینی، چائے کی پتی، دودھ اور دوسرے مصالحہ جات وغیرہ کا کم از کم یومیہ خرچہ 500 روپے ہو تو پورے مہینے کا خرچہ 15000 روپے بنے گا۔

اس میں ماہانہ یوٹیلیٹی بل کم از کم 3 ہزار ہوں تو کل اخراجات 18000 روپے بنتے ہیں۔ ان اخراجات میں اس خاندان کا جوتی، کپڑا، میڈیکل، فروٹ، برتن اور گھر کی باقی اشیاء شامل نہیں ہیں۔ دکھ سکھ ، شادی غمی ان سب کے لیے ان کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ جب کہ کم از کم ماہانہ اجرت 12000 مقرر ہے ۔

اس کے برعکس ہمارے لیڈران عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک ایم این اے 5 سال میں 5 کروڑ سے زائد کی مراعات لیتا ہے جب کہ ٹھیکوں میں کمیشن اور کرپشن اس کے علاوہ ہیں، ہمارے قائد نے تو پاکستان بناتے وقت قناعت پسندی کا درس دیا تھا۔ جب قائداعظم گورنر جنرل تھے اور کیپٹن گل حسن جو بعدازاں جنرل بھی بنے' ان کے اے ڈی سی تھے۔ کابینہ کا پہلا اجلاس تھا تو کیپٹن گل حسن نے جناب قائد اعظم سے پوچھا کہ اجلاس میں تواضع چائے سے کی جائے یا کافی سے؟ قائد اعظم نے فرمایا کہ یہ چائے کافی گھر سے پی کر آئیں یا پھر گھر جا کر پئیں' قوم کا روپیہ کابینہ کی تواضع کے لیے نہیں ہے۔

آج کے دور کی بات ہو جائے۔ جنرل مشرف کے دور سے پہلے ایک نگران گورنمنٹ میں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ جناب منظور الٰہی تھے۔ ان کا دوپہر کا کھانا روزانہ گھر سے ٹفن کیریئر میں آیا کرتا تھا اور جو مہمان ڈپٹی سیکریٹری، سیکریٹری یا نگران وزیر اعلیٰ کے پاس آتے' ان کے لیے حکم تھا کہ فی کس ایک کپ چائے اور 2 بسکٹ یا ایک گلاس روح افزاء سے ان کی تواضح کی جائے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کا شاہانہ کچن بند کر دیا گیا۔ آج وزیر اعلیٰ پنجاب کے کچن کا روزانہ کا خرچ کئی لاکھ روپے ہوگا۔ انقلاب تب ہی آتے ہیں جب معاشرے میں ناانصافیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں۔ بقول ساحر لدھیانوی

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

میری حکومت سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو سمجھے، چند تجاویز گوش گزار ہیں۔ اگر حکومت لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے میں کسی پیشرفت سے قاصر ہے تو کم از کم اسے بجلی کے بلوں، بجلی کی ترسیل اور کنکشن کے سلسلہ میں پائی جانے والی عمومی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

حکومت مزید قرضوں کے بوجھ تلے نہ دبے کیوں کہ اس وقت 13سو ارب روپے سالانہ سود ادا کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی سفارشات پر جب تک بجٹ بنتا رہیگا مہنگائی کا طوفان کسی طور کم نہ ہو گا۔حکومتی مشیروں، وزیروں اور ایوانوں کے نمایندگان کی شاہ خرچیوں کو کم کیا جانا چاہیے۔

کسی ملک کی ترقی کا دارومدار مضبوط اپوزیشن پر ہوتا ہے اس لیے اپوزیشن کو مضبوط ہونا ہو گا۔ حکمرانوں کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے عوام کو احساس ہو جائے کہ حکمران ان کے بارے میں بھی سنجیدگی اور خلوص سے سوچنے لگے ہیں۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ۔ ''نہ لگے گی ہینگ اور نہ لگے گی پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے''۔تو ایسا ہر گز نہیں ہو گا کچھ کر کے دکھانا ہو گا ورنہ ہم بھی حقیر سی تنخواہ کو حقارت بھری نظروں سے دیکھیں گے اور یہ راگ الاپ رہے ہوں گے کہ اس تنخواہ میں ۔۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں