باتیں کینیڈا کی

اب یہاں ہمارا چوتھا سال ہے۔ میری بیگم پڑھ رہی ہیں۔ ہم اپنا زیادہ وقت پڑھائی اور بچوں کو دے رہے ہیں۔

فرخ سلیم اپنی کتاب ''باتیں کینیڈا کی'' کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں ''جب ہم وطن عزیز میں تھے تو شہر میں امن نہ تھا لیکن گھر اور اپنی ذات کے اندر امن و امان تھا۔ یہاں کینیڈا میں شہر میں تو امان ہے لیکن ذات کے اندر ایک ہنگامہ سا رہتا ہے۔ یہ تحریر اسی ہنگامہ پرور زندگی میں وقفے وقفے سے لکھی جاتی رہی ہے۔''

فرخ سلیم بیس سال پہلے اپنے خاندان کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوئے۔ کینیڈا جانے سے پہلے پاکستان میں وہ مختلف سرکاری اور بین الاقوامی اداروں میں درس و تدریس، نگرانی، عملی تربیت اور انتظامی امور انجام دیتے رہے تھے۔ انھوں نے الیکٹرانکس میں انجینئرنگ کی ڈگری لی تھی اور پھر امریکا کی یونیورسٹی آف سنسنائی سے کمپیوٹر سسٹم میں ایم اے کیا تھا۔ وہ الیکٹرانکس، ڈیجیٹل ٹیکنیک اور کمپیوٹر کے موضوعات پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

کینیڈا پہنچنے کے بعد روزگار کی تلاش میں انھوں نے ایمپلائمنٹ کونسلر سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا کیونکہ ان کے آجروں سے اچھے تعلقات ہوتے ہیں اور ان کے پاس پیشہ ورانہ نوکریاں بھی موجود ہوتی ہیں جہاں وہ اہل لوگوں کو لگوا دیتے ہیں۔ فرخ سلیم کو اپنی اہلیت، تعلیم اور تجربے کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔ کونسلر سے ملاقات کے بعد پہلے تو انھیں یہ سن کر سخت مایوسی ہوئی کہ ان کا پیشہ ورانہ تجربہ ان کی سنیارٹی اور وہ عہدے جو انھوں نے بڑی محنت سے حاصل کیے تھے وہ سب یہاں غیر ضروری ہیں۔

پھر اس نے یہ کہہ کر ان کی رہی سہی امید بھی ختم کر دی کہ آپ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ آپ کو اپنے پیشے میں کام کرنے کے لیے لائسنس لینا ہو گا اور یہ بھی یاد رکھیے کہ یہاں ملازمت کے لیے کینیڈین تجربہ ضروری ہے، غیر ملکی تجربے کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔

فرخ سلیم لکھتے ہیں ''کینیڈا کے معیار سے میں محض ایک انٹرمیڈیٹ پاس امیگرنٹ تھا جس کا نہ تو کوئی ہنر تھا اور نہ تجربہ۔ میری پیشہ ورانہ تعلیم، تجربے اور افسرانہ ذہنیت پر تعمیر کیا ہوا میرا خود ستائشی محل چشم زدن میں زمیں بوس ہو گیا۔

گلہ نہ کر کہ ہے آغاز شب ابھی پیارے
ڈھلے گی رات تو یہ درد اور چمکے گا

ٹورانٹو پہنچنے کے بعد جلد ہی فرخ کو ایک چھوٹا سا دو کمروں کا صاف ستھرا بیسمنٹ مل گیا جس کا کرایہ مناسب تھا۔ مالک مکان بھی اچھے تھے۔ ان کے سوشل انشورنس کارڈ اور بچوں کے اسکولوں میں داخلے کے مراحل بھی بخوبی انجام پا گئے۔ کینیڈا میں پہلے سو دن میں جہاں اور کام ہوئے وہاں ڈرائیونگ لائسنس بھی کسی نہ کسی طرح بن گئے۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بیگم کو اسکول میں لنچ روم سپروائزر کی ملازمت مل گئی۔ روزانہ ایک گھنٹے کی مصروفیت، دو سو ڈالر ماہانہ کی لگی بندھی آمدنی۔ اسکول نزدیک، ٹرانسپورٹ کا کوئی خرچہ نہیں۔

فرخ سلیم کو جب اپنے شعبے میں نوکری ملنے کے آثار نظر نہیں آئے تو سوچا کہ فیکٹریوں کا رخ کیا جائے، وہاں قسمت آزمائی جائے کافی نئے امیگرنٹ بلکہ پرانے بھی یہی کر رہے ہیں۔ ہم میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں۔ تھوڑی سی کوشش سے ایک فیکٹری میں کام مل گیا۔ بوتل پر ڈھکن لگانا تھا۔

انھوں نے پہلی بوتل پر تو ڈھکن لگایا لیکن اس کے بعد بوتلیں لائن بیلٹ سے گزرتی رہیں اور یہ سوچتے رہ گئے کہ کس بوتل پر ڈھکن لگاؤں۔ سپروائزر نے انھیں ہٹا دیا اور ہدایت کی کہ بوتل جیسے ہی بیلٹ کے سرے پر آئے اسے اکٹھا کر کے ڈبے میں رکھ دو۔ یہ کام انھیں نسبتاً سہل لگا لیکن اس کے لیے جس پھرتی کی ضرورت تھی وہ ان میں نہ تھی، پھر بوتلوں سے بھرے ڈبوں کو اٹھانا بڑا مشقت طلب کام تھا۔ ان کی کمر دہری ہو گئی اور جب شفٹ ختم ہوئی اور یہ فیکٹری سے باہر نکلے تو ان کے قدم کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے اور انھیں فیض صاحب کے مزدوروں کی شان میں لکھے شعر یاد آ رہے تھے۔

تقریباً ایک سال اسی کیفیت میں گزر گیا۔ ایک مسلسل جدوجہد تھی۔ جو ڈگریاں اور تجربہ فخر سے ساتھ لائے تھے اس کی یہاں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اول تو کوئی انٹرویو کے لیے بلاتا نہ تھا اور اگر بلاتا بھی تو بات کینیڈین تجربے پر آ کر ختم ہو جاتی۔ کینیڈین تجربہ کہاں سے آتا۔ نوکری ملتی تو مقامی تجربہ ہوتا۔

فرخ سلیم سوچتے کیسے عجیب لوگ ہیں۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے کہ ان میں جو اچھی باتیں تھیں ان میں سے کچھ تو یہاں بالکل بے کار ہیں اور جن باتوں کی یہاں ضرورت ہے وہ ان میں نہیں۔ ان کی شخصیت آہستہ آہستہ پارہ پارہ ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی کبھی یوں لگتا جیسے وہ ہوا میں معلق ہیں۔


ایک دن وہ ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں بیٹھے تھے کہ ان کی نظر ایک پاکستانی امیگرنٹ کے مضمون پر پڑی جس نے کینیڈا میں اپنی جدوجہد کی کہانی بیان کی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کو یہاں کینیڈا آنے کے بعد کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح ان پر قابو پایا۔ اس نے چھ مہینے دن رات کام کیا۔ اپنے ماضی کو بھول گیا۔ فیکٹری میں، ویئر ہاؤس، میں شاپنگ مال میں، گھروں میں اخبار بھی ڈالے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹینٹ تھا لیکن جو کام بھی ملا وہ کرنے پر تیار ہو گیا۔

کچھ عرصے میں اسے ایسی نوکری مل گئی جس میں چار روز دس دس گھنٹے کام کرنا تھا، پانچویں روز چھٹی۔ یہ دن وہ اپنے تعلقات بڑھانے میں لگاتا۔ ایک سال بعد ایک پروفیشنل کورس میں داخلہ لے لیا، بیوی کو بھی پارٹ ٹائم ملازمت مل گئی۔ دو سال بعد ایک ایسی ملازمت مل گئی جو اس کے پیشے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس میں آمدنی کم تھی مگر کینیڈین تجربے کی حامل تھی۔ تیسرا سال نسبتاً زیادہ آسودگی لایا۔

اس نے لکھا تھا ''اب یہاں ہمارا چوتھا سال ہے۔ میری بیگم پڑھ رہی ہیں۔ ہم اپنا زیادہ وقت پڑھائی اور بچوں کو دے رہے ہیں۔ میں سخت محنت پر یقین رکھتا ہوں اور کسی کو دوش دینا پسند نہیں کرتا۔'' اس نے لکھا تھا کہ ہم یہاں اپنی مرضی سے آئے ہیں کسی نے مجبور نہیں کیا تھا، ہمیں خود اپنے لیے جگہ بنانا ہے۔

فرخ سلیم پر اس تحریر کا بہت اثر ہوا۔ انھوں نے اسی وقت وضو کیا، دو رکعت نفل پڑھے اور پروردگار سے مدد کی دعا مانگی۔ لکھتے ہیں ''میں جائے نماز لپیٹ کر اٹھا تو ایک نیا جذبہ اور ولولہ محسوس کر رہا تھا۔'' اب ان کے سامنے ایک مثال اپنے جیسے امیگرنٹ کی تھی۔

دوسرے دن فرخ کو انٹرنیٹ مینجمنٹ اور ویب ڈیزائننگ کے ایک سال کے کورس کا اشتہار نظر آیا۔ انھوں نے داخلے کے لیے درخواست دے دی، داخلہ مل گیا۔ یہ کل وقتی طالب علم تھے، دس مہینے کلاس روم کی تعلیم اور دو مہینے عملی ٹریننگ۔ تعلیم کے لیے قرضہ بھی مل گیا۔ کالج کی فیس، کتابوں کی خریداری اور دیگر ضروری اخراجات پورے کرنے کے بعد قرضے کی رقم سے جو بچ رہی تھی اس سے گاڑی بھی خرید لی کہ ٹرانسپورٹ کا خرچ بچے گا اور وقت بھی بچوں کو بھی آرام مل جائے گا۔

فرخ سلیم کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ چھوٹے بیٹے کی قرآن کی تعلیم کے لیے گھر سے نزدیک ترین مسجد پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر تھی۔ مگر جانے کے لیے تین بسیں بدلنی پڑتی تھیں، گاڑی آ جانے سے یہ مسئلہ بھی حل ہو رہا تھا۔ انھوں نے بچے کی تعلیم کے دوران خود بھی تلاوت قرآن کا معمول بنا لیا۔ مدرسہ میں جماعت کے ساتھ عصرکی نماز بھی ہو جاتی۔ لکھتے ہیں ''میں نے محسوس کیا کہ میری طبیعت میں ٹھہراؤ سا آتا جا رہا ہے، اضطرابی کیفیت کم ہو رہی ہے۔''

فرخ سلیم کو کالج کی تعلیم کے دوران پارٹ ٹائم اسٹوڈنٹ ویب ڈیزائنر کی نوکری مل گئی۔ انھیں کینیڈا میں آئے ساڑھے تین سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ کینیڈا کی شہریت کے حقدار ہو گئے تھے لہٰذا درخواست دے دی، شہریت کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ شہریت مل گئی اور پاسپورٹ بھی بن گئے۔ پارلیمنٹ کے لیے الیکشن ہوا تو ووٹ بھی دے آئے۔

فرخ کی بیگم فیکٹری میں نوکری کر رہی تھیں، وہ ختم ہو گئی تو کمیونٹی ہیلتھ پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلہ لے لیا۔ پہلا سیمسٹر بہت مشکل ثابت ہوا مگر اچھے نمبروں سے پاس ہو گئیں۔ خود فرخ کو جنھیں کمیونٹی ایجنسی میں کام کرتے اب پانچ سال ہو گئے تھے سیٹلمنٹ کونسلر کی جاب مل گئی۔ ایک سال بعد انھوں نے ویب ڈیزائننگ کو بہ طور پروفیشن کے خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا اور تین سال پر محیط سوشل ورک کے ایک ماسٹرز کورس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس میں ساڑھے چار سو گھنٹے کی عملی تربیت بھی شامل تھی۔

بالآخر ڈگری کورس ختم ہوا۔ ڈگری دینے کا وقت آ گیا۔ کانووکیشن ہال کا دروازہ کھول دیا گیا۔ ڈگری حاصل کرنے والے قطاروں میں کھڑے تھے۔ باری باری نام پکارے جانے لگے۔ ہر طالب علم اپنی ڈگری لینے کے بعد خوشی سے اچھلتا، کودتا، کوئی مستانہ وار نعرے لگاتا، کوئی ہوائی بوسہ دیتا اسٹیج سے اتر رہا تھا۔

فرخ سلیم کا نام پکارا گیا، قدم کچھ ڈگمگائے مگر یہ سیڑھیاں پھلانگتے اسٹیج پر چڑ گئے۔ ''مبارک ہو، تمہاری محنتوں کا ثمر۔'' وائس چانسلر نے ان کے ہاتھ میں ڈگری دیتے ہوئے کہا۔

''میری محنتوں کا ثمر؟'' فرخ سلیم نے ایک لمحے کے لیے سوچا ''کرم ہے اس کا جس کی ہم مخلوق ہیں ورنہ ہم کیا ہماری اوقات کیا۔ رہے نام اللہ کا۔'' پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور بلند آواز سے کہا۔
''او کینیڈا۔۔۔۔۔او کینیڈا۔۔۔۔!''
Load Next Story