کراچی آپریشن‘ مسائل اور حل
کراچی شہر میں ان دنوں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری ہے
کراچی شہر میں ان دنوں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری ہے (گو کہ اس پر کڑی تنقید بھی جاری ہے) اور بلدیاتی حوالے سے بھی کافی عرصے سے شہر کو بہتر بنانے اور ایک مربوط پلاننگ کے تحت لانے کے لیے بھی آپریشن جاری ہے، اس سلسلے میں گجر نالے کے اطراف میں آباد مکانات کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک اہم ذمے دار کا بیان اخبارات میں شایع ہوا کہ مکانات کو مسمار کرنے کے لیے کسی بھی مکین کو کوئی قانونی نوٹس نہیں دیا جائے گا کیونکہ اس سے وقت ضایع ہوتا ہے اور کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
گو کہ گجر نالے کے اطراف میں (نالے کے کنارے) قائم مکانات کو ختم کر کے نالے کی وسعت بڑھانا اور پانی کا راستہ صاف کرنا ایک بہت اچھا کام ہے جس سے برسات میں شہر میں پانی کی نکاسی بلا رکاوٹ ہو سکے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کسی اچھے اور قانونی کام کے لیے کوئی غیر قانونی قدم کیوں اٹھایا جائے؟
کیا ان آبادیوں کو پہلے سے قانونی نوٹس دینے میں کوئی قباحت تھی؟ کیا انھیں پہلے سے متبادل جگہ دے کر بسایا نہیں جا سکتا تھا؟ آخر اس عمل میں کتنا وقت اور پیسہ لگتا؟ جس وقت لیاری ایکسپریس وے بنایا جا رہا تھا اس وقت بھی اس قسم کی لاقانونیت سرکاری اداروں کی جانب سے کی گئی تھی خود راقم کے پاس بعض لوگوں نے شکایت کی تھی کہ انھیں تو پلاٹ تک نہیں دیے گئے اور مکانات مسمار کرنے کا عملہ سر پر آ کھڑا ہوا ہے۔
اسی طرح انھیں سرجانی کے دور دراز علاقے میں پلاٹ اور محض 20 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں جب کہ 20 ہزار میں تو جھونپڑی ڈالنا بھی ممکن نہیں جب کہ ان کے گرائے جانے والے مکانات تو پکے لینٹر کے بنے ہوئے تھے جو تمام سہولیات سے آراستہ تھے۔ اسی طرح جس علاقے میں انھیں پلاٹ دیے گئے وہ شہر کے وسط سے کم از کم ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھے جہاں اسکول و اسپتال جیسی سہولیات کا بھی فقدان تھا۔
اس ملک میں شاید کمزور اور غریب کے لیے ہی نہ صرف قانون ہوتا ہے بلکہ جنگل کا قانون ہوتا ہے کہ جیسا چاہو برتاؤ کر لو۔ اسی طرح شہر میں چلنے والی چنگ چی رکشے نہ صرف یکدم بند کر دیے گئے بلکہ شہریوں کے لیے متبادل ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا۔ چنگ چی رکشوں کے ساتھ سی این جی رکشوں کو بھی بڑی تعداد میں بند کر دیا گیا تو سی این جی رکشا مالکان بھی اخبارات میں بیانات دینے لگے۔
راقم کے خیال میں گجر نالے کا مسئلہ ہو یا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ یہ شہریوں کے اہم ترین مسائل میں شمار ہوتے ہیں انھیں طریقے سے مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ چند برسوں بعد پھر پرانی صورتحال ہو جائے گی۔ حل کے ضمن میں عرض ہے کہ گجر نالے کے اطراف آبادیوں کو پہلے شہر کے کسی دوسرے حصے میں منتقل کیا جائے، شہر سے باہر نہیں جیسا کہ لیاری ایکسپریس وے والوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
کیونکہ جب قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے ہی قانون کا احترام نہ کریں گے تو عوام کیسے کریں گے؟ پھر گجر نالے کے دونوں اطراف دیوار بنائی جائے، درخت لگائے جائیں اور کناروں کے ساتھ ساتھ دس، بیس فٹ چوڑا سائیکل ٹریک بنادیا جائے تا کہ لوگ سائیکل کے سفر کو ترجیح دیں اور جن کو سہولت ہو وہ اس ٹریک سے سفر کریں اس طرح شہر سے ٹریفک کی آلودگی کم ہو گی اور سفر کے لیے ایک طویل نیا ٹریک شہریوں کو سہولت فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ اس عمل سے نالے کے کنارے دوبارہ آبادیاں قائم نہیں ہوں گی ورنہ اس قسم کی صفائی تو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے مگر کچھ عرصے بعد لینڈ مافیا پھر یہاں آبادیاں قائم کر دیتی ہے۔
ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا حل بڑی بسوں میں ہے لیکن اس حوالے سے اخبارات میں کئی دہائیوں سے صرف خبریں ہی آ رہی ہیں کام نظر نہیں آیا اسی طرح لوکل ٹرین سروس بھی صرف اخبارات کی خبروں میں نظر آتی ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ جب شہری اپنے روزگار پر آنے جانے کے لیے منی بسوں کی چھت پر سفر کرتے ہوں انھیں مزید پریشان کرنا قطعی درست نہیں۔ چنگ چی رکشے یقینا شہر میں نہیں ہونے چاہئیں ان سے مسائل بھی وابستہ ہیں لیکن ان رکشوں کو بند کرنے سے شہریوں کو شدید مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
راقم نے جن جن شہریوں سے چنگ چی رکشوں کی بندش پر رائے لی ان تمام نے جو ان رکشوں میں سفر کرتے تھے کہا کہ ان رکشوں سے انھیں بہت سی سہولیات حاصل تھیں مثلاً یہ کہ ان کا وقت بچتا تھا، کرایہ بچتا تھا خصوصاً اسکول کی طالبات اور خواتین نے کہا کہ مزدا ویگن وغیرہ کے مقابلے میں وہ آزادی اور سکون سے ان رکشوں میں سفر کرتی تھیں کیونکہ ویگن اور کوچ وغیرہ میں تو انھیں کھڑا ہونے کی جگہ تک نہیں ملتی تھی۔
مرد حضرات لیڈیز کے حصے میں بھی آ جاتے تھے اور بدتمیز کنڈیکٹر خواتین کے رش میں ٹکٹ لینے کے لیے گھس جاتے تھے، ڈرائیور تو لیڈیز کو دیکھ کر اکثر گاڑی روکتے ہی نہیں تھے۔ گویا سب سے زیادہ متاثر ہونے والی خواتین ہیں جن کے خیال میں چنگ چی رکشے ان کے لیے ایک نعمت تھے۔ ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر میں بڑی بسوں کا فقدان شرم ناک ہے۔
شہری انتظامیہ کو ٹھنڈے دل سے اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے اور یوں یکدم بغیر کسی انتظام کے چنگ چی رکشوں کو بند کر کے عوام کے مسائل میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق یہ رکشے بند ہوتے ہی منی بسوں میں رش بڑھ گیا ہے چھت پر بھی بمشکل جگہ ملتی ہے جب کہ منی بسوں نے ان رکشوں کی آمد کے بعد (کمپٹیشن کے بعد) کرایوں میں جو کمی کی تھی وہ فوراً واپس لے لی اور کرایے بڑھا دیے ہیں۔
پارکنگ کے حوالے سے بھی شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جب شہری انتظامیہ شہریوں کی سہولت کے لیے آپریشن کر رہی ہے تو اسے چاہیے پارکنگ کی پالیسی پر بھی نظرثانی کرے۔
فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کا حق ہوتی ہے لیکن شہر کے تمام علاقوں میں فٹ پاتھ کو پارکنگ کی جگہ بنا کر سرکاری اور نجی پارٹیاں شہریوں سے پارکنگ فیس وصول کر رہی ہیں اولاً تو پارکنگ فیس ہی غلط ہے، یہ عمارتیں بنانے والوں یعنی اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ جب وہ کسی بھی ادارے کی (خواہ وہ سرکاری ہو یا نجی) تعمیر کریں تو پارکنگ کی جگہ بھی بنائیں، یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ادارے خود کماتے ہیں، پارکنگ کی جگہ نہیں بناتے اور شہریوں سے پارکنگ فیس وصول کی جاتی ہے۔
کراچی آپریشن کے تحت لینڈ مافیا کے خلاف بھی کارروائی ہو رہی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ شہر کے وہ کھلے پلاٹ اور میدان یا پارک جہاں شہری بچے اور جوان صبح و شام کھیلتے تھے دوبارہ شہریوں کے لیے مختص کر دیے جائیں اور یہ شہر جو دن بہ دن کنکریٹ عمارتوں کا جنگل بنتا جا رہا ہے، کمرشل ازم کی نظر ہوتا جا رہا ہے کچھ تو واپس اپنی اصل حالت میں آئے۔ امید ہے کہ متعلقہ ادارے راقم کی تجاویز پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں گے۔
گو کہ گجر نالے کے اطراف میں (نالے کے کنارے) قائم مکانات کو ختم کر کے نالے کی وسعت بڑھانا اور پانی کا راستہ صاف کرنا ایک بہت اچھا کام ہے جس سے برسات میں شہر میں پانی کی نکاسی بلا رکاوٹ ہو سکے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کسی اچھے اور قانونی کام کے لیے کوئی غیر قانونی قدم کیوں اٹھایا جائے؟
کیا ان آبادیوں کو پہلے سے قانونی نوٹس دینے میں کوئی قباحت تھی؟ کیا انھیں پہلے سے متبادل جگہ دے کر بسایا نہیں جا سکتا تھا؟ آخر اس عمل میں کتنا وقت اور پیسہ لگتا؟ جس وقت لیاری ایکسپریس وے بنایا جا رہا تھا اس وقت بھی اس قسم کی لاقانونیت سرکاری اداروں کی جانب سے کی گئی تھی خود راقم کے پاس بعض لوگوں نے شکایت کی تھی کہ انھیں تو پلاٹ تک نہیں دیے گئے اور مکانات مسمار کرنے کا عملہ سر پر آ کھڑا ہوا ہے۔
اسی طرح انھیں سرجانی کے دور دراز علاقے میں پلاٹ اور محض 20 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں جب کہ 20 ہزار میں تو جھونپڑی ڈالنا بھی ممکن نہیں جب کہ ان کے گرائے جانے والے مکانات تو پکے لینٹر کے بنے ہوئے تھے جو تمام سہولیات سے آراستہ تھے۔ اسی طرح جس علاقے میں انھیں پلاٹ دیے گئے وہ شہر کے وسط سے کم از کم ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھے جہاں اسکول و اسپتال جیسی سہولیات کا بھی فقدان تھا۔
اس ملک میں شاید کمزور اور غریب کے لیے ہی نہ صرف قانون ہوتا ہے بلکہ جنگل کا قانون ہوتا ہے کہ جیسا چاہو برتاؤ کر لو۔ اسی طرح شہر میں چلنے والی چنگ چی رکشے نہ صرف یکدم بند کر دیے گئے بلکہ شہریوں کے لیے متبادل ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا۔ چنگ چی رکشوں کے ساتھ سی این جی رکشوں کو بھی بڑی تعداد میں بند کر دیا گیا تو سی این جی رکشا مالکان بھی اخبارات میں بیانات دینے لگے۔
راقم کے خیال میں گجر نالے کا مسئلہ ہو یا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ یہ شہریوں کے اہم ترین مسائل میں شمار ہوتے ہیں انھیں طریقے سے مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ چند برسوں بعد پھر پرانی صورتحال ہو جائے گی۔ حل کے ضمن میں عرض ہے کہ گجر نالے کے اطراف آبادیوں کو پہلے شہر کے کسی دوسرے حصے میں منتقل کیا جائے، شہر سے باہر نہیں جیسا کہ لیاری ایکسپریس وے والوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
کیونکہ جب قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے ہی قانون کا احترام نہ کریں گے تو عوام کیسے کریں گے؟ پھر گجر نالے کے دونوں اطراف دیوار بنائی جائے، درخت لگائے جائیں اور کناروں کے ساتھ ساتھ دس، بیس فٹ چوڑا سائیکل ٹریک بنادیا جائے تا کہ لوگ سائیکل کے سفر کو ترجیح دیں اور جن کو سہولت ہو وہ اس ٹریک سے سفر کریں اس طرح شہر سے ٹریفک کی آلودگی کم ہو گی اور سفر کے لیے ایک طویل نیا ٹریک شہریوں کو سہولت فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ اس عمل سے نالے کے کنارے دوبارہ آبادیاں قائم نہیں ہوں گی ورنہ اس قسم کی صفائی تو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے مگر کچھ عرصے بعد لینڈ مافیا پھر یہاں آبادیاں قائم کر دیتی ہے۔
ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا حل بڑی بسوں میں ہے لیکن اس حوالے سے اخبارات میں کئی دہائیوں سے صرف خبریں ہی آ رہی ہیں کام نظر نہیں آیا اسی طرح لوکل ٹرین سروس بھی صرف اخبارات کی خبروں میں نظر آتی ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ جب شہری اپنے روزگار پر آنے جانے کے لیے منی بسوں کی چھت پر سفر کرتے ہوں انھیں مزید پریشان کرنا قطعی درست نہیں۔ چنگ چی رکشے یقینا شہر میں نہیں ہونے چاہئیں ان سے مسائل بھی وابستہ ہیں لیکن ان رکشوں کو بند کرنے سے شہریوں کو شدید مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
راقم نے جن جن شہریوں سے چنگ چی رکشوں کی بندش پر رائے لی ان تمام نے جو ان رکشوں میں سفر کرتے تھے کہا کہ ان رکشوں سے انھیں بہت سی سہولیات حاصل تھیں مثلاً یہ کہ ان کا وقت بچتا تھا، کرایہ بچتا تھا خصوصاً اسکول کی طالبات اور خواتین نے کہا کہ مزدا ویگن وغیرہ کے مقابلے میں وہ آزادی اور سکون سے ان رکشوں میں سفر کرتی تھیں کیونکہ ویگن اور کوچ وغیرہ میں تو انھیں کھڑا ہونے کی جگہ تک نہیں ملتی تھی۔
مرد حضرات لیڈیز کے حصے میں بھی آ جاتے تھے اور بدتمیز کنڈیکٹر خواتین کے رش میں ٹکٹ لینے کے لیے گھس جاتے تھے، ڈرائیور تو لیڈیز کو دیکھ کر اکثر گاڑی روکتے ہی نہیں تھے۔ گویا سب سے زیادہ متاثر ہونے والی خواتین ہیں جن کے خیال میں چنگ چی رکشے ان کے لیے ایک نعمت تھے۔ ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر میں بڑی بسوں کا فقدان شرم ناک ہے۔
شہری انتظامیہ کو ٹھنڈے دل سے اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے اور یوں یکدم بغیر کسی انتظام کے چنگ چی رکشوں کو بند کر کے عوام کے مسائل میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق یہ رکشے بند ہوتے ہی منی بسوں میں رش بڑھ گیا ہے چھت پر بھی بمشکل جگہ ملتی ہے جب کہ منی بسوں نے ان رکشوں کی آمد کے بعد (کمپٹیشن کے بعد) کرایوں میں جو کمی کی تھی وہ فوراً واپس لے لی اور کرایے بڑھا دیے ہیں۔
پارکنگ کے حوالے سے بھی شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جب شہری انتظامیہ شہریوں کی سہولت کے لیے آپریشن کر رہی ہے تو اسے چاہیے پارکنگ کی پالیسی پر بھی نظرثانی کرے۔
فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کا حق ہوتی ہے لیکن شہر کے تمام علاقوں میں فٹ پاتھ کو پارکنگ کی جگہ بنا کر سرکاری اور نجی پارٹیاں شہریوں سے پارکنگ فیس وصول کر رہی ہیں اولاً تو پارکنگ فیس ہی غلط ہے، یہ عمارتیں بنانے والوں یعنی اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ جب وہ کسی بھی ادارے کی (خواہ وہ سرکاری ہو یا نجی) تعمیر کریں تو پارکنگ کی جگہ بھی بنائیں، یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ادارے خود کماتے ہیں، پارکنگ کی جگہ نہیں بناتے اور شہریوں سے پارکنگ فیس وصول کی جاتی ہے۔
کراچی آپریشن کے تحت لینڈ مافیا کے خلاف بھی کارروائی ہو رہی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ شہر کے وہ کھلے پلاٹ اور میدان یا پارک جہاں شہری بچے اور جوان صبح و شام کھیلتے تھے دوبارہ شہریوں کے لیے مختص کر دیے جائیں اور یہ شہر جو دن بہ دن کنکریٹ عمارتوں کا جنگل بنتا جا رہا ہے، کمرشل ازم کی نظر ہوتا جا رہا ہے کچھ تو واپس اپنی اصل حالت میں آئے۔ امید ہے کہ متعلقہ ادارے راقم کی تجاویز پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں گے۔