اقتدار کی بھوک
جگہ جگہ جلسوں کا بازار گرم ہے، مگر کیا واقعی ہم انتخابات کی سمت بڑھ رہے ہیں
جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے، اقتدار سے وابستہ اور غیر وابستہ سیاست دان اپنے اپنے پکوان بیچنے کے لیے اپنے خوانچے لگارہے ہیں، چٹ پٹے پکوان، کہ اب ہم تمہاری قسمت بدل ڈالیں گے، اب یہ لگتا ہے کہ اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی خستہ حالی کی جانب تیزی سے بڑھیں گے، توانائی کے بحران نے براہِ راست، زراعت انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، سب کی چولیں ہلادی ہیں۔
ہر شخص جو وزارت کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہے، خصوصاً تیل کی صنعت کا، اس نے ملک میں زبردست بے یقینی پیدا کردی ہے، گیسولین کے نرخ ہر ہفتے بدلتے رہتے ہیں۔ہر شعبے کی کوئی بنیاد اور اصول ہوتے ہیں، تیل اور گیس کا براہِ راست تعلق عام صارف سے لے کر انڈسٹری تک ہے اور ہر روز اس کے ریٹ آگے پیچھے کرنا محض شعبدہ بازی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ ان تمام تبدیلیوں کا تعلق نہ عالمی منڈی کے نرخ سے ہے اور نہ اس کی کوئی منطق بنتی ہے، صنعت کا پہیّا نصف پیداوار پر آکے رک گیا ہے، لوگوں کی چھانٹی ہورہی ہے، البتہ گورنمنٹ کی چھوٹی ملازمتوں کے اشتہارات آئے دن آتے ہیں ۔ جگہ جگہ جلسوں کا بازار گرم ہے، مگر کیا واقعی ہم انتخابات کی سمت بڑھ رہے ہیں یا طوائف الملوکی کی جانب۔ ہر جلسہ گاہ سے عوام کو سپنے دِکھائے جارہے ہیں۔
محض کھوکھلے نعروں سے لوگوں کا دل جیتنے کی سعی رائیگاں کی جارہی ہے۔ کئی ماہ سے بلوچستان کے مسئلے پر شور و غوغا مچ رہا ہے۔ وہ کام بیورو کریسی یا ایجنسی کے حوالے کردیا گیا ہے، محض ووٹ کی سیاست جاری ہے۔ گزشتہ دس پندرہ روز قبل اختر مینگل کا بڑا چرچا تھا، ہر چینل کے لوگ ان کو نمایاں کرنے کے لیے پیش پیش تھے مگر ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ جو گفتگو کررہے ہیں، اس میں کس قدر صداقت ہے اور آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، آپ کو ان رہنمائوں کی کس قدر آشیرواد حاصل ہے جو لوگ ملک سے باہر ہیں اور جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے برسر پیکار ہیں۔ بلوچستان آج سے نہیں بہت پہلے سے جل رہا ہے۔
ایوب خان نے اس جلتی پر تیل چھڑکا اور بھٹو صاحب کے دور میں عطا اﷲ مینگل کی حکومت کو برخاست کرکے آگ بھڑکادی۔ شاید یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ بلوچستان کی تاریخی جدوجہد میں جہاں قوم پرستوں کے گروہ شامل ہیں، ان گروہوں میں کمیونسٹ خیالات کے حامیوں کی تعداد بہت نمایاں ہے کیوں کہ سوویت یونین کی جب حکومت تھی تو بلوچستان میں ایک بہت بڑی لابی کمیونسٹ یا سوشلسٹ خیالات کی حامل تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو مرحوم شیر محمد مری خود کو جنرل شیروف کہلاتے تھے۔
بلوچستان کے نوجوان سوویت انقلاب کے طرز کا انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے مگر سوشلسٹوں کی مرکزی قیادت رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئی اور قیادت صرف نیشنلسٹ لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی اور اب بات چیت کا دروازہ تقریباً بند ہو کر رہ گیا ہے۔ وسیع رقبے کا بلوچستان جس پر دنیا کی نظریں ہیں اب انجانی منزل کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی آشنا نہ ہو کہ سوویت حکومت کے دور میں سوویت یونین افغانستان اور بلوچستان میں اپنی من پسند حکومت چاہتی تھی تاکہ وسطی ایشیا کی حکومتوں کو کھلے سمندر میں سہولتیں ملیں، سوویت یونین کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا گیا مگر یہ سوویت ریاستیں جو آج بھی اپنی آزادی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، ان کے لیے گوادر کی بندرگاہ امرت ہے۔ اب متبادل تلاش کیے جارہے ہیں، ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ کو استعمال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیںاور دنیا کے کئی ممالک اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں یہ بھی شور برپا تھا کہ روس اور پاکستان سے نئے سیاسی دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ سمجھ میں یہ عام سی بات نہیں آتی کہ پاکستان نے جہادیوں اور امریکا سے مل کر سوویت حکومت پر جو ضرب کاری لگائی ہے، روس اس کو یکسر کیونکر بھول جائے گا جب کہ آج بھی افغانستان غیر مستحکم ہے اور پاکستان کی حکمت عملی کی بنیاد پر آج وہاں نیٹو ممالک کی افواج موجود ہیں، یہ مسئلہ جتنا اہم روس کے لیے ہے چین بھی اس مسئلے کو اسی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں شام پر بھی کچھ ایسا ہی وار کیا گیا ہے۔
اس وار کے لیے ترکی کی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔ شام کا مسئلہ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ الگ مسئلہ ہے مگر یہاں یہ رخ دونوں ممالک کا یکساں ہے تو ایسی صورت میں روس اگر کچھ مدد کرسکتا ہے تو وہ توانائی کا بحران ہے کیونکہ سابق سوویت ریاستیں تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں اور روس توانائی کے شعبے میں تعاون ضرور کرسکتا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ جب گورباچوف جو سوویت یونین کے آخری رہنما تھے، جب پیراسڑائیکا اور گلاسنوٹ کی تحریک چلارہے تھے تو پوتن کے جی بی کے سربراہ تھے جو وہاں کی خفیہ ایجنسی تھی، لہٰذا ان کے دماغ کو پڑھنا ضروری ہے اور پھر پالیسیاں مرتب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سابق سوویت یونین اور روس کی موجودہ حکومت میں زیادہ فرق نہیں، پاکستان کا میڈیا روسی خبروں کا بالکل بائیکاٹ کیے ہوئے ہے، وہاں کیا ہورہا ہے، ترقی کی رفتار کیا ہے ہمیں کوئی انفارمیشن نہیں۔
روس کے ساتھ ہمارے سیاسی اور سماجی رشتے بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اس کو نمو دینے کی ضرورت ہے اور سماجی، تعلیمی اور ثقافتی معاہدوں کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی پیش رفت ممکن ہو، اچانک کسی کے ایک وزٹ سے کوئی نمایاں تبدیلی ممکن نہیں۔ عالمی سیاست میں رفتہ رفتہ تبدیلیاں آرہی ہیں، جاپان اور چین کے تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا ہورہی ہے، مگر امریکا چین سے براہِ راست مخاصمت مول نہیں لینا چاہتا کیونکہ چین امریکا کے لیے پیداوار کررہا ہے۔ دوسری جانب چین بھی امریکا کی اس کساد بازاری کے ماحول میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ بڑے ملکوں کے علاوہ خود افغانستان کی بھی یہی خواہش ہے کہ پاکستان میں خصوصاً اس کے سرحدی علاقے افغانستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں۔ یہ تمام عمل محض طاقت کے بل بوتے پر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عسکری عزائم سے حل ہوسکتے ہیں۔
افغانستان میں نیٹو ممالک کی فوج موجود ہے مگر کرزئی حکومت روس اور اس کی سابق ریاستوں سے معمول کے تعلقات رکھتی ہے اور بھارت بھی اس خطے میں اس کا بڑا شراکت دار ہے اور اس بات کا بھی امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد بھارت کو کلیدی کردار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس پر روس اور امریکا میں اختلاف کے امکانات کم ہیں۔ گویا بھارت کی سفارت کاری میں دور اندیشی کا پہلو نمایاں ہے مگر صد حیف پاکستان کے سیاست دانوں میں وسیع النظری اور عالمی امور پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ اسی لیے وہ کبھی بھی بڑے سیاسی اور فوجی نوعیت کے فیصلے کرنے کے مجاز نہیں۔
افسوس ہر شہر میں جلسے ہورہے ہیں مگر توانائی پر کسی کا کوئی ایجنڈا نہیں۔ عالمی افق پر وہ کیا کریں گے کچھ معلوم نہیں۔ مغربی اور مشرقی سرحدوں کے لیے کیا پالیسی ہوگی، زبانیں خاموش ہیں،مایوسی، غربت، افلاس ایسا لگتا ہے کہ قوم کا مقدر بن گیا ہے، لاشیں، قتل و غارت، فتنہ انگیزی سے کیسے نجات پائی جائے، لوگ تقسیم ہیں اور مایوس بھی اگر لیڈروں نے ملک کی اصل اور کلیدی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو پورا سیٹ اپ تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر صورتِ حال یوں ہی طویل عرصے تک جاری رہی تو پھر جو بھی نام نہاد جمہوریت ہے، اس کا دیا بھی بجھ جائے گا، گویا ہم دانستہ ایک شدید آمریت کا دعوت دے رہے ہیں جو آئے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالے۔ واضح رہے کہ جب بھی پاکستان میں آمریت نازل ہوئی تو اس میں سیاست دانوں کی نااہلی کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہر شخص جو وزارت کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہے، خصوصاً تیل کی صنعت کا، اس نے ملک میں زبردست بے یقینی پیدا کردی ہے، گیسولین کے نرخ ہر ہفتے بدلتے رہتے ہیں۔ہر شعبے کی کوئی بنیاد اور اصول ہوتے ہیں، تیل اور گیس کا براہِ راست تعلق عام صارف سے لے کر انڈسٹری تک ہے اور ہر روز اس کے ریٹ آگے پیچھے کرنا محض شعبدہ بازی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ ان تمام تبدیلیوں کا تعلق نہ عالمی منڈی کے نرخ سے ہے اور نہ اس کی کوئی منطق بنتی ہے، صنعت کا پہیّا نصف پیداوار پر آکے رک گیا ہے، لوگوں کی چھانٹی ہورہی ہے، البتہ گورنمنٹ کی چھوٹی ملازمتوں کے اشتہارات آئے دن آتے ہیں ۔ جگہ جگہ جلسوں کا بازار گرم ہے، مگر کیا واقعی ہم انتخابات کی سمت بڑھ رہے ہیں یا طوائف الملوکی کی جانب۔ ہر جلسہ گاہ سے عوام کو سپنے دِکھائے جارہے ہیں۔
محض کھوکھلے نعروں سے لوگوں کا دل جیتنے کی سعی رائیگاں کی جارہی ہے۔ کئی ماہ سے بلوچستان کے مسئلے پر شور و غوغا مچ رہا ہے۔ وہ کام بیورو کریسی یا ایجنسی کے حوالے کردیا گیا ہے، محض ووٹ کی سیاست جاری ہے۔ گزشتہ دس پندرہ روز قبل اختر مینگل کا بڑا چرچا تھا، ہر چینل کے لوگ ان کو نمایاں کرنے کے لیے پیش پیش تھے مگر ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ جو گفتگو کررہے ہیں، اس میں کس قدر صداقت ہے اور آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، آپ کو ان رہنمائوں کی کس قدر آشیرواد حاصل ہے جو لوگ ملک سے باہر ہیں اور جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے برسر پیکار ہیں۔ بلوچستان آج سے نہیں بہت پہلے سے جل رہا ہے۔
ایوب خان نے اس جلتی پر تیل چھڑکا اور بھٹو صاحب کے دور میں عطا اﷲ مینگل کی حکومت کو برخاست کرکے آگ بھڑکادی۔ شاید یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ بلوچستان کی تاریخی جدوجہد میں جہاں قوم پرستوں کے گروہ شامل ہیں، ان گروہوں میں کمیونسٹ خیالات کے حامیوں کی تعداد بہت نمایاں ہے کیوں کہ سوویت یونین کی جب حکومت تھی تو بلوچستان میں ایک بہت بڑی لابی کمیونسٹ یا سوشلسٹ خیالات کی حامل تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو مرحوم شیر محمد مری خود کو جنرل شیروف کہلاتے تھے۔
بلوچستان کے نوجوان سوویت انقلاب کے طرز کا انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے مگر سوشلسٹوں کی مرکزی قیادت رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئی اور قیادت صرف نیشنلسٹ لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی اور اب بات چیت کا دروازہ تقریباً بند ہو کر رہ گیا ہے۔ وسیع رقبے کا بلوچستان جس پر دنیا کی نظریں ہیں اب انجانی منزل کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی آشنا نہ ہو کہ سوویت حکومت کے دور میں سوویت یونین افغانستان اور بلوچستان میں اپنی من پسند حکومت چاہتی تھی تاکہ وسطی ایشیا کی حکومتوں کو کھلے سمندر میں سہولتیں ملیں، سوویت یونین کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا گیا مگر یہ سوویت ریاستیں جو آج بھی اپنی آزادی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، ان کے لیے گوادر کی بندرگاہ امرت ہے۔ اب متبادل تلاش کیے جارہے ہیں، ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ کو استعمال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیںاور دنیا کے کئی ممالک اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں یہ بھی شور برپا تھا کہ روس اور پاکستان سے نئے سیاسی دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ سمجھ میں یہ عام سی بات نہیں آتی کہ پاکستان نے جہادیوں اور امریکا سے مل کر سوویت حکومت پر جو ضرب کاری لگائی ہے، روس اس کو یکسر کیونکر بھول جائے گا جب کہ آج بھی افغانستان غیر مستحکم ہے اور پاکستان کی حکمت عملی کی بنیاد پر آج وہاں نیٹو ممالک کی افواج موجود ہیں، یہ مسئلہ جتنا اہم روس کے لیے ہے چین بھی اس مسئلے کو اسی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں شام پر بھی کچھ ایسا ہی وار کیا گیا ہے۔
اس وار کے لیے ترکی کی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔ شام کا مسئلہ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ الگ مسئلہ ہے مگر یہاں یہ رخ دونوں ممالک کا یکساں ہے تو ایسی صورت میں روس اگر کچھ مدد کرسکتا ہے تو وہ توانائی کا بحران ہے کیونکہ سابق سوویت ریاستیں تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں اور روس توانائی کے شعبے میں تعاون ضرور کرسکتا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ جب گورباچوف جو سوویت یونین کے آخری رہنما تھے، جب پیراسڑائیکا اور گلاسنوٹ کی تحریک چلارہے تھے تو پوتن کے جی بی کے سربراہ تھے جو وہاں کی خفیہ ایجنسی تھی، لہٰذا ان کے دماغ کو پڑھنا ضروری ہے اور پھر پالیسیاں مرتب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سابق سوویت یونین اور روس کی موجودہ حکومت میں زیادہ فرق نہیں، پاکستان کا میڈیا روسی خبروں کا بالکل بائیکاٹ کیے ہوئے ہے، وہاں کیا ہورہا ہے، ترقی کی رفتار کیا ہے ہمیں کوئی انفارمیشن نہیں۔
روس کے ساتھ ہمارے سیاسی اور سماجی رشتے بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اس کو نمو دینے کی ضرورت ہے اور سماجی، تعلیمی اور ثقافتی معاہدوں کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی پیش رفت ممکن ہو، اچانک کسی کے ایک وزٹ سے کوئی نمایاں تبدیلی ممکن نہیں۔ عالمی سیاست میں رفتہ رفتہ تبدیلیاں آرہی ہیں، جاپان اور چین کے تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا ہورہی ہے، مگر امریکا چین سے براہِ راست مخاصمت مول نہیں لینا چاہتا کیونکہ چین امریکا کے لیے پیداوار کررہا ہے۔ دوسری جانب چین بھی امریکا کی اس کساد بازاری کے ماحول میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ بڑے ملکوں کے علاوہ خود افغانستان کی بھی یہی خواہش ہے کہ پاکستان میں خصوصاً اس کے سرحدی علاقے افغانستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں۔ یہ تمام عمل محض طاقت کے بل بوتے پر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عسکری عزائم سے حل ہوسکتے ہیں۔
افغانستان میں نیٹو ممالک کی فوج موجود ہے مگر کرزئی حکومت روس اور اس کی سابق ریاستوں سے معمول کے تعلقات رکھتی ہے اور بھارت بھی اس خطے میں اس کا بڑا شراکت دار ہے اور اس بات کا بھی امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد بھارت کو کلیدی کردار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس پر روس اور امریکا میں اختلاف کے امکانات کم ہیں۔ گویا بھارت کی سفارت کاری میں دور اندیشی کا پہلو نمایاں ہے مگر صد حیف پاکستان کے سیاست دانوں میں وسیع النظری اور عالمی امور پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ اسی لیے وہ کبھی بھی بڑے سیاسی اور فوجی نوعیت کے فیصلے کرنے کے مجاز نہیں۔
افسوس ہر شہر میں جلسے ہورہے ہیں مگر توانائی پر کسی کا کوئی ایجنڈا نہیں۔ عالمی افق پر وہ کیا کریں گے کچھ معلوم نہیں۔ مغربی اور مشرقی سرحدوں کے لیے کیا پالیسی ہوگی، زبانیں خاموش ہیں،مایوسی، غربت، افلاس ایسا لگتا ہے کہ قوم کا مقدر بن گیا ہے، لاشیں، قتل و غارت، فتنہ انگیزی سے کیسے نجات پائی جائے، لوگ تقسیم ہیں اور مایوس بھی اگر لیڈروں نے ملک کی اصل اور کلیدی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو پورا سیٹ اپ تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر صورتِ حال یوں ہی طویل عرصے تک جاری رہی تو پھر جو بھی نام نہاد جمہوریت ہے، اس کا دیا بھی بجھ جائے گا، گویا ہم دانستہ ایک شدید آمریت کا دعوت دے رہے ہیں جو آئے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالے۔ واضح رہے کہ جب بھی پاکستان میں آمریت نازل ہوئی تو اس میں سیاست دانوں کی نااہلی کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔