مطالعہ کی شوقین نسل کہاں کھو گئی
جن نوجوانوں کا رشتہ کتاب یا مطالعے سے ہے وہ بالکل ہی الگ شخصیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں
لاہور:
انسان کے کردار اور اس کی مجموعی شخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔
لیکن ایک اور اہم شے جو کسی بھی انسان کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور کبھی کبھی انسان کو اس کی شخصیت مکمل ہونے کے بعد بھی کسی نئے ماحول میں کھینچ لاتی ہے اور اس کی زندگی کا دھارا ہی بدل دیتی ہے، اس کا نام کتاب ہے۔ موجودہ دور میں کہا جاتا ہے کہ میڈیا لوگوں پر، خاص کر نئی نسل پر منفی اثر ڈال رہا ہے اور انھیں بے راہ روی کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے تاہم مشاہدے کی بات یہ ہے کہ آج بھی جن نوجوانوں کا رشتہ کتاب یا مطالعے سے ہے وہ بالکل ہی الگ شخصیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ آج اگر اپنے دائیں بائیں پختہ عمر کی معروف و کامیاب شخصیات کے بارے میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثریت زمانہ طالب علمی ہی سے مطالعہ کی شوقین رہی ہے۔
موجودہ دور میں بھی جو والدین اپنے بچوں کو مطالعہ کی عادت ڈال رہے ہیں ان کے بچے نیٹ اور ٹی وی چینلز کو زیادہ دیکھنے کے شوق میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے اپنے بچوں کو پہلے لطائف اور دلچسپ کہانیاں پڑھنے کی عادت ڈالی اور پھر رفتہ رفتہ بامقصد کتابوں کے مطالعے کی طرف لے آئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچوں کو مطالعہ کی عادت بلکہ نشہ سا ہوگیا اور اس نشے کے بعد ان کے بچے نیٹ و ٹی وی چینلز اور دوستوں میں باہر جاکر بلاوجہ وقت گزارنے کی علت سے بچ گئے۔ مطالعہ کی عادت درحقیقت نوجوانوں کو بے راہ روی سے روکنے کا کامیاب ترین نسخہ ہے۔
بعض افراد کے نزدیک ایک اہم مسئلہ مطالعہ کے لیے مواد کے انتخاب کا ہے اس سلسلے میں عموماً دو بڑی اقسام کے مطالعہ رکھنے والے افراد ہمیں نظر آتے ہیں ایک وہ جنہوں نے ادبی قسم کی کتب مثلاً ناول، شعر و شاعری کا مطالعہ کیا جس کا مرکز مذہب کے بجائے انسانیت دوستی کے گرد نظر آتا اور دوسری اقسام ان لوگوں کی جن کا مرکز مذہب کے دائرے میں ہی رہتا ہے۔ اقبال اور نسیم حجازی کو پڑھنے والے ہوں یا رضیہ بٹ، منٹو کو پڑھنے والے ہوں، نظریاتی اعتبار سے سوچ کے الگ الگ دائرے تو ضرور رکھتے ہیں لیکن ان تمام میں مطالعے کے باعث وہ خصلتیں جڑ پکڑ چکی ہیں جن سے معاشرے کی تعمیر تو ہوسکتی ہے مگر بگاڑ پیدا نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی معاشرے کو اگر ہم بگاڑ یا انتشار سے بچانا چاہیں تو اس میں مطالعہ ہی وہ اہم ترین عادت ہے جو کسی معاشرے میں رہنے والوں میں اختلافات تو یقیناً پیدا کرسکتا ہے لیکن انتشار نہیں۔ یہ مسابقت کی فضا تو پیدا کرتا ہے لیکن تعارض کی نہیں۔ مطالعے کی عادت رکھنے والے نوجوان کبھی بھی اسٹریٹ کرائم یا بے راہ روی میں مبتلا نہیں ہوتے۔
مطالعے کی اس خوبی کے باعث آج ہمارے معاشرے میں کتاب پڑھنے کے رجحان کو بڑھانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اس ضمن میں جو افراد کوششیں کررہے ہیں انھیں آگے بڑھانے اور ان کا بھرپور ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مطالعہ کا کلچر معاشرے کو صاف ستھرا رکھتا ہے اور انسان کو درحقیقت انسانیت سے قریب رکھتا ہے، اپنے معاشرے کو انتشار، لڑائی جھگڑے کے ماحول کے بجائے پرامن ماحول کے قیام کے لیے ہم سب کو کتب بینی کی عادت کو فروغ دینا ہوگا۔
راقم کی نظر سے حال ہی میں ایک سہ ماہی علمی، فکری و تحقیقی مجلہ 'التفسیر' گزرا، اس کے مدیر اعلیٰ جامعہ کراچی اور علمی حلقوں کی معروف شخصیت پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج ہیں۔ یہ شمارہ شخصیات پر ہے جس میں امام اعظم ابو حنیفہؒ، امام الحرمین الجومینی الشافعیؒ، قاضی بدرالدولہ، سرسید احمد خان، خواجہ غلام فرید آف کوٹ مٹھن، علامہ اقبال، مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا عبدالرئوف دانا پوری، ڈاکٹر محمد رفیع الدین، سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا مفتی محمود، علامہ محمد حسین طباطبائی، مولانا سعید احمد اکبر آباد، علامہ سید احمد سعید کاظمی، علامہ محمد اسد، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا عبدالرشید نعمانی، ڈاکٹر محمد حمید اﷲ، مولانا گوہر رحمان، مولانا شاہ احمد نورانی، صوفی عبدالحمید سوتی، ڈاکٹر اسرار احمد اور پروفیسر علی محسن صدیقی جیسے علمی اور معروف شخصیات پر تحقیقی مواد موجود ہے۔
یہ وہ تمام علمی اور قد آور شخصیات ہیں کہ جن کے بارے میں قارئین کو درست معلومات ضرور ہونی چاہیے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ سہی مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں کم از کم یہ علم تو ہو کہ ہم جس کے بارے میں کوئی رائے قائم کررہے ہیں وہ حقائق پر مبنی ہے، یہ نہ ہو کہ انجانے میں ہم کسی پر تہمت لگا کر اسے مجرم قرار دیدیں۔ اگر کسی بھی شخصیت کے بارے میں ہمیں درست معلومات ہوں تو پھر بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں بلکہ معاشرے میں قائم فاصلے بھی سمٹنے لگتے ہیں۔
آج کے ذرائع ابلاغ کا ایک بنیادی نقص غیر معیاری اور غیر تحقیقی مواد کا افراد تک پہنچانا ہے، اس اعتبار سے پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا بحیثیت مدیر اعلیٰ 'التفسیر' کا شخصیات نمبر شایع کرنا ایک کارنامہ ہے۔ آج ہمارے مابین اختلافات کی شدت کے پس پشت غیر تحقیقی و غیر معیاری کتابوں خصوصاً معروف اور علمی شخصیات کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں کا ایک بڑا کردار ہے جن کو پڑھ کر عام قارئین غلط بحث میں الجھ کر غلط سمت سفر کرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ ان علمی شخصیات کے مقام کو ایک عام فرد کے مقام سے بھی نیچے گرا کر تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں تو یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی کہ موجودہ دور میں فرقہ واریت اور تعصب کی فضا قائم کرنے میں غیر معیاری اور غیر تحقیقی و غیر مستند کتابوں کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ایک عام قاری اس قسم کی کتابیں پڑھ کر حقائق تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔
اس مجلے کی میرے نزدیک سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ مختلف مکاتب فکر اور نقطہ ہائے نظر رکھنے والی قدآور علمی شخصیات کے بارے میں تحقیقی مواد کے ذریعے آگہی حاصل ہو رہی ہے جس کے سبب ہم حقیقی معنوں میں ان شخصیات کو سمجھ سکتے ہیں اور اس سے پروپیگنڈے کے باعث معاشرے میں موجود اختلافات کو کم کرنے میں بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کسی بھی کتاب یا مطالعہ کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ رواداری اور برداشت کے ساتھ معاملات کو سمجھا جائے۔ آج مطالعہ کی عادت ہی ہم سب خاص کر نئی نسل کو درست سمت میں سفر کرنے میں مدد دے سکتی ہے، اساتذہ اور تعلیمی ادارے اس ضمن میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انسان کے کردار اور اس کی مجموعی شخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔
لیکن ایک اور اہم شے جو کسی بھی انسان کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور کبھی کبھی انسان کو اس کی شخصیت مکمل ہونے کے بعد بھی کسی نئے ماحول میں کھینچ لاتی ہے اور اس کی زندگی کا دھارا ہی بدل دیتی ہے، اس کا نام کتاب ہے۔ موجودہ دور میں کہا جاتا ہے کہ میڈیا لوگوں پر، خاص کر نئی نسل پر منفی اثر ڈال رہا ہے اور انھیں بے راہ روی کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے تاہم مشاہدے کی بات یہ ہے کہ آج بھی جن نوجوانوں کا رشتہ کتاب یا مطالعے سے ہے وہ بالکل ہی الگ شخصیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ آج اگر اپنے دائیں بائیں پختہ عمر کی معروف و کامیاب شخصیات کے بارے میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثریت زمانہ طالب علمی ہی سے مطالعہ کی شوقین رہی ہے۔
موجودہ دور میں بھی جو والدین اپنے بچوں کو مطالعہ کی عادت ڈال رہے ہیں ان کے بچے نیٹ اور ٹی وی چینلز کو زیادہ دیکھنے کے شوق میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے اپنے بچوں کو پہلے لطائف اور دلچسپ کہانیاں پڑھنے کی عادت ڈالی اور پھر رفتہ رفتہ بامقصد کتابوں کے مطالعے کی طرف لے آئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچوں کو مطالعہ کی عادت بلکہ نشہ سا ہوگیا اور اس نشے کے بعد ان کے بچے نیٹ و ٹی وی چینلز اور دوستوں میں باہر جاکر بلاوجہ وقت گزارنے کی علت سے بچ گئے۔ مطالعہ کی عادت درحقیقت نوجوانوں کو بے راہ روی سے روکنے کا کامیاب ترین نسخہ ہے۔
بعض افراد کے نزدیک ایک اہم مسئلہ مطالعہ کے لیے مواد کے انتخاب کا ہے اس سلسلے میں عموماً دو بڑی اقسام کے مطالعہ رکھنے والے افراد ہمیں نظر آتے ہیں ایک وہ جنہوں نے ادبی قسم کی کتب مثلاً ناول، شعر و شاعری کا مطالعہ کیا جس کا مرکز مذہب کے بجائے انسانیت دوستی کے گرد نظر آتا اور دوسری اقسام ان لوگوں کی جن کا مرکز مذہب کے دائرے میں ہی رہتا ہے۔ اقبال اور نسیم حجازی کو پڑھنے والے ہوں یا رضیہ بٹ، منٹو کو پڑھنے والے ہوں، نظریاتی اعتبار سے سوچ کے الگ الگ دائرے تو ضرور رکھتے ہیں لیکن ان تمام میں مطالعے کے باعث وہ خصلتیں جڑ پکڑ چکی ہیں جن سے معاشرے کی تعمیر تو ہوسکتی ہے مگر بگاڑ پیدا نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی معاشرے کو اگر ہم بگاڑ یا انتشار سے بچانا چاہیں تو اس میں مطالعہ ہی وہ اہم ترین عادت ہے جو کسی معاشرے میں رہنے والوں میں اختلافات تو یقیناً پیدا کرسکتا ہے لیکن انتشار نہیں۔ یہ مسابقت کی فضا تو پیدا کرتا ہے لیکن تعارض کی نہیں۔ مطالعے کی عادت رکھنے والے نوجوان کبھی بھی اسٹریٹ کرائم یا بے راہ روی میں مبتلا نہیں ہوتے۔
مطالعے کی اس خوبی کے باعث آج ہمارے معاشرے میں کتاب پڑھنے کے رجحان کو بڑھانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اس ضمن میں جو افراد کوششیں کررہے ہیں انھیں آگے بڑھانے اور ان کا بھرپور ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مطالعہ کا کلچر معاشرے کو صاف ستھرا رکھتا ہے اور انسان کو درحقیقت انسانیت سے قریب رکھتا ہے، اپنے معاشرے کو انتشار، لڑائی جھگڑے کے ماحول کے بجائے پرامن ماحول کے قیام کے لیے ہم سب کو کتب بینی کی عادت کو فروغ دینا ہوگا۔
راقم کی نظر سے حال ہی میں ایک سہ ماہی علمی، فکری و تحقیقی مجلہ 'التفسیر' گزرا، اس کے مدیر اعلیٰ جامعہ کراچی اور علمی حلقوں کی معروف شخصیت پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج ہیں۔ یہ شمارہ شخصیات پر ہے جس میں امام اعظم ابو حنیفہؒ، امام الحرمین الجومینی الشافعیؒ، قاضی بدرالدولہ، سرسید احمد خان، خواجہ غلام فرید آف کوٹ مٹھن، علامہ اقبال، مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا عبدالرئوف دانا پوری، ڈاکٹر محمد رفیع الدین، سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا مفتی محمود، علامہ محمد حسین طباطبائی، مولانا سعید احمد اکبر آباد، علامہ سید احمد سعید کاظمی، علامہ محمد اسد، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا عبدالرشید نعمانی، ڈاکٹر محمد حمید اﷲ، مولانا گوہر رحمان، مولانا شاہ احمد نورانی، صوفی عبدالحمید سوتی، ڈاکٹر اسرار احمد اور پروفیسر علی محسن صدیقی جیسے علمی اور معروف شخصیات پر تحقیقی مواد موجود ہے۔
یہ وہ تمام علمی اور قد آور شخصیات ہیں کہ جن کے بارے میں قارئین کو درست معلومات ضرور ہونی چاہیے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ سہی مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں کم از کم یہ علم تو ہو کہ ہم جس کے بارے میں کوئی رائے قائم کررہے ہیں وہ حقائق پر مبنی ہے، یہ نہ ہو کہ انجانے میں ہم کسی پر تہمت لگا کر اسے مجرم قرار دیدیں۔ اگر کسی بھی شخصیت کے بارے میں ہمیں درست معلومات ہوں تو پھر بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں بلکہ معاشرے میں قائم فاصلے بھی سمٹنے لگتے ہیں۔
آج کے ذرائع ابلاغ کا ایک بنیادی نقص غیر معیاری اور غیر تحقیقی مواد کا افراد تک پہنچانا ہے، اس اعتبار سے پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا بحیثیت مدیر اعلیٰ 'التفسیر' کا شخصیات نمبر شایع کرنا ایک کارنامہ ہے۔ آج ہمارے مابین اختلافات کی شدت کے پس پشت غیر تحقیقی و غیر معیاری کتابوں خصوصاً معروف اور علمی شخصیات کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں کا ایک بڑا کردار ہے جن کو پڑھ کر عام قارئین غلط بحث میں الجھ کر غلط سمت سفر کرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ ان علمی شخصیات کے مقام کو ایک عام فرد کے مقام سے بھی نیچے گرا کر تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں تو یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی کہ موجودہ دور میں فرقہ واریت اور تعصب کی فضا قائم کرنے میں غیر معیاری اور غیر تحقیقی و غیر مستند کتابوں کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ایک عام قاری اس قسم کی کتابیں پڑھ کر حقائق تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔
اس مجلے کی میرے نزدیک سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ مختلف مکاتب فکر اور نقطہ ہائے نظر رکھنے والی قدآور علمی شخصیات کے بارے میں تحقیقی مواد کے ذریعے آگہی حاصل ہو رہی ہے جس کے سبب ہم حقیقی معنوں میں ان شخصیات کو سمجھ سکتے ہیں اور اس سے پروپیگنڈے کے باعث معاشرے میں موجود اختلافات کو کم کرنے میں بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کسی بھی کتاب یا مطالعہ کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ رواداری اور برداشت کے ساتھ معاملات کو سمجھا جائے۔ آج مطالعہ کی عادت ہی ہم سب خاص کر نئی نسل کو درست سمت میں سفر کرنے میں مدد دے سکتی ہے، اساتذہ اور تعلیمی ادارے اس ضمن میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔