نوکریوں کی بندر بانٹ
جب نوکری کے اصل حق داروں نے آواز بلند کی تو انھیں یہ کہہ کر خاموش کرادیا کہ ’’نو ویکنسی‘‘
انتخابات کے زمانے میں ووٹروں کوبے روزگاری، مہنگائی کے خاتمے اور شہری سہولتوں کی فراہمی کے وعدے اور دیگر سبز باغ دِکھانے کے حربے قدیم سیاسی نسخے ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد حق داروں کے بجائے اپنے من پسند سیاسی کارکنوں کو نوکریاں دینا اور انھیں مراعات سے نوازنا بھی پرانی سیاسی ریت رہی ہیں۔
موجودہ جمہوری حکومت میں بھی ایسا ہی کچھ دِکھائی دے رہا ہے۔ اقتدار سے قبل ملازمت دینے کے وعدے کیے گئے، برسر اقتدار آتے ہی من پسند لوگوں میں نوکریاں تقسیم کی گئیں۔ جب نوکری کے اصل حق داروں نے آواز بلند کی تو انھیں یہ کہہ کر خاموش کرادیا کہ ''نو ویکنسی''۔ درمیانی مدت میں من پسند لوگ موج مستیاں کرتے رہے اور حق دار لوگ انتظار میں دن گنتے رہے کہ کب نوکری پر سے عاید پابندی اٹھا دی جائے گی، کب ان کے نصیب بھی جاگ جائیں۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں خبر شایع ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت نے سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں پر عاید پابندی اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
خالی آسامیوں پر بھرتیوں کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو سمری ارسال کردی گئی ہے، ابتدائی طور پر گریڈ ایک سے 16 تک میں 40 ہزار ملازمین کی بھرتیاں کی جائیں گی۔ لیکن اس خوش کن خبر کے مندرجات پڑھنے کے بعد نوکری کے متلاشی اصل حق داروں کو پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں کہ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ آیندہ عام انتخابات کے پیش نظر کیا ہے۔ خبر کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کو نئی بھرتیوں کا خصوصی کوٹہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ آنیوالے انتخابات میں حکمراں اتحاد کے امیدوار اپنے حلقوں میں نوکریاں تقسیم کرکے سیاسی طور پر مضبوط ہوسکیں۔
یاد رہے کہ سرکاری محکموں میں گزشتہ 3 سال سے نئی بھرتیوں پر پابندی عاید رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پابندی کے باوجود من پسند لوگوں میں نوکریاں تقسیم کی گئی ہیں یا کہ فروخت کی گئی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے رواں سال کے مالی بجٹ 2012-13 میں 80 ہزار نئی ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا، جن میں سے اب 40 ہزار بھرتیاں کی جائیں گی، وہ بھی سیاسی بنیاد پر۔ مزید برآں یہ کہ وفاقی سطح پر نئی وزارتوں کی تشکیلِ نو کے باعث بھی ہزاروں آسامیاں خالی ہیں، غالباً انھیں بھی پر کیا جائے گا۔ نوکری دینا اچھی بات ہوتی اگر میرٹ کی بنیاد پر دی جاتیں لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سیاسی رشوت کے طور پر نوکریاں تقسیم کی جا رہی ہیں جو بلاشبہ خرید و فروخت کے مراحل سے گزرے گی، کیوں کہ ماضی میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور جو آٹو رکشے بے روزگار نوجوانوں کے نام سے من پسند سیاسی کارکنوں میں تقسیم کیے گئے، انھوں نے انھیں فروخت کرکے نوٹ بنالیے۔ الغرض کہ سیاسی بنیادوں پر نوکریاں تقسیم کرنا سراسر میرٹ کا قتل اور حق داروں کی حق تلفی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں معیاری ملازمت کا حصول جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے جب کہ جن لوگوں کو ملازمت مل جاتی ہے، انھیں معاوضہ وقت پر نہیں ملتا۔ شہری علاقوں میں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی حالتِ زار یہ ہے کہ وہ کم معاوضے پر ہر طرح کی نوکری کے لیے تیار ہیں۔ یہاں تک کہ معاوضے کے وعدے پر نوکری شروع کردیتے ہیں، تاہم انھیں کئی ماہ بعد تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ ملکی معاشی ابتری کی واضح علامت ہے، عید پر معاوضے کی عدم ادائیگی نے کئی ملازمین کے خاندانوں میں مایوسی میں اضافہ کیا۔ عیدالفطر کی چاند رات کو سپریم کورٹ کو لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تین ماہ سے رکی تنخواہ کی فوری ادائیگی کا حکم دینا پڑا۔ ایسی ہی صورتِ حال کی شکایت پنجاب میں ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث بھرتی ہونیوالے نئے ڈاکٹروں کو درپیش ہے جنھیں دو مہینے کی تنخواہ نہیں ملی ہے۔
گزشتہ برس ریلوے ملازمین نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ٹرینیں احتجاجاً روک دی تھیں۔ پاکستان میں یہ صورتِ حال روز بروز خراب ہورہی ہے۔ اقتصادی بدحالی، کرنسی کی گرتی شرح قدر، افراطِ زر میں اضافہ، غربت اور توانائی بحران اس کی وجوہات ہیں۔ کراچی میں گزشتہ ماہ میونسپل ملازمین نے دو ماہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کیا تاہم انھیں لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑا۔ کراچی کے میونسپل ڈسٹرکٹ سائوتھ کے ملازمین بھی عیدالفطر کے موقع پر تنخواہوں سے محروم رہے ہنوز انھیں ماہِ جولائی کی تنخواہ بھی نہیں ملی ہے، اگست کا مہینہ اس کے علاوہ ہے۔
اس طرح دو مہینے کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ حکومت نے سالانہ اور ماہانہ فنڈز میں کٹوتی کی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں لاہور کے ایک مقامی روزنامے کی نوجوان خاتون صحافی نے دو ماہ کی تنخواہ کی عدم ادائیگی پر موت کو گلے لگالیا جب کہ اس کے والد کا الزام ہے اسے اخبار کے مالک نے چھت پر سے نیچے گرا کر قتل کیا ، یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق آخری بڑے سروے 2006 میں غربت کی شرح 23 فیصد تھی لیکن ان اعداد و شمار میں اب دگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ بلاشبہ بے روزگاری نہ صرف ملکی بلکہ عالمی مسئلہ بھی ہے مگر صرف مثالیں دے کر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
غربت اور بیروزگاری نے کراچی کو آتش فشاں بنا دیا ہے،جرائم کی کوئی بھی نوعیت ہو اس کی ایک وجہ معاشی بدحالی اور غربت ہے۔ جب نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے سرکاری محکموں اور نجی دفتروں کے دھکے کھاتے رہیں گے تو مجبوریاں ہی انھیں گینگ وار ، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کے جہنم میں دھکیل دیتی ہیں۔ منی پاکستان میں بدامنی دن بہ دن بڑھ رہی ہے،کوئی دن بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کی خبروں کے بغیر نہیں کٹتا۔اور ظلم اور بے حسی کی حد یہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے سیاسی ایوان،قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور سول سوسائٹی چپ ہے۔کیا ہم سب نے ریت میں سر چھپائے ہوئے شتر مرغ کی کیفیت اختیار کرلی ہے۔ وقت و حالات بدل چکے ہیں، لہٰذا بدلتے ہوئے ان حالات میں روزگار کی فراہمی کے لیے ناانصافیوں کے دروازے بند ہونے چاہئیں۔ سرکاری ملازمت کے متلاشی بے روزگاروں کو بھی اپنا ذہن اب بدلنا ہوگا۔