بھیڑیے آزاد ہیں
ہم بھی عجیب قوم ہیں، ہیلمٹ اپنی جان کی حفاظت کے لیے نہیں پہنتے بلکہ جرمانے سے بچنے کے لیے پہنتے ہیں۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں، ہیلمٹ اپنی جان کی حفاظت کے لیے نہیں پہنتے بلکہ جرمانے سے بچنے کے لیے پہنتے ہیں۔ ہر غلط بات، غلط فعل کو جائز ثابت کرنے کے لیے تاریخ اور ادب سے حوالے لے آتے ہیں۔ کیونکہ مذہب کا ٹیگ لگا کر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کسی کو بھی برا بھلا کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کی فضا اب ایسی ہی ہوچکی ہے۔
سر پہ دوپٹہ، ہاتھ میں تسبیح اور برقعے میں لپٹی عورت سر عام سڑکوں اور چوراہوں پہ عیاش لوگوں کو لڑکیاں فراہم کر رہی ہے۔ تو نہ ان برقعہ پوش لڑکیوں کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے نہ حجن بی بنی نائیکہ ان مذہب کے ٹھیکیداروں کو نظر آتی ہے جو سرعام پولیس والوں کی مدد سے اپنا نیٹ ورک چلا رہی ہے۔ البتہ ان متقی و پرہیز گار لوگوں کو وہ عورت گردن زدنی دکھائی دیتی ہے جس کے سر پہ تو دوپٹہ نہیں ہے لیکن اس نے اپنا آپ دوپٹے سے ڈھانپا ہوا ہے۔
وہ ملازمت بھی کر رہی ہے لیکن کبھی غیرت کے نام پر، کبھی جائیداد ہتھیانے کے لیے،کبھی رشتے سے انکار پر اور کبھی اپنی مرضی سے نکاح کرنے کے جرم میں مار دی جاتی ہے یا اس کا چہرہ تیزاب ڈال کر بگاڑ دیا جاتا ہے۔
ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں،لیکن علمائے کرام کی طرف سے کبھی اس کی مذمت نہیں کی جاتی بلکہ انھیں متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نامعقول و ناہنجار بنت حوا نے آدم کے بیٹوں کی بات کیوں نہ مانی اور انھیں اشتعال دلا کر اس مقام تک کیوں لے آئیں کہ وہ تیزاب پھینکنے پہ مجبور ہوگیا۔ یہاں باقاعدہ ایک منظم گروہ ہر جرم اور ہر غلطی پہ پردہ ڈالنے کے معقول پیسے لے رہا ہے اور تاریخی حوالوں سے ہر قبیح فعل کو جائز قرار دے کر ''اسلام'' کا نام روشن کر رہا ہے۔
قصور میں ہونے والے سانحے میں بھی بعض دانشور اور بزعم خود اسلام کے سپاہی سرے سے بچوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی اور اس کی ویڈیوز کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں کیونکہ اردو کے کلاسیکی شعرا کے دیوان میں نوخیز لڑکوں کے ساتھ جذباتی لگاؤ رکھنے کے اشعار ملتے ہیں ، لیکن جو برصغیر کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے کہ یہ وبا ایران سے آئی تھی۔
ایرانی سماج میں چونکہ جلوۂ جاناں صرف جسم فروش عورتوں تک محدود تھا۔ شراب خانوں میں شعرا کو جو نوخیز بچے ساقی گری کرتے نظر آتے تھے انھوں نے انھی لڑکوں کو اپنا محبوب قرار دے دیا۔ حافظ شیرازی بھی اس سے نہ بچ سکے۔ ہندوستان میں مغل حکمرانوں کی آمد کے بعد فارسی کو وہی فروغ حاصل ہوا جو انگریزوں کے تسلط کے بعد انگریزی کو ہوا جس سے آج تک جان نہیں چھوٹی۔ جس طرح آج غلط سلط انگریزی بھی بہت سے کام نکلوا دیتی ہے بالکل اسی طرح مغلوں کے دور حکومت میں فارسی نے بھی مقامی لوگوں کو فائدے پہنچائے۔
اردو پہ فارسی ادب کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ چونکہ حکمرانوں کی زبان فارسی تھی، اس لیے دھڑا دھڑ ایرانی شعرا کی تقلید میں انھی کے مضامین ہمارے اردو کے شاعر حضرات بھی باندھنے لگے۔ وہی ''نوخیز ساقی''...اور انھی موسموں کا ذکر جو ایران کے تھے۔ جشن نوروز سے لے کر وہی تشبیہات و استعارات اور علامات جو فارسی ادب کا حصہ تھیں۔ اردو میں بھی در آئیں ، لیکن ایک طبقے نے ان تمام خرافات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالی ان میں سرفہرست ہیں۔
لیکن جہاں تک نوجوان لڑکوں کو محبوب بنانے والی روایت ہے تو وہ تو پاکستان کے بعض علاقوں میں آج بھی موجود ہے اور اس پر کسی کو کوئی ندامت نہیں۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے سے چند دن قبل ایک قبائلی کلچر سے وابستہ شخص نے ایک لڑکے سے باقاعدہ ڈھول تاشوں کے ساتھ شادی کی تھی جسے ٹیلی ویژن کے چینلوں نے بھی دکھایا اور اخبارات نے بھی رپورٹ کیا اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے اس کی بھرپور مذمت بھی کی۔
اگر شعرا حضرات نے فارسی شاعری کی تقلید میں امرد پرستی کو خوب خوب موضوع بنایا تو اس کے خلاف آواز بھی اٹھی کہ قوم لوط پر بھی خدا کی لعنت تھی۔کوئی بھی مہذب سوسائٹی فطرت کے خلاف اس قبیح فعل کو جائز قرار نہیں دے گی۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ سب غلط تھا، غلط ہے اور غلط رہے گا۔ اردو اور فارسی شعرا کے دیوان سے مثالیں پیش کرکے قصور والے واقعے کو جائز اور بے ضرر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
قصورکے بچوں کے ساتھ ڈرا دھمکا کر زبردستی کی گئی اور مجرموں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس کی ویڈیو بھی بنائیں۔ والدین اور بچوں کو بلیک میل بھی کیا اور بیرون ملک یہ ویڈیوز بیچی بھی گئیں۔ یہ ایک بھیانک جرم ہے اور سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ موبائل فون آنے کے بعد سائبرکرائم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کیمرا موبائل جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ میں ایک طرح کا آتشگیر مادہ ہے جو وہ بوقت ضرورت کسی پر بھی پھینک سکتے ہیں۔
دنیا کے گلوبل ولیج میں تبدیل ہونے سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے جیساکہ پاکستان جہاں سردار اور جاگیردار عام آدمی پر تعلیم کے دروازے بند رکھتے ہیں۔ حکومت کالج اور اسکول بناتی ہے، لیکن قبائلی سردار ان عمارتوں میں اپنے مویشی باندھتے ہیں۔ ان میں اوطاق بنائے جاتے ہیں، وہ بیٹھک اور ڈیروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
وہاں مویشیوں کا چارہ رکھا جاتا ہے اور استادوں کو گھر بیٹھے تنخواہیں پہنچا دی جاتی ہیں لیکن پوری نہیں۔ بلکہ اپنا اپنا حصہ رکھ کر۔ جہاں یہ صورت حال ہوکہ تعلیم کے نام پر صرف انسان اپنا نام لکھنا جانتا ہو۔ جہاں عام آدمی کے بچے باوجود شوق اور لگن کے علم حاصل نہیں کرسکتے۔
وہاں جب ٹیلی ویژن کی نشریات عام ہوں، سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ مواد اور تصاویر گلوبل ولیج کی عکاس ہوں۔ جہاں ترغیبات ہی ترغیبات ہوں علم اور مطالعہ بالکل صفر تو وہاں کمپیوٹر صرف چیٹنگ کے لیے، موبائل فون دھوکا دہی اور اغوا برائے تاوان کے لیے اور کیمرہ موبائل بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ نازیبا حرکات کی فحش تصاویر بنانے کے لیے استعمال ہو۔ وہاں آپ کس کو الزام دیں گے؟ وی سی آر (V.C.R)کہنے میں سب سے پہلے صرف میڈیکل کی تعلیم کے استعمال کے لیے ایجاد ہوا تھا۔ لیکن ہمارے ملک میں اس پر لوگوں نے غیر اخلاقی فلمیں دکھا کر کمائی کا ذریعہ بنایا۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، کتابی علم کو عام کرنے کے لیے مغربی ممالک نے ایجاد کیے لیکن ہم نے انھیں بھی بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا۔
گلوبل ولیج کی وجہ سے پاکستانی نوجوان نسل کو پتہ چلا کہ یورپ اور امریکا میں مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی قابل قبول ہے۔ اس پر فلمیں بھی بنیں اور اس کے طبی اور جسمانی نقصانات بھی بتائے گئے لیکن یہ کاروبار چونکہ بہت زیادہ منافع بخش تھا۔ یورپ اور امریکا کے علاوہ خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں ان فلموں کی بہت زیادہ قیمت ملتی ہے تب جرائم پیشہ لوگوں نے بچوں، بچیوں اور لڑکیوں کو ورغلانا اور اغوا کرنا شروع کردیا۔ پہلے یہ کاروبار خفیہ کیمروں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ اب کیمرا موبائل نے مشکل آسان کردی اور دھڑا دھڑ ویڈیوز بن کر باہر جانے لگیں اور پیسہ لانے لگیں۔
اگر کوئی یہ امید رکھے کہ یہ گھناؤنا کھیل کبھی بند ہوسکے گا تو اسے جان لینا چاہیے کہ برائی کو اس وقت ختم کیا جاسکتا ہے جب برائی کو برائی سمجھا جائے۔ جب گندے اور گھناؤنے کاروبار کو پولیس افسران اور بااثر لوگوں کا تحفظ حاصل ہو تو یہ سوچنا بھی حماقت ہے۔
آپ اگر سول سوسائٹی کے فرد ہیں تو خوب ماتم کیجیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ لیکن اس کی توقع مت رکھیے کہ یہ سب ختم ہوسکتا ہے اور مجرم سزا بھی پاسکتے ہیں۔ کیونکہ غلط اور صحیح میں امتیاز کے لیے شعور کا ہونا ضروری ہے اور شعور پیدا ہوتا ہے علم سے۔
جہاں تعلیم پر سب سے کم بجٹ رکھا جاتا ہو، جہاں جعلی ڈگریوں کا کاروبار عروج پر ہو، جہاں اسمبلیوں میں انگوٹھا چھاپ اور جعلی اسناد والے محض تعلقات، دولت اور جاگیردارانہ نظام کی بدولت بیٹھے ہوں، جہاں تعلیمی اداروں کی جگہ گھوڑوں کے اصطبل ہوں، جہاں امتحان دیے بغیر سرٹیفکیٹ اور ڈگری کا حصول کوئی مشکل نہ ہو۔ وہاں ابھی اور بھی دل ہلا دینے والے اور چونکا دینے والے الم ناک سانحات اور واقعات ہوتے رہیں گے۔
ہم سب اس وقت تک اس پہ بات کریں گے جب تک اسی نوعیت کا کوئی دوسرا واقعہ سامنے نہیں آتا۔ کیونکہ پاگل کتے ہر جگہ گھومتے پھر رہے ہیں کوئی انھیں پکڑنے والا یا مارنے والا نہیں۔ بس چودہ اگست پہ جھنڈیاں لہرایے اور اگلے دن انھیں پاؤں تلے روندتے گزر جائیے۔ یہ رویہ پوری قوم بشمول حکمرانوں کے مزاج کا آئینہ دار ہے۔
سر پہ دوپٹہ، ہاتھ میں تسبیح اور برقعے میں لپٹی عورت سر عام سڑکوں اور چوراہوں پہ عیاش لوگوں کو لڑکیاں فراہم کر رہی ہے۔ تو نہ ان برقعہ پوش لڑکیوں کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے نہ حجن بی بنی نائیکہ ان مذہب کے ٹھیکیداروں کو نظر آتی ہے جو سرعام پولیس والوں کی مدد سے اپنا نیٹ ورک چلا رہی ہے۔ البتہ ان متقی و پرہیز گار لوگوں کو وہ عورت گردن زدنی دکھائی دیتی ہے جس کے سر پہ تو دوپٹہ نہیں ہے لیکن اس نے اپنا آپ دوپٹے سے ڈھانپا ہوا ہے۔
وہ ملازمت بھی کر رہی ہے لیکن کبھی غیرت کے نام پر، کبھی جائیداد ہتھیانے کے لیے،کبھی رشتے سے انکار پر اور کبھی اپنی مرضی سے نکاح کرنے کے جرم میں مار دی جاتی ہے یا اس کا چہرہ تیزاب ڈال کر بگاڑ دیا جاتا ہے۔
ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں،لیکن علمائے کرام کی طرف سے کبھی اس کی مذمت نہیں کی جاتی بلکہ انھیں متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نامعقول و ناہنجار بنت حوا نے آدم کے بیٹوں کی بات کیوں نہ مانی اور انھیں اشتعال دلا کر اس مقام تک کیوں لے آئیں کہ وہ تیزاب پھینکنے پہ مجبور ہوگیا۔ یہاں باقاعدہ ایک منظم گروہ ہر جرم اور ہر غلطی پہ پردہ ڈالنے کے معقول پیسے لے رہا ہے اور تاریخی حوالوں سے ہر قبیح فعل کو جائز قرار دے کر ''اسلام'' کا نام روشن کر رہا ہے۔
قصور میں ہونے والے سانحے میں بھی بعض دانشور اور بزعم خود اسلام کے سپاہی سرے سے بچوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی اور اس کی ویڈیوز کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں کیونکہ اردو کے کلاسیکی شعرا کے دیوان میں نوخیز لڑکوں کے ساتھ جذباتی لگاؤ رکھنے کے اشعار ملتے ہیں ، لیکن جو برصغیر کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے کہ یہ وبا ایران سے آئی تھی۔
ایرانی سماج میں چونکہ جلوۂ جاناں صرف جسم فروش عورتوں تک محدود تھا۔ شراب خانوں میں شعرا کو جو نوخیز بچے ساقی گری کرتے نظر آتے تھے انھوں نے انھی لڑکوں کو اپنا محبوب قرار دے دیا۔ حافظ شیرازی بھی اس سے نہ بچ سکے۔ ہندوستان میں مغل حکمرانوں کی آمد کے بعد فارسی کو وہی فروغ حاصل ہوا جو انگریزوں کے تسلط کے بعد انگریزی کو ہوا جس سے آج تک جان نہیں چھوٹی۔ جس طرح آج غلط سلط انگریزی بھی بہت سے کام نکلوا دیتی ہے بالکل اسی طرح مغلوں کے دور حکومت میں فارسی نے بھی مقامی لوگوں کو فائدے پہنچائے۔
اردو پہ فارسی ادب کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ چونکہ حکمرانوں کی زبان فارسی تھی، اس لیے دھڑا دھڑ ایرانی شعرا کی تقلید میں انھی کے مضامین ہمارے اردو کے شاعر حضرات بھی باندھنے لگے۔ وہی ''نوخیز ساقی''...اور انھی موسموں کا ذکر جو ایران کے تھے۔ جشن نوروز سے لے کر وہی تشبیہات و استعارات اور علامات جو فارسی ادب کا حصہ تھیں۔ اردو میں بھی در آئیں ، لیکن ایک طبقے نے ان تمام خرافات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالی ان میں سرفہرست ہیں۔
لیکن جہاں تک نوجوان لڑکوں کو محبوب بنانے والی روایت ہے تو وہ تو پاکستان کے بعض علاقوں میں آج بھی موجود ہے اور اس پر کسی کو کوئی ندامت نہیں۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے سے چند دن قبل ایک قبائلی کلچر سے وابستہ شخص نے ایک لڑکے سے باقاعدہ ڈھول تاشوں کے ساتھ شادی کی تھی جسے ٹیلی ویژن کے چینلوں نے بھی دکھایا اور اخبارات نے بھی رپورٹ کیا اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے اس کی بھرپور مذمت بھی کی۔
اگر شعرا حضرات نے فارسی شاعری کی تقلید میں امرد پرستی کو خوب خوب موضوع بنایا تو اس کے خلاف آواز بھی اٹھی کہ قوم لوط پر بھی خدا کی لعنت تھی۔کوئی بھی مہذب سوسائٹی فطرت کے خلاف اس قبیح فعل کو جائز قرار نہیں دے گی۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ سب غلط تھا، غلط ہے اور غلط رہے گا۔ اردو اور فارسی شعرا کے دیوان سے مثالیں پیش کرکے قصور والے واقعے کو جائز اور بے ضرر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
قصورکے بچوں کے ساتھ ڈرا دھمکا کر زبردستی کی گئی اور مجرموں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس کی ویڈیو بھی بنائیں۔ والدین اور بچوں کو بلیک میل بھی کیا اور بیرون ملک یہ ویڈیوز بیچی بھی گئیں۔ یہ ایک بھیانک جرم ہے اور سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ موبائل فون آنے کے بعد سائبرکرائم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کیمرا موبائل جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ میں ایک طرح کا آتشگیر مادہ ہے جو وہ بوقت ضرورت کسی پر بھی پھینک سکتے ہیں۔
دنیا کے گلوبل ولیج میں تبدیل ہونے سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے جیساکہ پاکستان جہاں سردار اور جاگیردار عام آدمی پر تعلیم کے دروازے بند رکھتے ہیں۔ حکومت کالج اور اسکول بناتی ہے، لیکن قبائلی سردار ان عمارتوں میں اپنے مویشی باندھتے ہیں۔ ان میں اوطاق بنائے جاتے ہیں، وہ بیٹھک اور ڈیروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
وہاں مویشیوں کا چارہ رکھا جاتا ہے اور استادوں کو گھر بیٹھے تنخواہیں پہنچا دی جاتی ہیں لیکن پوری نہیں۔ بلکہ اپنا اپنا حصہ رکھ کر۔ جہاں یہ صورت حال ہوکہ تعلیم کے نام پر صرف انسان اپنا نام لکھنا جانتا ہو۔ جہاں عام آدمی کے بچے باوجود شوق اور لگن کے علم حاصل نہیں کرسکتے۔
وہاں جب ٹیلی ویژن کی نشریات عام ہوں، سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ مواد اور تصاویر گلوبل ولیج کی عکاس ہوں۔ جہاں ترغیبات ہی ترغیبات ہوں علم اور مطالعہ بالکل صفر تو وہاں کمپیوٹر صرف چیٹنگ کے لیے، موبائل فون دھوکا دہی اور اغوا برائے تاوان کے لیے اور کیمرہ موبائل بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ نازیبا حرکات کی فحش تصاویر بنانے کے لیے استعمال ہو۔ وہاں آپ کس کو الزام دیں گے؟ وی سی آر (V.C.R)کہنے میں سب سے پہلے صرف میڈیکل کی تعلیم کے استعمال کے لیے ایجاد ہوا تھا۔ لیکن ہمارے ملک میں اس پر لوگوں نے غیر اخلاقی فلمیں دکھا کر کمائی کا ذریعہ بنایا۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، کتابی علم کو عام کرنے کے لیے مغربی ممالک نے ایجاد کیے لیکن ہم نے انھیں بھی بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا۔
گلوبل ولیج کی وجہ سے پاکستانی نوجوان نسل کو پتہ چلا کہ یورپ اور امریکا میں مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی قابل قبول ہے۔ اس پر فلمیں بھی بنیں اور اس کے طبی اور جسمانی نقصانات بھی بتائے گئے لیکن یہ کاروبار چونکہ بہت زیادہ منافع بخش تھا۔ یورپ اور امریکا کے علاوہ خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں ان فلموں کی بہت زیادہ قیمت ملتی ہے تب جرائم پیشہ لوگوں نے بچوں، بچیوں اور لڑکیوں کو ورغلانا اور اغوا کرنا شروع کردیا۔ پہلے یہ کاروبار خفیہ کیمروں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ اب کیمرا موبائل نے مشکل آسان کردی اور دھڑا دھڑ ویڈیوز بن کر باہر جانے لگیں اور پیسہ لانے لگیں۔
اگر کوئی یہ امید رکھے کہ یہ گھناؤنا کھیل کبھی بند ہوسکے گا تو اسے جان لینا چاہیے کہ برائی کو اس وقت ختم کیا جاسکتا ہے جب برائی کو برائی سمجھا جائے۔ جب گندے اور گھناؤنے کاروبار کو پولیس افسران اور بااثر لوگوں کا تحفظ حاصل ہو تو یہ سوچنا بھی حماقت ہے۔
آپ اگر سول سوسائٹی کے فرد ہیں تو خوب ماتم کیجیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ لیکن اس کی توقع مت رکھیے کہ یہ سب ختم ہوسکتا ہے اور مجرم سزا بھی پاسکتے ہیں۔ کیونکہ غلط اور صحیح میں امتیاز کے لیے شعور کا ہونا ضروری ہے اور شعور پیدا ہوتا ہے علم سے۔
جہاں تعلیم پر سب سے کم بجٹ رکھا جاتا ہو، جہاں جعلی ڈگریوں کا کاروبار عروج پر ہو، جہاں اسمبلیوں میں انگوٹھا چھاپ اور جعلی اسناد والے محض تعلقات، دولت اور جاگیردارانہ نظام کی بدولت بیٹھے ہوں، جہاں تعلیمی اداروں کی جگہ گھوڑوں کے اصطبل ہوں، جہاں امتحان دیے بغیر سرٹیفکیٹ اور ڈگری کا حصول کوئی مشکل نہ ہو۔ وہاں ابھی اور بھی دل ہلا دینے والے اور چونکا دینے والے الم ناک سانحات اور واقعات ہوتے رہیں گے۔
ہم سب اس وقت تک اس پہ بات کریں گے جب تک اسی نوعیت کا کوئی دوسرا واقعہ سامنے نہیں آتا۔ کیونکہ پاگل کتے ہر جگہ گھومتے پھر رہے ہیں کوئی انھیں پکڑنے والا یا مارنے والا نہیں۔ بس چودہ اگست پہ جھنڈیاں لہرایے اور اگلے دن انھیں پاؤں تلے روندتے گزر جائیے۔ یہ رویہ پوری قوم بشمول حکمرانوں کے مزاج کا آئینہ دار ہے۔