بریک لگا ہوا ہے
شام ہو رہی تھی لیکن اسپتال مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کسی کے چہرے پر بے کسی تھی۔
شام ہو رہی تھی لیکن اسپتال مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کسی کے چہرے پر بے کسی تھی۔ لاچار لوگ اپنے پیاروں کو لے کر دور دراز سے یہاں آئے ہوئے تھے کہ شاید انھیں صحت مل جائے۔ اس اسپتال کی بنیاد سولہ مہینے پہلے رکھی گئی تھی۔ زندہ دلوں کے شہر لاہور میں یہ کینسر کا پہلا اسپتال تھا اور جس کی تعمیر ان کا ایک ہیرو کر رہا تھا۔
وہ ہیرو کہ جس نے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو چیمپئین بنایا تھا اور اسی عمران خان کا خواب تھا کہ وہ کینسر کے مریضوں کے لیے ایک اسپتال قائم کرے۔ اس نے اپنے مشن کے لیے لوگوں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس قوم نے اسے مایوس نہیں کیا۔ آج سولہ مہینے بعد اسپتال کام کر رہا تھا اور اس وقت تقریباً 150 سے زیادہ لوگ وہاں موجود تھے۔ 14 اپریل 1996ء کا یہ دن وہاں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لیے روز کی طرح تھا۔ معمول کے مطابق تمام کام چل رہے تھے لیکن ایک دم زور دار دھماکا ہوا۔ اسپتال کی پوری عمارت ہل گئی۔ کئی حصوں کو شدید نقصان پہنچا۔ 60 افراد زخمی ہوئے اور چھ لوگ اس سانحے میں جاں بحق ہوئے۔
آئیے اس سانحے سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ورلڈ کپ میں کامیابی کے بعد عمران خان پاکستان میں ہیرو تھے۔ وہ دنیا میں جہاں جاتے انھیں کاندھوں پر اٹھایا جاتا۔ انھوں نے کامیابی کے بعد جب کرکٹ کو خیر باد کہا تو ساتھ ہی انھوں نے اسپتال بنانے کا اعلان کیا۔ ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی جس کے لیے انھوں نے چندہ مانگنا شروع کیا اور اسی دوران پاکستان کے سیاسی نظام پر تنقید بھی شروع کی۔ ان کا ہدف جو پہلے تھا وہ ہی آج ہے یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر کڑی تنقید۔ مگر اسی دوران ایک تہلکہ انگیز خبر پہنچ گئی کہ عمران خان نے ایک بہت بڑے سرمایہ دار اور پکے یہودی کی 22 سالہ بیٹی سے شادی کر لی ہے۔
ان کے مخالفین نے یہ الزام لگایا کہ انھوں نے ایک یہودی کی بیٹی سے شادی کی ہے اور اب اس کا پیسہ عمران خان پاکستانی سیاست میں استعمال کریں گے۔ لیکن اس شادی سے پہلے عمران خان کے متعلق یہ تاثر بن چکا تھا کہ وہ سیاست میں آئیں گے، اب تک انھوں نے عملی سیاست میں آنے کا کوئی اعلان نہیں کیا تھا مگر وہ تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت پر شدید تنقید کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ جنوری 1995ء میں ان کے اسپتال کے اشتہارات PTV پر بند کر دیے گئے تھے اور شاید یہ بات 27 جنوری 1995ء کی ہے جب انھوں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بے نظیر سے بات نہیں کروں گا، اور شدید غصے میں کہا کہ میں عوام کی خدمت کروں یا پھر بے نظیر کی چمچہ گیری کروں۔
پیپلز پارٹی کی اس وقت کی حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ عمران خان کو کچھ طاقتور حلقے ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اسی وقت اپوزیشن میں نواز شریف کی خواہش یہ تھی کہ عمران خان ان کے ساتھ مل کر تحریک چلائے، جب کہ دوسری طرف یہ افواہ تھی کہ کچھ لوگ سماجی لوگوں کو ملا کر ایک جماعت بنانا چاہتے ہیں جس سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا راستہ رک سکے اور اس میں عبدالستار ایدھی، حمید گل اور عمران خان کے نام لیے جا رہے تھے۔
اس ماحول میں عمران خان کی شادی کو بھی ایک سیاسی بحث بنا دیا گیا۔ اسی لیے اپنی شادی کے دو ماہ بعد 9 جولائی کو لاہور میں انھوں نے کہا کہ میری شادی کو یہودی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ میں سیاست میں آ کر اپنی عزت گنوانا نہیں چاہتا۔ اس وقت یہ بات بہت عام تھی کہ عمران خان کا پاسبان سے رابطہ ہوا ہے۔
اس لیے انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں اتنا پاگل نہیں ہوں کہ پاسبان جیسی چھوٹی اور کمزور جماعت کے ذریعے سیاست میں آؤں۔ اور ساتھ ہی اپنی ایک خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اس طرح تو صرف کچھ نشستیں ہی ملیں گی اور میں عوام کی خدمت نہیں کر سکوں گا۔ پہلے دن سے ہی عمران خان کو کم نشستیں نہیں چاہیے تھیں۔ لیکن ان کے بیانات سے یہ لگ رہا تھا کہ وہ سیاست کا منع تو کر رہے ہیں لیکن وہ سیاست میں آ چکے ہیں۔
ان کے اس بیان اور شادی کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ 13 اپریل 1996ء کو انھوں نے چکوال میں کہا کہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے میں جلد میدان میں آؤں گا۔ انھوں نے زوردار تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ضیاء الحق اور معین قریشی کی پیش کش اس وجہ سے ٹھکرا دی تھی کہ میں موجودہ نظام میں کام نہیں کر سکتا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ موجودہ سیاسی جماعت میں کوئی اس قابل نہیں ہے کہ اس میں شمولیت اختیار کی جائے۔ غور کیجیے گا کہ یہ بات 13 اپریل 1996ء کی ہے، جب وہ سیاست میں آنے کا باقاعدہ اعلان کر رہے ہیں۔ وہ شادی کر چکے تھے اور ساتھ ساتھ اسپتال نے بھی کام شروع کر دیا تھا۔
ان کی تنقید پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں پر تھی۔ دوسری طرف نوازشریف کی پیشکش کو وہ ٹھکرا چکے تھے اور بینظیر کے ساتھ وہ پڑھ چکے تھے لیکن ان کے خلاف تھے، دوسری طرف پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کھلا ہوا تھا۔ صدر لغاری اور بینظیر کے اختلافات سب کے سامنے تھے۔ امریکی سفیر اور اس وقت کی نائب وزیر خارجہ رابن رافیل سرگرم تھی، اور اس ساری صورتحال میں اگلے دن یعنی 14 اپریل کو شوکت خانم اسپتال میں دھماکا ہو جاتا ہے، چھ افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کا شک کس طرف جائے گا؟ یقینی طور پر سیاسی جماعتوں کی طرف یا پھر حکومت کی طرف؟ اور اس انتشار کا فائدہ کسے ہوتا۔ ایک بہت بڑی سازش تھی جس میں لوگوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی۔
عمران کا سیاسی چہرہ بن چکا تھا اور ایسے میں یہ دھماکا کس کو سیاسی نقصان دیتا؟ کیا اس کا مطلب عمران کو سیاست سے دور رکھنا تھا، یا کسی کو سیاست سے باہر نکالنا تھا۔ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ لیکن اس دھماکے کے فوراً بعد عمران خان اسپتال پہنچ گئے۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ عمران خان کو قتل کرنے کی سازش تھی لیکن دوسرا خیال یہ تھا کہ اس کا مقصد حکومت کو آخری دھچکا دینا تھا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں کھلبلی مچ گئی۔
وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے ذریعے کوئی بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے، اس لیے اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو جو کہ پشاور میں تھیں فوراً ہی لاہور پہنچ گئیں اور اسپتال کا دورہ کیا۔ جیسے ہی بے نظیر اسپتال پہنچیں عمران خان وہاں سے چلے گئے۔ بعد میں عمران خان نے کہا کہ میں منافق نہیں ہوں جو اسپتال میں وزیر اعظم کا استقبال کروں، اور میں کوئی سیاسی جماعت نہیں بنانا چاہتا، صرف اصلاحات چاہتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ دھماکے کے لیے لاہور کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
اب ماحول بن چکا تھا۔ عمران اس دن بھی سیاسی جماعت کا منع کر رہے تھے لیکن کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ ماحول بنایا جا رہا ہے اور ایسا ہی ہوا، صرف دس دن بعد 25 اپریل کو عمران خان نے تحریک انصاف کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں گے اور اسمبلیوں میں نئے چہرے سامنے لائیں گے۔
اب 20 سال بعد آپ دیکھ لیجیے کہ اس میں کتنے نئے چہرے ہیں۔ خیر عنوان یہ نہیں ہے بلکہ وہ دھماکا ہے جس کے مقصد اور ملزم آج تک واضح نہیں ہو سکے۔ اس پوری کہانی کو آج ہونے والے بیانات اور پچھلے سال ہونے والے واقعات کی روشنی میں دیکھیں۔ ہمیشہ ایک ماحول بنایا جاتا ہے اور اس کے تحت واقعات کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاست، اقتدار اور اختیار چند لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہوتا ہے۔
وہ بہت سے ہیرو بناتے ہیں اور بہت سے ہیروز کو عین وقت پر دھوکا دے کر زیرو کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی سیاسی تاریخ ایسی ہی ہے جنھیں ہمیشہ واپسی کا سفر لینا پڑا۔ ایسے میں مشاہد اللہ خان کی کون سی بات نئی ہے اور ان کا استعفیٰ کون سا نیا ہے۔ کل پھر ایک ماحول بنے گا، کل پھر کوئی ہیرو ہو گا، کام نکلنے پر زیرو بنا دیا جائے گا اور پھر کوئی اور مشاہد اللہ خان ہو گا۔ جس طرح گھر گھر کی کہانی ایک ہی ہوتی ہے، اسی طرح 68 سال بعد بھی یہاں کی کہانی وہی ہے، مگر لگتا ہے آج کل تھوڑا بریک لگا ہوا ہے۔