پاک بھارت امن کی فوری ضرورت
پاک بھارت سرحد کے دونوں جانب ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا انبار لگا ہوا ہے۔
پاک بھارت سرحد کے دونوں جانب ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں مگر پھر بھی دور ہیں۔ میں بھارت کے متوسط طبقوں کے جتنے زیادہ لوگوں سے ملتا ہوں اتنا ہی زیادہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں امن کا پل تعمیر کرنے سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
دونوں جانب حکمران اور ان کے اشاروں پر چلنے والا میڈیا جان بوجھ کر یا اپنی لاعلمی کی وجہ سے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو بڑھاتے ہیں۔ پچھلے ساٹھ سال سے یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ ہم ایک دوسر ے کے سیاسی، معاشی اور سماجی مفادات کو مخالفت کے پہلو سے دیکھتے ہیں۔
اس کے بر عکس اس عرصے میں پاکستان اور بھارت میں زندگی کے ہر شعبے میں زبردست تبدیلی آ چکی ہے، حالانکہ دونوں ملکوں میں اقتصادی بنیاد زراعت سے صنعت کی جانب تبدیل ہونے کی رفتار اتنی نہیں رہی جتنی کہ ہونی چاہیے تھی جب کہ خدمات کی صنعت (سروس انڈسٹری) مجموعی قومی پیداوار(GDP) میں50 فیصد شامل کرنے کے قابل ہو گئی ہے۔
عالم گیر مواصلاتی ٹیکنالوجی، پرانی سوچ کو بہا کر لے جا رہی ہے۔ ان دونوں ملکوں میں گلوبلائزیشن کی مخالفت کے باوجود اطلاعات اور علم کی طرف مراجعت کا سلسلہ جاری ہے۔ تقسیم کے بعد کے دور میں متوسط طبقات نے کئی گنا ترقی کی ہے، عمرکے تناسب سے آبادی کی تقسیم میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور60 فیصد آبادی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جس کی عمر 30 سال سے کم ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے تجزیہ کار اور پالیسی ساز، جو مسخ شدہ تاریخ کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان تمام تبدیلیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔
کولکتہ میں '' پاک بھارت تعلقات... چیلنجز اور پیش قدمی'' پر ایک حالیہ سیمینار کے دوران جس کا اہتمام سہ ماہی جریدےNew Approach کے ایڈیٹر شیکھر باسورائے نے کیا تھا، نو کے نو مقررین اس بات پر متفق تھے کہ دہشت گردی کا ایجنڈا ناکام بنانے کے لیے کسی خلل اور تعطل کے بغیر مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ایک دوسرے کو بہتر انداز میں سمجھنا چاہیے۔ اس سیمینار میں جس میں حاضرین کی بڑی تعداد شریک تھی مقررین کے تاثرات کا حوالہ دینا مناسب ہو گا۔ ممتاز صحافی بھرت بھوشن نے جنھوں نے اس سیمینار کے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے، پاکستان کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم مودی کی پالیسی کو مختصراً '' ڈانوا ڈول پالیسی'' قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی نے اُوفا (روس) میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا اس کی وجہ 2016ء میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس تھی۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔ ان کی اس پر امیدی کی وجہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حوالے سے ان کا تجربہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''پاکستان اور بھارت کے مشترکہ فطری مفادات ہیں، اس لیے بھارت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو وسطی ایشیاء کے پل کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔''
اپنی زیر طباعت کتاب سے بعض حوالے دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''ہم نے بھارت کے ساتھ متعدد معاملات پر در پردہ مذاکرات میں زبردست پیش رفت کی تھی اور اگر وزیر اعظم من موہن سنگھ کا دورہ پاکستان عملی شکل اختیار کر لیتا تو سر کریک اور سیاچن کے معاہدوں پر دستخط ہو جاتے۔'' قصوری نے بجا طور پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں امن کے عمل کو آگے بڑھاتے رہنے کے لیے کسی بھی فریق کو جیت کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔
جنگی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کے ساتھ جڑے ہوئے میڈیا کے ایک حصے نے، بقول جاوید جبار ''پاک بھارت تعلقات کو mediastation " کر دیا ہے۔ ان لوگوں کا کردار امن دشمن اور اس طرح عوام دشمن رہا ہے۔
سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اپوزیشن کو اعتماد میں نہ لینے اور ''پولیس مین جیسی سوچ'' رکھنے پر، جو ایک بڑا مسئلہ ہے، وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ RSS کے میگزین Seshardri Chari کے ایڈیٹر، پاک بھارت امن عمل کے بارے میں بہت مثبت سوچ رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے باوجود ہم مذاکرات چاہتے ہیں۔'' تاہم انھیں اس بات پر تحفظات تھے کہ پاکستان کی فوج اور غیر ریاستی اداکار امن کو موقع دینے کے خلاف ہیں۔ انھوں نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاسی لوگ امن کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
سینیٹر تاج حیدر کا خیال تھا کہ سبھاش چندر بوس کی سیکولر اور سوشلسٹ روایت پر تعمیر کرتے ہوئے امن عمل کو آگے بڑھانا چاہیے مگر سامراجی اسلحہ ساز انڈسٹری اور مذہبی لابیاں اس کی مزاحمت کرتی ہیں۔شاعر اور ادیب جاوید اختر کا کہنا تھا کہ ''کشمیر اور دہشت گردی کے معاملات کی فالٹ لائن،دو قومی نظریے کے بنیادی تصور میں شامل ہے۔''
انھوں نے سوال کیا کہ ''اگر ہم کشمیر کے معاملے میں اسے قبول کر لیں تو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا کیونکہ اس طرح وہ قانونی طور پر B کلاس شہریوں میں بدل جائیں گے۔'' میں نے دہلی میں بھی مسلم دانشوروں کے منہ سے یہ بات سنی ہے۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی ہند بھی یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ سیکولر انڈیا کے ساتھ ہے، واضح طور پر اس سوچ کی حمایت کرتی ہے۔
تاہم جاوید جبار نے جاوید اختر کو جواب دینے کا حق استعمال کیا اور کمزور دو قومی نظریے کا یہ کہتے ہوئے طاقتور طریقے سے دفاع کیا کہ مذہب کی بنیاد پر قوم ہو سکتی ہے۔امن کے داعی اور سابق بھارتی وزیر مانی شنکر آئر نے کھرے پن کا مظاہرہ کیا اور اپیل کی کہ آگے بڑھا جائے۔ انھوں نے کہا کہ'' ہمیں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ کون زیادہ ہوشیار ہے بلکہ یہ سمجھنے کے لیے مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں کہ پاکستانیوں کے لیے پاکستان اور بھارتیوں کے لیے بھارت کا کیا مطلب ہے۔'' انھوں نے اپنے ذاتی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے کولکتہ کے اس اجتماع کو بتایا کہ ''پاکستان کے عوام کی پوزیشن بھارت کے مقابلے میں بہت مختلف رہی ہے۔''
میری گزارش یہ تھی کہ ہمیں صرف بیان کردہ سرکاری خطوط پر امن کی طرف پیش قدمی کی بات کرنے کی بجائے برصغیر کے عوام کے نکتہ نظر سے بات کرنی چاہیے۔ جب ہم دو ملکوں کی بات کرتے ہیں تو ہم بھارت میں رہنے والے ہر تیسرے انسان اور پاکستان میں غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہر چوتھے انسان کی بات کرتے ہیں۔
ہم پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً ہر اُس تیسرے بچے کی بات کرتے ہیں جسے پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا اور اس طرح ہم ان لوگوں کی بات کرتے ہیں جو سرحدوں پر مارے جاتے ہیں۔ پچھلے 2 سال کے دوران جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کے 800 واقعات رپورٹ ہوئے۔ صرف جولائی کے مہینے میں فائرنگ کے 11 واقعات ہوئے، جن میں بھارت کی طرف ایک شخص ہلاک اور 16 زخمی ہوئے جب کہ پاکستان کی طرف 10 افراد ہلاک ہوئے۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اس حوالے سے امن فوری ضرورت ہے جب کہ بے حس حکومتیں اور اسلام آباد و دہلی کے تجزیہ کار اُوفا کی ملاقات کے حوالے سے یہ بچکانہ باتیں کرتے ہیں کہ پہلے کس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ ریاست کی پروپیگنڈا مشینوں کے باوجود بھارت کے بارے میں پاکستان کا بیانیہ ہم آہنگ نہیں ہے۔
(مصنف فری لانس صحافی اورWhat's wrong with Pakistan? کا مصنف ہے)
دونوں جانب حکمران اور ان کے اشاروں پر چلنے والا میڈیا جان بوجھ کر یا اپنی لاعلمی کی وجہ سے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو بڑھاتے ہیں۔ پچھلے ساٹھ سال سے یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ ہم ایک دوسر ے کے سیاسی، معاشی اور سماجی مفادات کو مخالفت کے پہلو سے دیکھتے ہیں۔
اس کے بر عکس اس عرصے میں پاکستان اور بھارت میں زندگی کے ہر شعبے میں زبردست تبدیلی آ چکی ہے، حالانکہ دونوں ملکوں میں اقتصادی بنیاد زراعت سے صنعت کی جانب تبدیل ہونے کی رفتار اتنی نہیں رہی جتنی کہ ہونی چاہیے تھی جب کہ خدمات کی صنعت (سروس انڈسٹری) مجموعی قومی پیداوار(GDP) میں50 فیصد شامل کرنے کے قابل ہو گئی ہے۔
عالم گیر مواصلاتی ٹیکنالوجی، پرانی سوچ کو بہا کر لے جا رہی ہے۔ ان دونوں ملکوں میں گلوبلائزیشن کی مخالفت کے باوجود اطلاعات اور علم کی طرف مراجعت کا سلسلہ جاری ہے۔ تقسیم کے بعد کے دور میں متوسط طبقات نے کئی گنا ترقی کی ہے، عمرکے تناسب سے آبادی کی تقسیم میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور60 فیصد آبادی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جس کی عمر 30 سال سے کم ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے تجزیہ کار اور پالیسی ساز، جو مسخ شدہ تاریخ کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان تمام تبدیلیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔
کولکتہ میں '' پاک بھارت تعلقات... چیلنجز اور پیش قدمی'' پر ایک حالیہ سیمینار کے دوران جس کا اہتمام سہ ماہی جریدےNew Approach کے ایڈیٹر شیکھر باسورائے نے کیا تھا، نو کے نو مقررین اس بات پر متفق تھے کہ دہشت گردی کا ایجنڈا ناکام بنانے کے لیے کسی خلل اور تعطل کے بغیر مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ایک دوسرے کو بہتر انداز میں سمجھنا چاہیے۔ اس سیمینار میں جس میں حاضرین کی بڑی تعداد شریک تھی مقررین کے تاثرات کا حوالہ دینا مناسب ہو گا۔ ممتاز صحافی بھرت بھوشن نے جنھوں نے اس سیمینار کے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے، پاکستان کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم مودی کی پالیسی کو مختصراً '' ڈانوا ڈول پالیسی'' قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی نے اُوفا (روس) میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا اس کی وجہ 2016ء میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس تھی۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔ ان کی اس پر امیدی کی وجہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حوالے سے ان کا تجربہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''پاکستان اور بھارت کے مشترکہ فطری مفادات ہیں، اس لیے بھارت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو وسطی ایشیاء کے پل کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔''
اپنی زیر طباعت کتاب سے بعض حوالے دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''ہم نے بھارت کے ساتھ متعدد معاملات پر در پردہ مذاکرات میں زبردست پیش رفت کی تھی اور اگر وزیر اعظم من موہن سنگھ کا دورہ پاکستان عملی شکل اختیار کر لیتا تو سر کریک اور سیاچن کے معاہدوں پر دستخط ہو جاتے۔'' قصوری نے بجا طور پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں امن کے عمل کو آگے بڑھاتے رہنے کے لیے کسی بھی فریق کو جیت کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔
جنگی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کے ساتھ جڑے ہوئے میڈیا کے ایک حصے نے، بقول جاوید جبار ''پاک بھارت تعلقات کو mediastation " کر دیا ہے۔ ان لوگوں کا کردار امن دشمن اور اس طرح عوام دشمن رہا ہے۔
سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اپوزیشن کو اعتماد میں نہ لینے اور ''پولیس مین جیسی سوچ'' رکھنے پر، جو ایک بڑا مسئلہ ہے، وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ RSS کے میگزین Seshardri Chari کے ایڈیٹر، پاک بھارت امن عمل کے بارے میں بہت مثبت سوچ رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے باوجود ہم مذاکرات چاہتے ہیں۔'' تاہم انھیں اس بات پر تحفظات تھے کہ پاکستان کی فوج اور غیر ریاستی اداکار امن کو موقع دینے کے خلاف ہیں۔ انھوں نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاسی لوگ امن کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
سینیٹر تاج حیدر کا خیال تھا کہ سبھاش چندر بوس کی سیکولر اور سوشلسٹ روایت پر تعمیر کرتے ہوئے امن عمل کو آگے بڑھانا چاہیے مگر سامراجی اسلحہ ساز انڈسٹری اور مذہبی لابیاں اس کی مزاحمت کرتی ہیں۔شاعر اور ادیب جاوید اختر کا کہنا تھا کہ ''کشمیر اور دہشت گردی کے معاملات کی فالٹ لائن،دو قومی نظریے کے بنیادی تصور میں شامل ہے۔''
انھوں نے سوال کیا کہ ''اگر ہم کشمیر کے معاملے میں اسے قبول کر لیں تو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا کیونکہ اس طرح وہ قانونی طور پر B کلاس شہریوں میں بدل جائیں گے۔'' میں نے دہلی میں بھی مسلم دانشوروں کے منہ سے یہ بات سنی ہے۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی ہند بھی یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ سیکولر انڈیا کے ساتھ ہے، واضح طور پر اس سوچ کی حمایت کرتی ہے۔
تاہم جاوید جبار نے جاوید اختر کو جواب دینے کا حق استعمال کیا اور کمزور دو قومی نظریے کا یہ کہتے ہوئے طاقتور طریقے سے دفاع کیا کہ مذہب کی بنیاد پر قوم ہو سکتی ہے۔امن کے داعی اور سابق بھارتی وزیر مانی شنکر آئر نے کھرے پن کا مظاہرہ کیا اور اپیل کی کہ آگے بڑھا جائے۔ انھوں نے کہا کہ'' ہمیں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ کون زیادہ ہوشیار ہے بلکہ یہ سمجھنے کے لیے مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں کہ پاکستانیوں کے لیے پاکستان اور بھارتیوں کے لیے بھارت کا کیا مطلب ہے۔'' انھوں نے اپنے ذاتی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے کولکتہ کے اس اجتماع کو بتایا کہ ''پاکستان کے عوام کی پوزیشن بھارت کے مقابلے میں بہت مختلف رہی ہے۔''
میری گزارش یہ تھی کہ ہمیں صرف بیان کردہ سرکاری خطوط پر امن کی طرف پیش قدمی کی بات کرنے کی بجائے برصغیر کے عوام کے نکتہ نظر سے بات کرنی چاہیے۔ جب ہم دو ملکوں کی بات کرتے ہیں تو ہم بھارت میں رہنے والے ہر تیسرے انسان اور پاکستان میں غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہر چوتھے انسان کی بات کرتے ہیں۔
ہم پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً ہر اُس تیسرے بچے کی بات کرتے ہیں جسے پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا اور اس طرح ہم ان لوگوں کی بات کرتے ہیں جو سرحدوں پر مارے جاتے ہیں۔ پچھلے 2 سال کے دوران جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کے 800 واقعات رپورٹ ہوئے۔ صرف جولائی کے مہینے میں فائرنگ کے 11 واقعات ہوئے، جن میں بھارت کی طرف ایک شخص ہلاک اور 16 زخمی ہوئے جب کہ پاکستان کی طرف 10 افراد ہلاک ہوئے۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اس حوالے سے امن فوری ضرورت ہے جب کہ بے حس حکومتیں اور اسلام آباد و دہلی کے تجزیہ کار اُوفا کی ملاقات کے حوالے سے یہ بچکانہ باتیں کرتے ہیں کہ پہلے کس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ ریاست کی پروپیگنڈا مشینوں کے باوجود بھارت کے بارے میں پاکستان کا بیانیہ ہم آہنگ نہیں ہے۔
(مصنف فری لانس صحافی اورWhat's wrong with Pakistan? کا مصنف ہے)