ہواؤں میں زہر
4000 افراد روزانہ ہلاک ہو رہے ہیں اور کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، کیوں؟
اے بادِ غربی
لائی ہے مغربی گھٹا ، فصل خزاں کا قافلہ
رنج بھی، غم بھی، خار بھی، بادِ بے خمار بھی
تیرے شرار ِسوز سے، پھول چمن میں جل اُٹھے
ترے ہی نَیشِ خار سے، سینہ ِ گُل فگار ہے
تیری حیات میں نہاں، مانا کہ ہے خزاں کی جاں
تیری ہی گود میں جواں پل کے ہوئی بہار بھی
......
رنگ خزاں نے لے لیے، باغ میں برق و بار کے
بلبلِ نیم جاں نہ رو، آتے ہیں دن بہار کے
پی بی شیلے (4 اگست 1792ء تا 8 جولائی 1822ء) نے جب اپنی مشہور نظم ''اوڈ ٹو دی ویسٹ ونڈ'' مندرجہ بالا سطور پر ختم کی ہو گی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ کچھ ہی عرصے بعد زمین پر ایسی بہار بھی آیا کرے گی جو خزاں سے بد تر ہو گی۔ بادِ صبا اور پُروائی کو یاد کر کر کے شاعری کرنے والے سوچ بھی نہ سکتے ہوں گے کہ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب ہوائیں تک زہر آلود ہو جائیں گی۔ پُروائی ہو، بادِ نسیم ہو کہ بادِ سموم اور صرصر، یہ سب کی سب زہر آلود ہو گئی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر برس آلودہ ہوا کی بدولت ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 70 لاکھ سے زائد ہے۔ ترقی پذیر ممالک کا تو کہنا ہی کیا ماہرین بتاتے ہیں کہ صرف انگلستان میں ہر برس آلودگی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 29,000 ہے۔ واضح رہے کہ یہ تعداد موٹاپے اور شراب کی مشترکہ ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تعداد سڑک پر حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تعداد ا یڈز اور ملیریا سے ہلاک ہونے والوں کی مشترکہ تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہوائیں زہریلی کیوں ہو رہی ہیں؟ کون ہے جو اِن فضاؤں میں زہر گھول رہا ہے؟ جواب یہ ہے کہ کوئی اور نہیں ہم خود ہی اِس کے ذمے دار ہیں۔ اِس کی ایک مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ آپ تک میری جو یہ لکھت اس پہنچ رہی ہے۔ میں یہ تمام سطور کمپیوٹر پر لکھتا ہوں۔ کمپیوٹر چلانے کے لیے بجلی چاہیے۔ بجلی ہی کے ذریعے سے یہ ''ایکسپریس'' کے دفتر تک پہنچتی اور وصول کی جاتی ہیں، اور میں نہیں جانتا کہ اگر برقی رو نہ ہو تو طباعت کا کیا ہو گا اور ترسیل کا کیا بنے گا۔
میرے خیال میں آج اخبار کی تمام تر صنعت کے لیے برقی رو اور برقی رو کی مسلسل فراہمی نہایت ضروری ہے۔ اِس کے بغیر اخبار کا خیال کم از کم میں تو نہیں کر سکتا۔ اب ذرا یہ تصور کریں کہ یہ بجلی آتی کہاں سے ہے ظاہر ہے بڑے بڑے ''پاور پلانٹس'' سے۔ بجلی بنانے کے لیے جب یہ پاور پلانٹس چلتے ہیں تو فضا کو دھویں سے بھر دیتے ہیں۔ اِس دھویں میں ہمارے آپ کے اور اِس زمین کے لیے ایک خطرناک گیس ہوتی ہے ''کاربن ڈائی آکسائیڈ''۔ میرے سامنے پاکستانی ''پاور پلانٹس'' کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اعداد و شمار تو نہیں ہیں، لیکن امریکی پاور پلانٹس کے ہیں۔ ذرا اُن پر غور فرمائیں۔
''نواجا جنریٹنگ اسٹیشن'' یہ اریزونا میں ہے۔2011ء میں یہاں سے1 کروڑ 69 لاکھ میڑک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوا۔ ''مونروے پاور پلانٹ'' مشی گن۔1 کروڑ 64 لاکھ میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ ''بروس مینس فیلڈ پاور پلانٹ'' پینسلوانیا۔ 1 کروڑ 4 لاکھ میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ ''جنرل جیمس ایم گیون پاور پلانٹ'' اوہایو۔1 کروڑ 66 لاکھ میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ ''گبسن جنریٹنگ اسٹیشن'' انڈیانا۔1 کروڑ 69 لاکھ میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ ''ڈبلیو اے پیرش جنریٹنگ اسٹیشن'' ٹیکساَس۔1 کروڑ 78 لاکھ میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ ''جیمس ایچ ملر جونئیر الیکٹرک جنریٹنگ پلانٹ'' الباما۔ 2 کروڑ 7 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ ''رابرٹ ڈبلیو شیرر پاور پلانٹ'' جارجیا۔ 2 کروڑ 13 لاکھ میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔
یہ اعداد و شمار صرف امریکا کے چند بجلی بنانے والے کارخانوں کے ہیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ ہم آپ بڑے آرام سے جو بجلی استعمال کرتے ہیں وہ کتنی آلودگی کا سبب بنتی ہے، اور اِس آلودگی سے ہر برس کتنے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ احساس مر چکا ہے۔ کیا ہم آپ کو کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ اِن معصوم ہلاکتوں میںمیرا اور میرے گھر والوں کا کتنا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو جتنی زیادہ بجلی استعمال کر رہا ہے وہ اتنا ہی اِس قتلِ عام میں شریک ہے۔ چین امریکا سے کہیں آگے ہے۔ ہم اور ایک دنیا چین کی ترقی کو رشک، حیرت اور حسرت سے دیکھتی ہے۔
لیکن افسوس کہ اِس ترقی کی قیمت ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ آج چین نے ترقی کر کے اپنی ہوائیں اتنی زہریلی کر لی ہیں کہ وہاں روزانہ4000 ہزار افراد صرف اور صرف ہوا میں موجود زہر کی بنا پر ہلاک ہوتے ہیں۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے کے طبیعات دانوں نے ایک حالیہ تحقیق کے بعد بتایا کہ قریباً16 لاکھ افراد چین میں دِل پھیپھڑوں اور فالج وغیرہ کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ اِن امراض کا سبب چین کی انتہائی فضائی آلودگی ہے۔
4000 افراد روزانہ ہلاک ہو رہے ہیں اور کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، کیوں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ اِس سے نصف ہلاکتوں پر اقوامِ متحدہ کی فوجیں کسی ملک میں اُتر سکتی ہیں۔ اِس کے نصف سے بھی نصف ہلاکتوں پر حقوقِ انسانی اور حقوقِ نسواں کے ادارے و تحاریک وہ شور و غوغا کرتے ہیں کہ الامان۔ پاکستان کے کسی کونے میں کہیں تیزاب پھینکنے کا ایک واقعہ ہو جائے تب تو گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑتی ہے، یہاں 4000 لوگ روز مر رہے ہیں، نہ تو کسی ٹی وی چینل کو خیال آتا ہے نہ ہی کسی اور کو، کیوں؟
اب ایک اور طُرفہ تماشا ملاحظہ ہو۔ جو تنظیمیں ماحولیات پر کام کر رہی ہیں، اُن کا لٹریچر ملاحظہ فرمائیں۔ فضائی آلودگی دور کرنے کے اُن کے منصوبوں پر غور فرمائیں۔ آپ کو یوں لگے گا کہ دنیا بھر کی ہواؤں میں زہر جنوبی ایشیا اور افریقا کے اُن غریبوں کی وجہ سے ہو رہا ہے جو اپنے گھر میں اُپلے تھاپ کر چولھا جلاتے ہیں، یا جن کے گھر میں لکڑی جلا کر کھانا تیار کیا جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کہاں گھروں میں اُپلے یا لکڑی جلانا اور کہاں صرف بجلی بنانے کے ہزاروں میں سے صرف ایک کارخانے کا کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2 کروڑ 13 لاکھ میٹرک ٹن۔ کوئی نسبت اور تناسب ہے؟ کیوں یہ ذکر بھی لبوں پر نہیں آتا۔ آزادی اظہار رائے کِن وادیوں کی سیر کو چلی جاتی ہے؟ آزادی کا اور سچ بیانی کا یہ مضحکہ خیز تصور کس نے اور کیوں دیا ہے؟ کیوں ہم اِسے سینے سے لگائے پھرتے ہیں؟
اب ذرا اُن اعداد و شمار پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے کہ ایک امریکی گھرانہ اوسطا ًہر برس ہوا میں کتنا زہر گھولنے کا باعث بن رہا ہے۔ ماحول کو تبدیل کر دینے والی آلودگی (کاربن ڈائی آکسائیڈ) 85 ٹن۔ اوزون کو تباہ کرنے والی آلودگی 325 پونڈ۔ تیزابی بارشوں کا سبب بننے والی آلودگی،411 پونڈ۔ چھوٹے ذروں کی آلودگی،43 پونڈ۔ زہریلے لیڈ کو پھیلانے میں حصہ، 1.2 اونس۔ پارے کے زہر کا پھیلاؤ، 0.004 اونس۔