ہری پور والوں کی ہری جھنڈی
ضمنی الیکشن میں ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے
حکمرانی میں قدرت نے ایسی کشش رکھی ہے کہ اس کے بارے میں سوچنا اچھا لگتا ہے جسے مل جائے وہ اس کے استعمال پر غور کرتا ہے اور جسے نہ ملے وہ پانے کے رستے تلاش کرتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے جذبات میں بھی کچھ ایسا ہی تلاطم برپا تھا۔ وہ بھی سوچ کی راہوں پر چلتے چلتے بہت دور پہنچ چکے تھے کہ اچانک ان سے منزل کا نشان گم ہو گیا۔ پیچھے پلٹنے کے تمام راستے بھی مسدود ہو گئے۔
پھر دل نہ گھبرائے تو کیا ہو۔ مگر ایسے میں جو ہوتا ہے اسے دل ماننے کو ہرگز تیار نہیں ہوتا۔ دل مانے نہ مانے حقیقت کو تو ہر حال میں تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ڈوبتا ہوا سورج ابھرتے سورج کی ضمانت نہیں دیتا۔ یہ تو بس انسان کے اندر بسی ایک خوش فہم دنیا اسے آنے والے کل کی امید دلاتی ہے مگر اس کے بھروسے پر کوئی غلطی پہ غلطی کرتا جائے تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ قدم دروازے سے باہر جائیں اور غلط سمت میں اٹھ جائیں اور اس پر مستزاد یہ کہ سمت کا تعین بھی سوچ سمجھ کر نہ کیا جائے تو نتائج بھلا کیسے درست مل سکتے ہیں۔
ضمنی الیکشن میں ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس بار این اے 19 ہری پور کے میدان میں عوام نے پی ٹی آئی کو ہری جھنڈی دکھائی ہے حالانکہ اس حلقے پر عمران خان کی اہلیہ ریحام خان نے بھی پی ٹی آئی کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب بھی کیا تھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ستارے وہی اچھے ہوتے ہیں جو روشن ہوں مگر ستارہ کتنا ہی روشن ہو آسمان سے ٹوٹ جائے تو ستارہ نہیں رہتا۔ کبھی کبھی صفحہ قرطاس پر وقت بڑی سفاکی سے اپنی تاریخ رقم کرتا ہے۔ زندگی کی داستان بھی کتنی عجیب ہے، جو کہیں احساسات کا آئینہ ہے تو کہیں حادثات کا مجموعہ ہے۔ کسی کو سنوارنا اور کسی کو بکھیرنا اس زندگی کا مشغلہ ہے۔
دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ دھرنا سیاست شروع کرنے کے بعد سے عوام پی ٹی آئی کو مسلسل مسترد کر رہے ہیں۔ جب سے اب تک ہونیوالے ضمنی انتخابات میں یہ پی ٹی آئی کی مسلسل چھٹی شکست ہے۔ یہ وہ نتائج ہیں جن کے حوالے سے کسی دھاندلی کی کوئی شکایت یا خبر سامنے نہیں آئی، ویسے بھی اس مرتبہ یہاں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت الیکشن کرائے گئے تھے، اس لیے دھاندلیوں کے امکانات ختم ہو کر رہ گئے تھے۔
خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام ہے، یہ محاورہ پوری کہانی بیان کردیتا ہے کہ ''دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آجاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر دکھائی نہیں دیتا''۔ یوں تو خود احتسابی کی ضرورت ہر فرد اور ہر ادارے کو ہمیشہ ہی رہی ہے، ہماری ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاستدان کو خود احتسابی کی ضرورت ہے، لیکن آج اس کی سب سے زیادہ ضرورت تحریک انصاف اور عمران خان کو ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی کے دعوے کے ساتھ سامنے آئی تھی، نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف مائل کیا تھا، پڑھے لکھے طبقے کی اچھی خاصی تعداد نے محسوس کیا تھا کہ شاید 2 روایتی جماعتوں کے مقابلے میں اصولوں پر چلنے والی، انقلاب لانے کی دعویدار صاف ستھری جماعت پاکستان کے مسائل حل کر دے گی۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور نے عوام کو بے حد مایوس کر رکھا تھا، وہ دل سے چاہتے تھے کہ کوئی اچھا لیڈر اور اچھی جماعت سامنے آ کر ملک کی تقدیر بدلے۔ خان صاحب نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ ہمیشہ سچ بولیں گے۔
ان کی جماعت میں گھسے پٹے روایتی اور موسمی سیاستدانوں کی گنجائش نہیں ہو گی، وہ لوٹوں کو قبول نہیں کرینگے، وہ سیاست کے اچھے اور بلند اصولوں پر چلیں گے لیکن عملاً یہ ہوا کہ 2013ء کے انتخابات سے پہلے ہی پی ٹی آئی اپنے دعوؤں اور اصولوں سے پیچھے ہٹنے لگی، اس نے اپنے دروازے پرانے موسمی سیاستدانوں کے لیے کھول دیے۔ خان صاف نے صرف ایک دلیل دی کہ فرشتے کہاں سے لاؤں۔ پھر یہ کہا گیا کہ پارٹی اپنے انتخابات کرا کے نئی روایت ڈالنا چاہتی ہے، یہ واقعی اچھی اور نئی روایت تھی، لیکن جو کچھ ان انتخابات میں ہوا اس کی پوری کہانی جسٹس وجیہہ الدین کمیشن نے بیان کر دی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ضروری اقدامات کیے جاتے لیکن الٹا جسٹس وجیہہ الدین جیسے نیک نام شخص کو نشانہ بنایا گیا۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو اچھی خاصی کامیابی حاصل ہوئی، ان کی حکومت بن گئی، اس کے باوجود انھوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن میں منظم دھاندلی ہوئی ہے اور ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے، پھر خان صاحب کے مطالبے پر ان کی شرائط کے عین مطابق عدالتی کمیشن قائم کیا گیا، ان کے اصرار پر ہی سابق چیف جسٹس ناصر الملک سے درخواست کی گئی کہ وہ اس کمیشن کی سربراہی کریں، اس کمیشن نے مکمل چھان بین کے بعد اپنا فیصلہ دے دیا۔
جس کے بعد ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کے لیے قراردادیں قومی اسمبلی میں پیش کر دیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی موجودگی کا سارا انحصار وزیر عظم نواز شریف کے ایک لفظ ہاں یا نہ پر تھا۔ وزیر اعظم نے خود اپنی جماعت کے اندر اختلاف رائے کو نظر انداز کر کے ایم کیو ایم اور مولانا کو منایا اور انھوں نے یہ قرار دادیں واپس لیں۔
اس تمام صورتحال کے بعد کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تحریک انصاف اپنے سیاسی سفر، اب تک کے سارے معاملات کا بھرپور جائزہ لے، اپنا احتساب کرے، اپنے ماضی سے سبق سیکھے۔ جب کوئی کمزور انسان حالات سے شکست کھا جائے تو اتنا اچنبھا نہیں ہوتا مگر جب فاتح اپنے قدموں کی پستی سے بھی نیچے گر جائے تو اس کی ذلت و رسوائی کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔
ضمنی الیکشنوں کے نتائج واضح طور پر یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اب پی ٹی آئی کو صبر و سکون سے اگلے عام انتخابات کا انتظار کرنا ہو گا اور اس دوران اپنے آپ کو مستحکم و منظم بنانے کے لیے متعدد ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے۔ پارٹی کو اس قبضہ گروپ سے چھڑانا ہو گا کہ جس کی نشاندہی جسٹس وجیہہ الدین بار بار کرتے رہتے ہیں اور پارٹی کے فیصلہ سازی کے خاص ادارے یعنی کور کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کو ان بااثر لوگوں سے بچانا ہو گا کہ جو اس سے پہلے دوسری پارٹیوں میں شامل تھے اور اپنی غلط حرکتوں سے ان پارٹیوں کے لیے بھی مسائل کھڑے کرتے رہے اور ان کا یہ پرانا کھیل اب یہاں بھی جاری ہے۔
انسان بڑی سے بڑی الجھن کو سلجھا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ خود کسی نفسیاتی الجھاؤ کا شکار نہ ہو۔ ورنہ زندگی پنجرے میں قید اس پرندے کے مانند گزرتی ہے جو خیالات کی پرواز کے ذریعے آسمان کی بلندیوں کو تو چھو سکتا ہے مگر پیروں کو زمین سے جدا نہیں کر پاتا۔