سپریم کورٹ کی جانب سے تلور کے شکار پر پابندی

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات اور جنگلی حیات تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات اور جنگلی حیات تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ فوٹو فائل

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات اور جنگلی حیات تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پہلے ہی کم تھا لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی نا اہلی اور کرپشن کے باعث جنگلات کی کٹائی اس بے رحمی سے کی گئی کہ اب جنگلات برائے نام رہ گئے ہیں' جس کی وجہ سے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں' زلزلوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں بڑھ رہی ہیں' ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

نایاب پرندوں اور چوپایوں کے بے رحمانہ شکار کے باعث ان کی نسلیں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں' ملک بھر میں پالتو جانوروں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے' پنجاب حکومت نے مادہ جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائدکر دی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ نایاب جانوروں کے شکار پر پابندی کے باوجود ان کا شکار ہوتا رہتا ہے اور بعض اوقات خصوصی احکامات کے ذریعے غیر ملکیوں خصوصاً عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت دے دی جاتی ہے' گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے نایاب پرندے تلور کے شکار پر پابندی عائد کر دی ہے' تلور کے شکار کی اجازت وفاقی حکومت نے وزارت خارجہ کے ذریعے دی تھی حالانکہ یہ اختیار صوبوں کے پاس تھا لیکن ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سندھ حکومت نے وزارت خارجہ کو اجازت دی تھی۔


ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 270-A کے تحت غیر ملکیوں کے لیے شکار کی اجازت کو تحفظ دیا گیا۔ یوں دیکھا جائے تو اس معاملے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک ہی ہیں۔ شکار کی اجازت دینے کے لیے یہ منطق اختیار کی گئی کہ عرب شہزادوں کو اجازت اس لیے دی گئی کہ اس سے عرب ملکوں کے ساتھ برادرانہ تعلق کے علاوہ اس سے مالی فائدہ بھی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس کا درست جواب دیا کہ اگر یہ بات ہے تو سارا ملک غیر ملکیوں کو دے دیا جائے پیسہ بہت آئے گا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پیسہ تو ڈرگز سے بھی آتا ہے۔

کیا اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ہماری حکومت کی ترجیحات کیا ہیں' پاکستان کے حکمرانوں کے نزدیک ماحولیات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جنگلات کی اہمیت کا بھی انھیں ادراک نہیں ہے اور جنگلی حیات سے بھی انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے' جنگلات کاٹے جا رہے ہیں لیکن جنگلات کو بڑھانے کے صرف اعلانات سامنے آتے ہیں 'عملی قدم کہیں نظر نہیں آتا ۔ملک کے بڑے شہروں میں شاہراہوں کی چوڑائی اور اوور ہیڈ بریج بنائے جا رہے ہیں اور درختوں کو بے رحمی سے کاٹا جا رہا ہے۔ منصوبہ سازوں کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں جس کے نتیجے میں درختوں کو تحفظ دیا جا سکے۔

یہی حال ماحولیاتی آلودگی کا ہے۔ ماحول میں آلودگی پھیلانے والی علامات کو ختم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ المیہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے ملک و قوم کے اصل مسائل پر توجہ نہیں دی'ہر حکومت نے اپنا زیادہ وقت سیاسی جوڑ توڑ میں گزارایا ایسے منصوبے شروع کرائے جن سے مزید ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو۔تلور کے شکار پر پابندی عائد کر کے سپریم کورٹ نے درست فیصلہ کیا بلکہ زیادہ بہتر ہوتا کہ ایسے اجازت نامے جاری کرنے والوں کی بازپرس کی جاتی تاکہ وہ آیندہ سے ایسے فیصلے کرنے سے گریز کریں۔
Load Next Story