کراچی آپریشن
دہشت گردوں ،مافیاز، جرائم پیشہ اور انتہا پسندوں کے خلاف شروع کیے جانے والا ’’کراچی ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ جاری ہے
KARACHI:
5ستمبر، 2013 ء کو دہشت گردوں ،مافیاز، جرائم پیشہ اور انتہا پسندوں کے خلاف شروع کیے جانے والا ''کراچی ٹارگٹڈ آپریشن'' جاری ہے لیکن بلاامتیاز، جس آپریشن کی کراچی سمیت ملک بھر کے غیر جانبدار اور باشعور عوام توقع کر رہے تھے، وہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ موضوع کی جانب بڑھنے سے قبل مختصراً کراچی میں دہشتگردی کی چند وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی فائنڈنگ کے مطابق کراچی میں دہشتگردی کی ایک وجہ مختلف جماعتوں کے عسکری ونگز کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کے علاوہ افغان مہاجرین ، شمالی وزیرستان اور دیگر صوبوں سے آنیوالے خطرناک جرائم پیشہ افراد، زمینوں پر قبضے، منشیات، غیر قانونی اسلحہ کا کاروبار کرنیوالی مافیاز دہشت گردی، جرائم اور انتہاپسندی کی بڑی وجوہات ہیں۔
اس حقیقت سے کراچی سمیت پاکستان بھرکی غیر جانبدار، باشعور عوام اور بین الاقوامی میڈیا بھی بخوبی واقف ہے۔کراچی میں کئی مدارس اور علاقے ایسے ہیں جن کے بارے میں اکثر شکایتیں کی جاتی ہیں کہ وہاں اسلحہ اور عسکری ونگز موجود ہیں لیکن وہاں پولیس یا رینجرزکارروائی نہیں کرتی۔ ایم کیو ایم فرشتوں کی جماعت نہیں لیکن اس کے کارکنان کے خلاف کی جانیوالی بعض کارروائیاں قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں مثلاً ماورائے عدالت قتل اور لا پتہ کر دیا جانا وغیرہ۔ قانون کے مطابق کسی بھی ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور پھر عدالت میں جرم ثابت ہونے پر اُسے سزا ملنی چاہیے۔
ایم کیو ایم کیمطابق اس کے 153 کارکنان لاپتہ ہیں جب کہ 35 ماورائے عدالت قتل کیے جا چکے ہیں۔ تمام اختیارات کے ہوتے ہوئے یہ عمل بعض طاقتور خفیہ اداروں، رینجرز اور پولیس کو زیب نہیں دیتا اس عمل سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے کیونکہ ایسا عمل تو کرمنلز کرتے ہیں جو اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور تاوان نہ ملنے پر جان سے مار دیتے ہیں یا پھر لاپتہ کر دیتے ہیں۔
ماورائے عدالت قتل، لاپتہ کر دیے جانے اور الزامات یا جرائم پر حد سے زیادہ سزا یا بے قصور سزا دیے جانے، گرفتار افراد کے اہل ِخانہ سے رہائی کے عوض بھاری رشوت مانگنے سے عوام میں شدید ڈر و خوف، عدم تحفظ، احساسِ محرومی، نفرت اور بغاوت کا جذبہ بھی جنم لیتا ہے۔ مذکورہ سفاک کارروائیوں کو ختم کرنا اربابِ اختیار کا اولین فرض ہے تا کہ معاشرے میں ڈروخوف، عدم تحفظ، احساس ِمحرومی ، نفرت اور بغاوت نہ ابھرے۔ جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہرے منعقد کرنا ہر سیاسی جماعت کا جمہوری اور قانونی حق ہے ۔
اسی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے عہدیداران اور کارکنان کا بھی جمہوری اور قانونی حق بنتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے جلسے جلسوں اور احتجاجی مظاہروں کے نہ صرف انتظامات کرائیں بلکہ ان میں شرکت کر کے اپنے قائد کی تقاریر بھی سنیں۔ محض جلسے جلسوں، مظاہروں کے انتظامات کرانے، ان میں شرکت کرنے اور قائد کی تقریر سننے کو جرم قرار دے کر مجرم (سہولت کار) بنا کر پابندِ سلاسل کر کے ٹارچر کا نشانہ بنانا قانون، جمہوریت کی نفی ہے۔ نفرت انگیز تقریر کرنیوالے پر مقدمہ بنانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن انتظامات کرانے، شرکت کرنے اور تقریر سننے والوں پر مقدمہ بنا دیا جانا کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جبر اور ظلم کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
اسی حوالے سے ریاست کی جانب سے ''سہولت کار'' بنا کر پابندِ سلاسل کیے جانے اور ٹارچر کا نشانہ بننے والے ایم کیو ایم کے راہنما قمر منصور جنھیں عوام ایک شریف اور تعلیم یافتہ سیاسی ورکر کی حیثیت سے جانتے ہیں کے لیے عوام کے دلوں میںموجود محبت و ہمدردی کے گہرے جذبات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں قمر منصور کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اربابِ اختیار کو چاہیے کہ وہ سیاسی کارکنان اور جرائم پیشہ افراد میں فرق رکھیں اس کے ساتھ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کا بھی فرض بنتا ہے کہ تقریر کسی بھی جماعت کے رہنما کی ہو عوام کے سامنے تقریر کا مکمل متن پیش کرے اور اس پر تبصرے کے لیے غیر جانبدار تجزیہ و تبصرہ نگاروں کو دعوت دیں تا کہ عوام کے سامنے صورتحال مکمل واضح ہو کہ تقریر نفرت پر مبنی ہے یا حقیقت پر یا تقریر کا کتنا حصہ نفرت اور کتنا حقیقت پر مبنی ہے۔
غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کے حوالے سے کی جانیوالی کارروائیاں تسلسل کے ساتھ خصوصاً الیکٹرونک میڈیا پر لائیو کٹ، بریکنگ نیوز، ٹِکرز اور خبر نامہ میں بھر پور کوریج حاصل کرتی چلی آ رہی ہیں اور ٹاک شوز میں اینکر پرسنز بھی ان کاروائیوں پر بھر پورپروگرامز کرتے نظر آتے ہیں جب کہ مذکورہ بیان کی گئیں وجوہات اور سپریم کورٹ کی فائنڈنگ میں دی جانیوالی دیگر جماعتوں کے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں کی الیکٹرونک میڈیا پر کوریج اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف نظر آتی ہیں اور اینکر پرسنز بھی ایک ٹاک شو کے بعد شاذ و نادر ہی ان کارروائیوں پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ ان کے خلاف کارروائیوں کا تسلسل نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
میڈیا کو چاہیے کہ بھرپور انداز میں اربابِ اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہیں تا کہ کراچی میں حقیقی معنوں میں حقیقی امن کا حقیقی خواب حقیقی طور پر شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکے۔ایم کیو ایم جب اقتدار کا حصہ تھی تو اسے بھرپور کوشش کرنی چاہیے تھی کہ تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر اسمبلیوں سے ایسا بل پاس کرا کر آئینِ پاکستان میں شامل کراتی کہ آج اُسے انسانی حقوق کی جن پامالیوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے وہ نہ کرنا پڑتا۔ ایم کیو ایم کو پی پی پی کے ساتھ حکومت میں الحاق کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ پی پی پی نے بلدیاتی انتخا بات منعقد نہیں کرائے۔
ایم کیو ایم (پی پی پی) کو بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے راضی کیوں نہ کر سکی اور ناکامی کی کیا وجوہات تھیں اس پر ایم کیو ایم کو سنجیدگی سے غور کرنا اور مستقبل میں ''دودھ کا جلا چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے'' محاورے پر عمل کرنے کے ساتھ اُردو زبان کیس، کوٹہ سسٹم اور جاگیرداری سسٹم جو آج بھی مضبوط ہیں کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے اپنی عملی کو ششوں میں تیز ی لانا ہو گی۔
بحریہ ٹاؤن کی جانب سے حیدرآباد میں ''الطاف حسین یونیورسٹی'' کا سنگِ بنیاد رکھے کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن اطلاعات کیمطابق تاحال یونیورسٹی کی تعمیر کا ابتدائی کام بھی نہ ہونے کے برابر ہے دیگر معاملات کی طرح قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کو اس ضمن میں از خود جانچ پڑتال کرنی چاہیے کہ کہیں اس سلسلے میں بھی تو اُنہیں اندھیرے میں رکھا نہیں جا رہا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی کراچی آپریشن سے متعلق حالیہ شایع کردہ رپورٹ میں کراچی آپریشن کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال بہتری کی جانب بتائے جانے کے ساتھ واضح طور پر آپریشن کو زیادہ شفاف اور قانون کے دائرے میں رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ سیلاب کا راستہ روکنے کے لیے بند بنائے جاتے ہیں۔
آج ایم کیو ایم پر کڑا وقت ہے اور اسے انسانی حقوق کی پامالیوں کا سامنا ہے کل یہ وقت پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی و دیگر جماعتوں میں سے کسی پر بھی آ سکتا ہے۔ اسی لیے سب جماعتوں کو مل کر اچھے وقت میں برے وقت کی تیاری کر لینی چاہیے۔